نگران، ناصر الملک، ناصر کھوسہ اور نواز لیگ ۔
آنے والا جولائ ۲۵ کا الیکشن یہ چاروں ن ، با آسانی جیت جائیں گے ۔ روک سکو تو روک لو ۔ ریاست ایک دفعہ پھر نہ صرف پسپائ پر نظر آ رہی ہے بلکہ ہار گئ ۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ کو میں ہمیشہ ایک بہت ڈرامہ کہتا تھا اور قائم ہوں اُس پر ۔ دیکھیں کس طرح اُس نے کہا میں نے نواز شریف کو سسلین مافیا نہیں کہا ، کس طرح اُس نے حدیبیہ کھولنے کا فیصلہ میں تو لکھ دیا لیکن بعد میں جب کیس لگا تو سننے سے انکار کر دیا ۔ یہ سارے کھوسے منافقوں کے سردار ہیں ۔ بنیادی طور پر تو جسٹس اعجاز الحسن اور عطمت سعید شریفوں کی بدمعاشیوں کو لے بیٹھے ۔ شریفوں سے مقابلہ کرنا آصف کے لیے ناممکن تھا کیونکہ وہ خود کانا تھا شریفوں کا۔ ان تین ججوں کا دراصل جے آئ ٹی کا اختلافی نوٹ آج تک نواز شریف کو احتساب عدالت کے چکر لگوا رہا ہے ۔ عمران نہ سیاست دان تھا اور نہ بن سکتا ہے ۔ سیاست دان لَومڑ ی کی طرح چالاک ہونا چاہیے ۔ گو کِہ درانی نے کتاب میں نواز شریف کو بھی اونٹ کہا ، ٹرمپ کو بطخ اور مودی کو لُومڑی ۔ عمران یہ کھیل ہار گیا ہے ۔ عمران کا مسئلہ ہے جلدی give up کر جانا ، یہ ٹوئنٹی ٹوئنٹی نہیں ٹیسٹ میچ ہے ۔ سارا گند اکٹھا کر لیا ۔ ہر حالت میں جیتنا ہے ، چاہے ساری ٹیم نون لیگ سے زیادہ بڑے لٹیروں کی ہو ۔ آپ یہ جنگ ہار گئے ہیں خان صاحب ، آپ کرکٹ کمینٹیٹر یا جیمائمہ کے کلب کے مینیجر تو اچھے بن سکتے ہیں سیاست دان نہیں ۔ مان لیں ۔ ایدھی بھی خیرات کے پیسے اکٹھے کرتا تھا اور صدر پاکستان بننے کا شوق رکھتا تھا ، مر گیا بن نہ سکا ۔ خیرات کے پیسہ کی شہرت سے کوئ سیاست دان نہیں بن سکا ۔
میں نے آج سے کوئ چھ سال ہہلے ناصر کھوسہ اور سب کھوسوں پر ایک comic paper لکھا تھا ۔ آج archive سے ڈھونڈ کر پھر اپنی فیس بُک پر شئیر کروں گا ۔ کھوسہ پرانے بھوکے ننگے ، طاقت اور چودراہٹ کے شوقین بھائ ہیں ۔ سب سے چھوٹا بھائ ابھی بھی غالبا ایکسپو لاہور کا ceo ہے اور کمپنیوں کے کیس میں ہے ۔ ناصر کھوسہ جب ڈی سی لاہور تھا تو اس نے ریکارڈ کو آگ لگائ تھی جس سے شریفوں کو وہ ساری لاہور کی جائدادیں مل گئیں جو انہوں نے رجسٹیریاں forge کر کے بنائ تھیں ۔ اور موصوف suspend تک نہیں ہوا ، بلکہ شریفوں کا ایک اور وفادار زولفقار چیمہ قربان کر دیا گیا ۔ اور عین اسی وقت ان کی بہن ، جو اپنے ہی colleague شاہد رفیع کی بیگم تھیں شہباز شریف کے ساتھ بحیثیت حُور فِٹ ہوئ ہوئ تھی کچھ لوگ بیگم بھی کہتے تھے ۔ پھر چل سو چل ۔ شریف گئے تو کھوسوں نے مشرف کے تلوے چاٹ کر پھر پروان چڑھ گئے ۔ کمشنر ملتان لگ گیا ۔ ان کو اقتدار اور طاقت کا چسکہ ہے ۔ طارق باجوہ سٹیٹ بینک کے گورنر کی طرح ۔ فواد ، کھوسہ اور طارق کو ایک صفحہ کا نوٹ لکھنے کو کہ دو موت پڑ جاتی ہے ۔ ملک اور ضمیر بیچ کر عہدہ کا انتہا کا شوق ۔
اسی طرح کا حال جناب ناصر الملک کا ہے ۔ عجیب و غریب ملک ہے ، کہ وہ بندہ جس نے ۲۰۱۳ کی دھاندلی پر شریفوں کو کلین چِٹ دی جس کے پنکچروں کا بچے بچے کو پتہ ہے ۔ اس کو ۲۰۱۸ کے الیکشن کروانے کا زمہ دے دیا ۔ اس کو چھوڑیں اس نے کتنے پلاٹ لیے ، کتنے فیصلے شریفوں کے حق میں دیے یا اپنی بیٹیوں کو ورلڈ بینک میں فِٹ کروایا ، یہ ایک الیکشن کلیر کروانا بہت ہے ناصرالملک کی شریفوں سے وفاداری ثابت کرنے کے لیے ۔
ابھی ریحام کی کتاب آ رہی ہے ۔ درانی کی کتاب پر بحث جاری ہے ۔ فوج سخت پریشر اور پریشانی کے عالم میں ہے کیونکہ جیسا کہ میں نے اپنے ایک بلاگ ‘تم بھی تو ہرجائ ہو ‘میں بیان کیا تھا ، کہ آپ کے لوگ بھی تو اس گند کا حصہ ہیں ۔ اچھا کیا درانی کو کٹہرے میں لائے ہیں ۔ کل میں ایک سیمینار کی audio clip دیکھ رہا تھا جو درانی کے گروپ کے لوگوں نے عامر غوری کے زریعے پچھلے سال لندن میں کروایا جب کتاب تیار تھی ۔ لندن اسکول آف اکنامکس کے ساؤتھ ایشیا فورم نے کروایا ۔ Pro Nawaz گروپ نے سپانسر کیا ۔ اس میں دُلت تھا لیکن پاکستان کی طرف سے جنرل احسان تھا ۔ اس گروپ کو بُری طرح ناکامی ہوئ ۔ جنرل احسان نے بلکل سارا ملبہ سیاست دانوں پر ڈالا بلکہ ختم نبوت بل کی مثال دی کہ پچھلے دنوں اسمبلی نے خودی پہلے پاس کیا پھر نکال دیا ۔ سیاست دان آزاد ہیں ۔ پناما میں عدالت نے اسے نکالا فوج کا کوئ ہاتھ نہیں ۔ جنرل احسان نے ٹھیک کہا کہ political will کی ضرورت ہے اور دونوں عوام کا مائینڈ سیٹ بدلنا ہو گا ۔ بلکہ یہاں تک کہا کہ ISI کا ہیڈ تو محض Boss ہوتا ہے ۔ دُلت جیسے آپریٹر اصل میں matter کرتے ہیں، جو درانی کے منہ پر اچھی خاصی چپیڑ تھی ۔ درانی مفت میں ہیرو بن رہا ہے ۔ موجودہ ISI کا چیف تو نواز شریف کا رشتہ دار ہے ، کیوں نہیں قدم بڑھا رہا ۔ دُلت نے لومڑی کی طرح ہندوستانی ہونے کا حق ادا کیا ۔ کشمیر کو integral part of India کہا ۔ اور کہا پاکستان تو اب کشمیر سے پیچھے ہٹ گیا ہے ، خوامخواہ مودی نے میدان گرم کیا ۔ فورم میں پاک فوج کے خلاف پلانٹڈ سوال بھی کیے گئے بلکہ بلاگر سلمان احمد کو پیش کیا گیا کہ دیکھیں ہچھلے سال جنوری میں اسے فوج نے اُٹھایا اور پھینٹی بھی لگائ اور blasphemy کے قانون میں بُک بھی کیا ۔ مجھے بڑی شرم آئ کیونکہ سلمان میرا بلاگنگ میں ہی دوست بنا تھا ۔ ہم دونوں ۲۰۱۴ اور ۲۰۱۵ میں کافی سارے معاملات میں سوشل میڈیا پر تقریباً ایک جیسی بلاگنگ کرتے تھے ۔ سوائے اس کے کہ سلمان ہر معاملہ میں فوج پر چڑھائ کرتا تھا ۔ جہاں جائز تھا میں بھی کرتا تھا لیکن سلمان کا paid agenda تب بھی مجھے لگتا تھا ۔ عمران خان کو ہم دونوں رگیدتے تھے حالانکہ عمران ، سلمان کی شادی پر موجود تھا ۔ لیکن پھر سلمان موم بتی مافیا کا حصہ بن گیا ۔ سلمان اب یورپ میں exile پر ہے اور اچھا خاصہ پیسہ بھی بنا رہا ہے اور ان گروپوں کے ہاتھ میں کٹھ پُتلی بھی ۔ مزے کی بات جنرل احسان نے اس کا جواب دینا بھی گوارہ نہیں کیا ۔ اُس فورم میں سب سے اچھا سوال ایک افغانستان کے جرنلسٹ جو اس سے پہلے افغانستان کی انٹیلیجینس میں بھی رہا ، نے کیا ۔ عبداللہ نے کہا کہ یہ ساری گفتگو ماضی کہ ISI اور RAW کے کردار پر ہو رہی ہے ، کسی کو آج کے زمینی حقائق کا علم ہے ؟ اور جانتے ہیں کہ اب اس خطہ میں کتنے ملکوں کی ایجینسیاں active ہو گئ ہیں ؟ اُس کا دُلت جواب نہیں دے سکا ۔ فورم میں یہ بھی کہا گیا کہ پاکستان کے سول سروس کے لوگ جب LSE میں آتے ہیں تو پاکستان ہندوستان دوستی کی بات کرتے ڈرتے ہیں لیکن چاہتے بہت ہیں ۔ بلکل غلط ، اگلے دن میں ایک گریڈ ۲۱ کے پاکستان سے آئے ہوئے افسر کے ساتھ تھا ہم ہندوستان کو ، خوامخواہ در اندازی کرنے پر گالیاں دے رہے تھے ۔ اور یہاں امریکہ میں جہاں میں رہتا ہوں پاکستان اور ہندوستان سے لوگوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے ۔ وہی mistrust اور mindset ہے جو ہمارے باپ دادا زہنوں میں ڈال گئے تھے ۔ میرا باپ پاکستان میں افسر تھا، وہ کہتا تھا میں ہندوستان ہوتا چپڑاسی ہونا تھا ۔ حلانکہ اکثر وہ اپنا گاؤں بہت یاد کرتا تھا ۔
ایک خاص طبقہ نے اس ملک پر قبضہ کر لیا ہے جن کو شاہد مسعود ٹھیک بدمعاشیہ کہتا ہے ۔ وہ قبضہ چھڑانا ہو گا ۔ عمران تو خود اس ایلیٹ کا حصہ ہے ، کیسے وہ قبضہ چھڑوائے گا ؟
دراصل یہ وہ ایلیٹ ہے جس کو سائرل کہتا ہے کہ اپنی مائیں بہنیں بیچ دیں اقتدار اور پیسہ کی خاطر ۔ بس ایک شراب کی محفل ، جس میں ننگا ڈانس بھی ہو، صاحب سے دستخط کروانا میرا کام ۔ حاضر سائیں حاضر کہتا ہوا صاحب نہ ناچے تو دیکھیں ۔
ہم اچھا وقت ضرور دیکھیں گے ۔ میں اپنی نوجوان نسل سے بہت خوش ہوں ۔ مجھے اتنے اچھے پیغام بھیجتے ہیں اور دعائیں دیتے ہیں ۔ ہم سب پاکستان بچا جائیں گے ، ان لٹیروں سے مجھے یقین ہے ۔ ایک نہ ایک دن ان سب کو حساب دینا ہو گا ۔ یہیں اسی دنیا میں ، اسی زندگی میں ۔ ہم دیکھیں گے انشاءاللہ ۔
پاکستان پائندہ باد
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔