انقلاب عمران خان کے سنگ ۔
آج سے ٹھیک چار دن بعد انشاءاللہ وہ انقلاب آ جائے گا جس کا وعدہ تھا ۔ جس کہ انتظار میں ہزاروں جانیں قربان ہو گئیں ۔ وطن عزیز قرضوں تلے دب گیا ۔ معیشت تباہ ہوگئ ۔ غریب کا چُولھا بجھ گیا ۔ شامیں اداس ہو گئیں اور راتیں خوفناک ۔ پرندوں کا چہچہانا بند ہو گیا ۔ آسمان پر گھٹائیں چھا گئیں ۔ گھٹن نے ساری فضا دھندلی کر دی ، اور چار سُو رب سے التجا شروع ہو گئ ، کہ اے باری تعلٰی ہم پر رحم کا معاملہ فرما ۔ ہم کونسے ایسے گناہ کہ مرتکب ہوئے کہ ہم پر یہ غاصب حکمران بٹھا دیے گئے ۔ ہمیں تو صدیوں سے قبائل ، گروہ در گروہ، لُوٹتے آئے ہیں ۔ ستر سال پہلے جب ہمارے آباؤ اجداد نے ان لُٹیروں اور استحصالیوں سے ہمیں آزادی دلوائ ہم نے سوچا تھا اب ہم سُکھ کا سانس لیں گے، مگر ایساہونے نہیں دیا گیا ، انہی کہ چیلے چماٹ ہم پر حکومت کرنے لگے ۔ اے اللہ ، بزرگ وبرتر، ہمیں کسی مزید آزمائش اور امتحان میں نہ ڈال ۔
آج سوشل میڈیا کی بدولت ہم منزل کہ قریب تو ضرور آئے ہیں ۔ لیکن ایک بہت لمبا اور طویل سفر طے کرنا باقی ہے ، روشن پاکستان کے لیے ۔ عمران خان اکیلا کچھ نہیں کر سکتا، جب تک ہم عوام نے ساتھ نہ دیا ۔ کل میں ایک فلپائن کی لڑکی سے بات کر رہا تھا کہ تمہارا صدر دنیا کا مقبول ترین لیڈر بن گیا ہے۔ اس نے کہا دعا کریں مافیا اسے مار نہ دے ۔ فلپائن میں لٹریسی ریٹ ۱۰۰ فیصد ہے اور ہمارے ہاں پچاس فیصد ۔ جس وجہ سے سوشل میڈیا کا بھر پور فائیدہ نیں اُٹھایا جا سک رہا ہے ۔
کل میں نے لُوٹا ہوا پیسہ واپس لانے کے لیے، گلوبل فورم فار ایسیٹ ریکوری کہ لیے ایک پیٹیشن بنائ جو انگریزی میں تھی ، بہت سے لوگ سمجھ نہیں سکے کیونکہ ان مداریوں نے ستر سال سے ہمیں اپنی محتاجی اور غلامی میں رکھا ۔ یہ جہالت ہمیں گدھوں کی طرح ہانکنے میں ان کو مدد دیتی تھی ۔ لیکن اب مزید نہیں ۔ اب عوام بیدار ہیں ۔ ان کی ہتھیلیوں میں طاقت آ گئ ہے ۔
یہاں امریکہ میں ایک ہفتہ پہلے ایک پاپولر pizza بنانے والی چین ، Papa Johns کے ۲۴% کہ مالک ، فاؤنڈر اور چیرمین ، John Schnatter کو racial remarks پر استعفی دینا پڑا ۔ پیزا کمپنی کہ اسٹاک پِٹ گئے ۔ NFL کی سپانسرشپ ختم کر دی گئ ۔ بظاہر John نے کسی اور تناظر میں کمینٹ دیا تھا لیکن محض اس بنیاد پر کہ اس سے غلط مطلب بھی نکالا جا سکتا تھا نہ صرف اسے استعفی دینا پڑا بلکہ logo سے اس کی تصویر بھی ہٹائ جا رہی ہے ۔ اور کمپنی مزید سوچ رہی ہے کہ John کو کیسے اس سے بالکل ہی الگ کر دیا جائے ۔ یہ ہوتی ہے عوام کی طاقت ، جیسے پاکستان میں مری کہ ہوٹل والوں کو بدتمیزی پر سبق سکھایا گیا ۔ وہاں بھی طلعت حسین جیسوں نے پیسہ لے کر مری مال پر جا کر تصویریں کھینچائیں کہ ایسا نہیں ہوا ۔
آئیے مل کر نیا پاکستان بناتے ہیں ۔ ان ساری قوتوں کی مدد کرتے ہیں جو پاکستان کی ترقی کے لیے کوشاں ہے ۔ پاکستان کا المیہ یہ رہا ہے کہ ہمارا مقدمہ کسی نے لڑا ہی نہیں ۔ سیکریٹری واٹر خواجہ شمائیل ورلڈ بینک سے پانی کہ معاملہ میں آ کر لڑا ، اسے کافی کامیابی ہوئ ۔ اتنا جنگ میں مصروف رہا کہ مجھ جیسے دوستوں سے بھی نہیں مل سکا ۔ مسئلہ یہ ہے ہم تو باہر موجیں لُوٹنے کے لیے بیٹھے ہیں ۔ زرا پُوچھیں پاکستان کہ امریکہ میں مقیم ٹریڈ منسٹر یا کمرشل قونصلر سے کہ پاکستانی آم یا کپڑا کیوں نہیں آ رہا ؟ وہ تو کسی کا ماما ہے اور کسی کا بھتیجا یا داماد ، خاک بتائے گا ۔ ٹرمپ ٹریڈ کی جنگ کو اتنی آگے لے گیا کہ چین نے ہاتھ کھڑے کر دیے ہیں ۔ چین میں Apple کی competitor کمپنی xiaomi کا مالک رو پڑا ہے ۔ Tesla چین جا رہا ہے گاڑیاں بنانے ٹریڈ ٹیکس کی وجہ سے ۔ ہمارے ہاں تو اپنا پیٹ بھرنا ہے ، خواہ وہ سیاستدان ہو ، بابو ، جج یا جرنلسٹ ۔یہ سوچ ملک کو تباہی کہ دہانے پر لے آئ ۔ بس کرو یار بہت ہو گیا ، اب ۲۲ کروڑ کا سوچو وہ بھوکے ننگے اگر آپ سب کو کھانے کو دوڑ پڑے تو پھر انہے کوئ نہیں روک سکے گا ، آپ نے ان کہ کپڑے تک تو اُتار لیے ہیں ۔ لگتا ہے کہ اب وہ فیض صاحب کی پشینگوئ قریب ہے ۔
ہم دیکھیں گے
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے
جو لوح ازل میں لکھا ہے
جب ظلم و ستم کے کوہ گراں
روئی کی طرح اڑ جائیں گے
ہم محکوموں کے پاؤں تلے
جب دھرتی دھڑ دھڑ دھڑکے گی
اور اہل حکم کے سر اوپر
جب بجلی کڑ کڑ کڑکے گی
جب ارض خدا کے کعبے سے
سب بت اٹھوائے جائیں گے
ہم اہل صفا مردود حرم
مسند پہ بٹھائے جائیں گے
سب تاج اچھالے جائیں گے
سب تخت گرائے جائیں گے
بس نام رہے گا اللہ کا
جو غائب بھی ہے حاضر بھی
جو منظر بھی ہے ناظر بھی
اٹھے گا انا الحق کا نعرہ
جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو
اور راج کرے گی خلق خدا
جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو
پاکستان پائیندہ باد
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔