پنجاب کی حکمرانی پروفیسر صاحب کے نام۔
ایسا لگا جیسے مجھے گرم گرم کافی کے بعد آئیس کریم پیش کی گئ ۔ کہاں شوباز ، بدمعاش ، کرپٹ شہباز کا دس سالہ دور کہاں ایک شریف النفس شخص پرفیسر عسکری ۔ امریکہ کا فُل برائٹ سکالر، پی ایچ ڈی ، اور وہ بھی سیاسیات میں ۔ کل میں ہاورڈ کی ایک فُل برائٹ سکالر کو ہنس رہا تھا کہ تم اب تائیوان کی صدر بن سکتی ہو۔ اس سے مجھے بھوٹان کی ملکہ یاد آ گئ جو بھی ہاورڈ سے تعلیم یافتہ ہیں ، جنہوں نے Gross National Happiness کا concept متعارف کروایا ۔ وہ شاہی خاندان سے ہے ۔ حکومت اور اقتدار ان کی رگوں میں رچ بس جاتا ہے ۔ پروفیسر صاحب نے گاڑی چلانے کی کتاب تو پڑھی ہے لیکن کبھی چلائ نہیں ۔ اب ایک دم چلانے کو کہ دیا ، وہاں ، جہاں جگہ جگہ موٹر سائیکل والوں کا رقص ، اسپیڈ بریکر، ریلوے پھاٹک اور پولیس اور فوج کہ ناکے ۔ اللہ خیر کرے ۔ پنکچر تو پہلے بھی نجم سیٹھی نے خود نہیں لگائے تھے بس انہیں خاموشی کا کہا گیا تھا ۔ پروفیسر صاحب سے تو نجانے ، انجانے میں کیا کیا کچھ ہو جائے ۔ اُن ہی کہ تھنک ٹینک کہ ساتھی ہارون رشید اکثر کہتے پائے جاتے ہیں کہ “جس کا کام اسی کو ساجھے “، کل ویسے اُن کو پکڑ کر دھکا دے رہے تھے ۔
کیا اچھا ہوتا کہ اگر ایاز امیر وزیر اعلی ہوتے اور پروفیسر صاحب آپ ان کے مشیر ۔ پھر سجتا میدان ۔
پاکستان میں ایسی چیزیں معمول کی بات ہے ۔ پچھلے دنوں امریکہ سے ہی ایک ، پی ایچ ڈی پروفیسر نے پاکستان کی ایک دور افتادہ یونیورسٹی میں وائس چانسلر لگنے کے لیے اپنی خدمات پیش کیں تو صدر مممنون نے رات و رات نون لیگ کی حکومت کہ ختم ہونے سے ایک روز پہلے ، بغیر انٹرویو اور دیگر سکروٹنی کہ ایک سفارشی کو متعین کر دیا ۔
کل میں ایک اوریا مقبول کا مضمون دیکھ رہا تھا جس میں فرما رہے تھے کہ ۹۰ % پاکستان کی تباہی میں بابو لوگوں کا حصہ ہے ۔ آپ کو اب پتہ لگا ؟ میں نے تو جب ۲۰۰۳ میں استعفی دیا تو اوریا صاحب اسی وجہ سے کہ میں تباہی کا حصہ نہ بنوں ۔ اور جب ۲۰۰۸ ۔۲۰۱۱ میں ان بابؤوں کا قبلہ ٹھیک کرنے کا موقع ملا تو ناصر کھوسہ میری کوشش کہ آگے سیسہ پلائ ہوئ دیوار بن کے اُبھرے ۔
کل ہی لاہور سے ایک انجنیر دوست بتا رہے تھے کہ کس طرح خانیوال ۔ لودھراں کی سڑک جو کہ NHA کی ملکیت ہے پنجاب حکومت کہ پیسے سے ۲۶ ارب میں بنائ ۔ اگر NHA بناتا تو ECNEC سے اجازت لیتا ، پنجاب حکومت کو کمیشن نہ ملتا ۔ لہٰزا تین ٹکروں میں approval پی اینڈ ڈی پنجاب نے دی کیونکہ دس ارب حد ہے ۔ موجودہ سیکریٹری اس جگہ پر گریڈ ۲۰ میں آیا تھا ، یہیں ۲۱ ملا ، اور اب ۲۲ میں یہیں تعینات ہے ۔ عنقریب وہ پروفیسر عسکری صاحب کو ملے گا اور اُن کی منڈی بہاؤالدین گاؤں کی سڑک کارپٹ کر وا دے گا اور پچھلے سارے گناہ دُھلوا لے گا ، اور ریٹائرمنٹ تک اسی پوسٹ سے چمٹا رہے گا ۔ اس ۲۶ ارب روپیہ سے ہر ضلعی ہسپتال میں MRI سہولت مہیا کی جا سکتی تھی ۔
جنرل آصف غفور صاحب آپ نے ہمیں تو غدار ٹھہرا دیا ، دیواروں پر تصویریں لگا دیں ، اصل غدار تو یہ سیکریٹری لوگ ہیں جو ہر ملٹری دور کے چہیتے رہے اور ملک کو اس بے دردی سے لُوٹا ۔ قوم اس پر سوال تو کر ے گی ، لیکن زرا ریحام کہ کاما سُوترا سے فارغ ہو جائے ۔ کوئ ایک تھیٹر ہے ۔ پاکستان میں تو گلی گلی سرکس ہے ۔ موت کا عجیب و غریب رقص ۔
کل سوشل میڈیا نے کہا وہ جج منشی کا بیٹا ہے جس نے خدیجہ کو صلح کے لیے زور دیا ۔ لاہور ہائیکورٹ نے پریس ریلیز دے مارا اور خدیجہ کو خوب رگڑا اور جج کو فرشتہ کہا ، آخر ملالہ جیسی قسمت ہر ایک کی تو نہیں ۔
سپریم جیوڈیشل کونسل ڈیڈ ہے ۔ سارے جج فرشتے ۔ لگائیں گے بھی ہم بغیر کسی criteria کہ اور نکالیں گے بھی نہیں ۔ روک سکو تو روک لو۔
۲۲ کروڑ کا اللہ ہی حافظ ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔