زندگیاں اتنی مشکل کیوں؟
غریب کا بچہ دودھ کے لیے رو رہا ہے اور امیر کا دودھ نہ پینے پر ۔ غریب کہ پاس گوشت کھانے کہ پیسے نہیں اور امیر کا بیمار دل اسے گوشت ہوتے ہوئے کھانے نہیں دیتا ۔ امیر بھی امارت کے بوجھ تلے مرا جا رہا ہے اور غریب غربت کہ۔ پیار ، محبت اور دوسروں کے لیے درد ناپید ہو کہ رہ گئے ہیں ۔ امریکہ میں ہی میری پاکستانی دوست اگلے دن کہ رہی تھی کہ میں نے ان سردیوں میں ضرور پاکستان کچھ کرنے کے لیے جانا ہے ۔ اور ادھر سے کافی لوگ تیار ہیں ۔ میں نے اسے کہا کہ میں نے اس طرح کہ ہچھلے پندرہ سال بہت پاپڑ بیلے ہیں کچھ نہ کر سکا ، کچھ نہ بدل سکا ۔ مجھے یاد ہے اختر حمید کے بارے میں اکثر لوگ کہا کرتے تھے کہ یہ اتنا بڑا potential اور دماغ کراچی کہ ایک چوتھائ حصہ پر ضائع کر رہا ہے لیکن میں اس کا بہت بڑا مداح رہا اور ہوں ۔ پاکستان میں اگر اپنی مدد آپ سے ، وہاں اس ماحول میں ان کے ساتھ رہ کر کوئ تبدیلی یا شعور اور آگہی جو اختر حمید پیدا کر کر گیا وہ شاید ہی کوئ اور کر سکے ۔ اس نے تو ایک چراغ جلانا تھا وہ جلا گیا ۔ اس کو لے کر پروین رحمن جو کہ گو ڈھاکہ میں پیدا ہوئ تھیں ، اسی جزبہ کا ساتھ آگے بڑھیں ۔ لیکن کراچی کے hydro mafia نے اس کی جان لے لی ۔ وہ تبدیلی وہیں رک گئ ، جو اختر حمید لانا چاہتا تھا ۔ کوئ اور اختر حمید پیدا نہ ہوا لیکن ہزاروں زرداری ۔
ایسا کیوں ہوتا ہے کہ چندہ اکٹھا کرنے والے تو اپنی دیہاڑیاں لگا لیتے ہیں لیکن عوام میں صیحیح شعور اور آگہی پیدا کرنے والوں کو موت کی نیند سُلا دیا جاتا ہے ؟ اس میں ہم سب قصوروار ہیں ۔ ہم چندہ یا پیسہ دے کر بری زماں ہو جاتے ہیں کہ بس اب ہم نے اپنا فرض ادا کر دیا ۔ اس سے بھی بڑا گند تب ہوتا ہے جب استحصالی زرائع سے ہیسے کما کر بھلائ یا charity پر لگائے جاتے ہیں ۔ مثال کے طور پر امریکی بلینیر ز، وارن بفٹ اور بل گیٹس ، دونوں اپنے کاروبار میں انتہا کہ استحصالی ہیں ، لیکن چیریٹی کی دنیا میں کنگ مانے جاتے ہیں ۔ دونوں کے ملازمین کی تنخواہ ان کہ منافع کا ایک فیصد بھی نہیں ۔مجال ہے بل گیٹس غریب ملکوں میں اپنے سافٹ ویر کی کاپیاں فری دے دے ۔ ریاض ملک جیسے ٹھیکیدار گیٹس کے بھی باپ نکلے ، وہ فراڈ ، دھاندلی اور قبضہ سے اربوں کما کر چند ٹکہ پبلک میں لگا کر سخیوں کہ سخی کہلائے ۔
محسن بلال پاکستان سے بہت زبردست نوجوان صحافی ہیں ۔ میڈیا مالکان کے استحصال کہ ستائے ہوئے ۔ اپنی ویب سائیٹ بنائ ہوئ ہے ۔ ایک نہ ہونے کے برابر اخبار میں کالم لکھتے ہیں ۔ کل ایک اسٹوڈیو سے وڈیو لنک پر تھے اور نوجوان نسل کو بہت جزبہ سے پاکستان میں موجودہ حالات میں تعمیری کردار ادا کرنے پر مجبور کر رہے تھے ۔ محسن اکثر میرا بلاگ بھی اپنی ویب سائٹ پر لگاتے ہیں گو کہ اس پر ان کو بہت تنقید اور سرکار کا غصہ برداشت کرنا پڑتا ہے ۔محسن جیسے نوجوان لوگوں کو اب میدان میں آنے کی شدید ضرورت ہے ، اگر آپ نے زندہ رہنا ہے تو ۔ اشرافیہ تو اپنے گٹھ جوڑ میں پکے ہیں ، آپ کمزور ہیں ، آپس میں لڑ رہیں ہیں فضول چودراہٹ کی جنگ ۔
عمران خان بھی اکیلا یہ جنگ نہیں لڑ سکتا ، ایک تو وہ خود اسی اشرافیہ کا حصہ ہے دوسرا وہ بہت سارا غیر ضروری اور فضول baggage ساتھ لیے ہوئے ہے ۔ ایک اچھا رول ماڈل بننے میں بھی بری طرح ناکام رہا ۔ اب دیکھیں ارشد شریف کل کہ رہا تھا کہ مریم کی ڈیل ہو گئ ہے ۔ نون لیگ اور پیپلز پارٹی کی حکومت آ رہی ہے ۔ عسکری طاقتوں کو یہی بھاتا ہے ۔ وہ کبھی بھی باہر سے لُوٹی ہوئ دولت واپس لانے کا کہنے والے کو نہیں اوپر آنے دیں گے کیونکہ ایک تو ان کے اپنے جرنیل بھی اس میں شامل ہیں، دوسرا ریاست کا کنٹرول اپنے ہاتھوں سے نہیں جانے دینا ۔
یہ جنگ نوجوان نسل کو اب خود لڑنی ہو گی ۔ اپنی صفوں میں اتحاد لائیں ۔ میں یا اور کوئ میری پوزیشن میں آپ کی رہنمائ تو کر سکتا ہے لیکن شامل اس لیے نہیں ہو سکتا کہ ایک تو ہم باہر بیٹھے ہیں انہیں گناہوں کی پاداش میں ، دوسرا ہم تو اپنی زندگیاں گزار بیٹھے ہیں ، اپنا حصہ ڈال چکے ہیں ۔ آپ کی زندگیاں at stake ہیں ۔ آنے والی نسلوں کا معاملہ ہے ۔ نہ پانی ، نہ بجلی ، قرض تلے بری طرح دبی ہوئ نسل کی فکر کریں ، ان کے لیے کوئ تدبیر کریں ۔ مر تو آپ ویسے ہی گئے ہیں ان سب گماشتوں کہ ہاتھوں ، کیوں نہ اب ان چار پانچ کو لے کر مرو ۔
اللہ آپ سب کا حامی و ناصر ۔
پاکستان پائیندہ باد
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔