مزاروں کی دنیا۔
آج یہاں امریکہ میں اس وقت جمعرات کی صبح ہے ۔ میں شام کو اگر یہاں قریب Steve Jobs کا مزار ہوتا تو وہاں ضرور جاتا ، اور چراغاں کرتا ۔ مگر اس کی تو قبر کو ہی ڈھونڈنا بہت مشکل ہے ۔ اس کی اپنی اور اسکی فیملی کی خواہش کے مطابق وہاں کوئ کتبہ یا نام وغیرہ نہیں ہے ۔ اس نے کہا تھا میری قبر کو نامعلوم رکھا جائے ۔ اس کے مداح پھر بھی ڈھونڈ لیتے ہیں اور وہاں تصویریں کھینچواتیں ہیں اور رقص کرتے ہیں ۔ اسٹیو جابز کوئ پیر نہیں تھا ، لیکن ٹیکنالوجی کی دنیا کا پیر ۔
آجکل کلثوم نواز وینٹیلیٹر پر ہے اس کے لیے کوئ موزوں جگہ پاکستان میں مزار کے لیے ڈھونڈی جا رہی ہے ۔ پاکستان اور ہندوستان میں زندہ جعلی پیروں اور مرُدہ زیادہ تر اصلی پیروں کا ایک بہت بڑا کاروبار ہے ۔ حکومت ، گدی نشین ، مجاور اور مرید اور عوام ان سلطنتوں کے وارث ہیں ۔ وہاں جوُا ، نشہ ، شراب اور زنا سب کچھ جائز ہے ۔ داتا صاحب کا مجاور پاکستان کا غریب ترین شخص اسحاق ڈار نیب کا ملزم اور اشتہاری ہے ۔ اروندتی رائے اپنے تازہ ناول میں لکھتی ہے کہ ہر ہیجڑے کو خواجہ نظام الدین اولیاء کے مزار پر حاضری ضروری ہے ۔ رابندر ناتھ ٹیگور ایک گھر کہ سامنے سے گزرا تو وہاں لکھا تھا ‘یہاں خدا رہتا ہے ‘ ٹیگور نے سوچا آج خدا سے ملتے ہیں ۔ جُوتے اتارے اور با ادب اندر جانے کا سوچا تو خیال آیا کہیں خدا ناراض نہ ہو جائے ۔ ایک ہی تو ہے ، ذیادہ ہوتے تو رسک لے لیتے ۔ اُس بات سے نہ ملنا بہتر ۔ لہٰزا ارادہ ترک کر دیا ۔
آج سے کوئ پانچ سال ہہلے میں نے ایک ہاورڈ کی تائیوانی اسکالر کے ساتھ پاکستان کے تمام بڑے مزاروں پر خاصا وقت گزارا ۔ یہ استحصال اور مافیا کی آماجگاہیں ۔ ہم لعل شہباز قلندر کے مزار پر تھے تو پولیس والا دو اشخاص کو ننگا کر کے ڈنڈے برسا رہا تھا ۔ داتا صاحب لنگر پر مجاور ایک دوسرے کا سر پھاڑ رہے تھے ۔ پاکپتن کا بہشتی دروازہ موت کا دروازہ بنا ہوا تھا ۔ شاہ لطیف کہ مزار پر جیبیں کاٹی جا رہی تھیں ۔ شاہ جمال کے مزار پر پپو سائیں کی ڈھول کی تھاپ پر سر عام نشہ چل رہا تھا ۔ مادھو لعل حسین کے مزار پر امرتسر کا سب سے بڑا جُوا گروپ پہنچا ہوا تھا اور کھیل چلتا دیکھا ۔ اُچ شریف زبردستی چادریں دے کر پیسے بٹورنے کا سلسلہ ۔ سوھنی کا بھی مزار بن گیا اور وہاں بھی ایک گدی نشین ۔ کہیں گدھا دبا ہوا ہے تو وہاں مزار ۔ غرضیکہ یہ سارے مزار استحصال کی علامت ۔ پیسوں کا دھندہ ۔ داتا صاحب میں ہی ۵۰۰ روپے میں چاولوں کی دیگ اور وہی شام تک گھومتی رہتی ہے ۔ ایک ہمارے ہمسائے میں اوقاف کا ملازم رہتا تھا ۔ ایک دن اسے فالج کا دورہ پڑا ، پاگل ہو گیا ، والدہ نے کہا کہ یہ مزاروں کا پیسہ کھاتا تھا ۔
کمال اس بات کا ہے کہ یہ ہستیاں کیا پہنچی ہوئ شخصیات تھیں ۔ ان پر یہاں ہاورڈ اور کیمبرج جیسی یونیورسٹیوں میں پی ایچ ڈی کورسز ہو رہے ہیں ۔ جب زندہ تھیں نہ ان کی کوئ سنتا تھا اور نہ ان کو مانتا تھا ، حتی کہ جنازہ اُٹھانے سے انکاری ۔ جب دنیا چھوڑ گئیں تو پُوجا پاٹ شروع ۔ آج ۵۰۰۰ پاؤنڈ کا سُوٹ پہن کر استحصالی بابو اس طرح بلھے شاہ کا کلام پڑھتا ہے جس طرح اربوں لُوٹنے والا شوباز حبیب جالب کی نظمیں پڑھ کر انقلابی بنا دکھائ دیتا ہے ۔ اے رب کہاں جائیں یہ تیرے سادہ دل بندے ۔
ہم سب اپنی زات میں پیر ہیں ۔ ہر ایک میں روحانیت ہے ۔ اپنے پیارے نبی سے رہنمائ لیں ، وہ پیغمبر بھی تھے اور پیروں کے پیر بھی ۔ شہباز قلندر کے مزار پر سونا لگا کر بھی بھٹو پھانسی سے نہیں بچ سکا ۔ اور بینظیر نے تو کوئ پیر اور مزار چھوڑا ہی نہیں تھا پھر بھی گولیاں وار کر گئیں ۔ اب بینظیر کا مزار ہے وہاں لوگ ماتھا ٹیکنے جاتے ہیں ۔
نواز شریف نے اقتدار اور لُوٹ مار تو کر لی اب اگر اسے کسی اور طریقے سے مال بنانا ہے تو کسی مشہور مزار کے احاطہ میں کلثوم کو دفنا کر ببلو ڈبلو کی ساری عمر کی روٹیاں لگوا دیں ۔ کل میں ٹویٹر پر ایک کلثوم کے ساتھ تصویر پر ان کا یہ بیان پڑھ رہا تھا کہ کاش میں آپ کہ ساتھ وہ وقت گزار سکتا ۔ کسی نے اُس پر لکھا جناب وہ تو آپ نے طاہرہ سید کے ساتھ گزار دیا ۔ وہ بھی سادات تھیں ۔ مرزا غالب نے خوب فرمایا ۔
ہوئے مرکے ہم جو رُسوا، ہوئے کیوں نہ غرق دریا
نہ کبھی جنازہ اٹھتا، نہ کہیں مزار ہوتا
بہت خوش رہیں آپ سب ۔ میں بھی ان پیروں سے بہت محبت کرتا ہوں۔ یہ سب میرے روحانیت میں امام ہیں ۔ لیکن ان کے مزاروں پر جو ہم نے دوکانداری شروع کر دی ہے اس کو ختم کریں۔ اپنے والدین کہ ساتھ جمعرات گزاریں ، ان سے بڑا کوئ پیر نہیں اس دنیا میں ۔ اللہ نگہبان۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔