سافٹ ویر بدلنا پڑے گا حضور !
کل میرے روحانیت پر بلاگ کی بے تحاشا پزیرائی ہوئی۔ مجھے خوشی اس بات کی نہیں ہوئ کہ آپ نے میرے بیانیہ سے اتفاق کیا ۔ ہر ایک کو اپنی رائے قائم کرنے کا بنیادی اور پیدائشی حق ہے جو ان کے پاس رہنا چاہیے ۔ خوشی مجھے اس بات کی ہوئی کہ ابھی بھی بہت سارے لوگ قدرت کے نظام پر قائم ہیں نہ صرف اسے حقیقت مانتے ہیں اس پر عمل کرنے کی کاوش میں بھی شب و روز مصروف عمل ہیں ۔ اللہ تعالی ان سب کو کامیاب کرے ۔ آمین ۔
ایک صاحب نے مجھے پاکستان سے لکھا کِہ یہ سب کچھ جو آپ نے تحریر کیا بلکل درست ہے اور یہی سچ ہے ۔ لیکن یہ اتنا سادہ نہیں ہے جتنا آپ اسے بیان کر رہے ہیں ۔
اس دنیا میں ظالم بھی ہے ، مظلوم بھی اور تماشائ بھی ۔ مجھے شیکسپیر کا مشہور جملہ یاد آگیا ۔
“All the world is a stage; And all the men and women merely players.”
بلکل ایسا ہی ہے ۔ میں نے تو اسی اسٹیج پر اور انہی کرداروں پر اپنی تحریر داغی ہے ۔ ان کردار وں یا اس کھیل میں کوئ ڈائریکٹر نہیں ہے ۔ ہر کوئ خود اپنا ڈائریکٹر ہے ۔ آپ نے اپنا رقص بھی جناب خود choreograph کرنا ہے ۔ ہر کردار اپنا رول اپنے مطابق خود کھیلے گا اور کھیل رہا ہے ۔ یہ کھیل لافانی ہے ۔ چلتا رہے گا ۔ کردار بدلتے رہیں گے ، اسٹیج کا نمونہ یا ڈیزائن بدل سکتا ہے لیکن اس کی دلکشی ہمیشہ برقرار رہے گی ۔
ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ قدرت نے ہمیں جو کردار دیا ہے ہم اس کے بر عکس رول پلے کرنے کے بے حد شوقین۔ رقص ہے تو دوسرے کی ٹانگ میں ٹانگ اڑا کر سارے رقص کا مزہ برباد کرنا ۔
نہ کھیڈاں گے نہ کھیڈن دیاں گے ۔ مرو پھر ، رہو پریشان ، بُگھتو ، قدرت کا عزاب ۔ معاملات تو بہت سادہ ہیں اور سادہ ہی رہیں گے ۔ یہ نہ ختم ہونے والا کھیل جاری رہے گا ۔ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ۔ یہ چار دن دا میلہ والی بات نہیں ہے ۔ روح کا اس میں مرکزی کردار ہے ۔
دراصل ہماری پروگرامنگ میں سارے نقص ہیں ۔ گڑبڑ وہاں ہے ۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ کمپیوٹر یا کسی بھی کمپنی کے لیے سافٹ ویر کتنی زیادہ اہمیت رکھتا ہے ۔ اچھے سافٹ ویر پروگرامرز کو یہاں امریکہ میں سونے میں تولا جاتا ہے ۔ کیونکہ ان کا بہت کلیدی کردار ہے ، وہ پروگرام دینے میں جس سے کمپنی یا استمعال کرنے والے کو فائیدہ ہو سہولت ہو ۔
اسی طرح ہمارا دماغ ہے بلکل ایک کمپیوٹر کی طرح اس کو پروگرامنگ کی ضرورت ہوتی ہے ۔ جو بچپن میں والدین اور اساتذہ پوری کرتے ہیں یا کافی حد تک معاشرہ اور مولوی ۔
ہمیں پروگرامنگ بدلنی ہے ، ہماری پروگرامنگ دنیاوی ، تقلیدی ، مادہ پرستی ، خودغرضی ، لالچ اور تنگ دلی والی ہے ۔ اسے لے کے جانا ہو گا روحانیت ، پیار ، محبت ، شکرگزاری ، ایثار اور رحم دلی کی طرف ۔ پھر دیکھیں کیسے پلک جھپکنے میں انسانی مشین اپنی original پوزیشن پر آ جائے گی ۔ بالکل اسی طرح ، جیسے ہم اپنے موبائل فونز کو factory settings پر لے کے جاتے ہیں جب کوئ وائرس آ جاتی ہے یا معاملات خراب ہوتے ہیں ۔ بلکل اسی طرح ہم سب کو قدرت کی فیکٹری سیٹنگز پر جانا ہو گا ۔ ہم تو اتنے خوش قسمت ہیں کہ ہمارے پاس اپنے پیارے نبی ص کی صورت میں ایک شاندار مثال اور نمونہ موجود ہے ۔ قرآنی آیات اور احادیث بھی ہیں جو ہمارے original کردار کے لیے بہت زیادہ رہنما ثابت ہو سکتی ہیں ۔ اور یہ دنیاداری ہماری مجبوری نہیں ہم نے خود اسے مجبوری بنایا اور اپنے آپ پر مسلط کیا، اور باقیوں کا بھی بیڑہ غرق کر دیا ۔
مجھے محسن بھوپالی کی مشہور غزل یاد آ گئ ، روک سکو تو تم پہلی بارش کی بُوندوں کو روکو ۔ آپ قدرت کو اپنی فلم چلانے سے جناب روک نہیں سکتے آپ کے پاس چوائس ہی قدرت نے کوئ نہیں چھوڑی ۔ صراط مستقیم وہی ہے اور آپ قدرت کے تابع ہیں ۔ اسی غزل پر ختم کرتا ہوں۔ بہت خوش رہیں ۔
چاہت میں کیا دنیا داری عشق میں کیسی مجبوری
لوگوں کا کیا سمجھانے دو ان کی اپنی مجبوری
میں نے دل کی بات رکھی اور تو نے دنیا والوں کی
میری عرض بھی مجبوری تھی ان کا حکم بھی مجبوری
روک سکو تو پہلی بارش کی بوندوں کو تم روکو
کچی مٹی تو مہکے گی ہے مٹی کی مجبوری
ذات کدے میں پہروں باتیں اور ملیں تو مہر بلب
جبر وقت نے بخشی ہم کو اب کے کیسی مجبوری
جب تک ہنستا گاتا موسم اپنا ہے سب اپنے ہیں
وقت پڑے تو یاد آ جاتی ہے مصنوعی مجبوری
اک آوارہ بادل سے کیوں میں نے سایہ مانگا تھا
میری بھی یہ نادانی تھی اس کی بھی تھی مجبوری
مدت گزری اک وعدے پر آج بھی قائم ہیں محسنؔ
ہم نے ساری عمر نباہی اپنی پہلی مجبوری
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔