اسلامی معاشی نظام کا نفاز مشکل کیوں؟
اسلامی معاشی نظام کو ایسے پیش کیا جاتا ہے جیسے یہ کہ کوئ صرف ماضی کا قصہ تھا اور ماضی کی نسلوں پر ہی لاگو تھا ۔ نہ کسی نے اس کی essence کو جاننے کی کوشش کی نہ پڑھا ۔ بلکہ معیشت پر جو ایڈوائزری کونسل بنائ اس میں ایک بھی اسلامی سکالر نہیں رکھا، اُلٹا ایک قادیانی رکھ لیا۔ جیسے اسلام صرف نمازوں ، روزوں اور حج تک ہی محدود ہے ۔ ان لیڈروں کو تو قرآن شریف کسی نے پڑھایا ہی نہیں ۔ ترجمہ تو درکنار ۔ کل شو باز ایک چھوٹی ترین سورۂ پر لُڑک گیا ۔ فواد چوہدری نے قادیانی پر اعتراض کرنے والوں کو دہشت گرد قرار دے دیا ۔ قادیانوں کی موج ہو گئ ۔ یہاں امریکہ میں بھی انہوں نے مسلمانوں کو دہشت گرد کہ کر نیشنیلٹی لی ، ہمارا جینا حرام کیا، ہمارے کاروبار چھین لیے ، اور وہی اب ہمارے پاکستان میں بھی سردار ۔ مسئلہ حالنکہ بہت سادہ ہے ۔ وہ ہر طرح سے غیر مسلم ہیں ان کو ہمارے مزہب اسلام میں اکبر کی طرح نعوزباللہ خرافات لانے کہ علاوہ کوئ مقصد نہیں ۔ وہ اسلام کہ بگاڑ میں خوش ہیں نہ کہ اپنے علیحدہ مزہب میں ۔ جب جنرل باجوہ پر قادیانی ہونے کا الزام لگا ، جی ایچ کیو ، نے سارے کلمہ پڑھ دیے اور معاملہ رفع دفع ہو گیا ۔ یہاں امریکہ سے جو موصوف جا رہے ہیں بلکل چپ ہیں ۔ وہ کونسل جس کو کوئ پوچھے گا بھی نہیں صرف اس کہ ممبر بن رہے ہیں اور آسمان سر پر اُٹھوا دیا ۔ ایک دفعہ پنڈت روی شنکر کو پاکستان مدعو کیا گیا، جماعت اسلامی نے کہا ہم اس ہال کو آگ لگا دیں گے جہاں وہ پرفارم کریں گے ۔ پنڈت صاحب یہ کہ کر نہیں آئے ۔ “مجھے پاکستان سے بے حد محبت ہے ، میں نہیں چاہتا کہ کوئ پاکستان کی عمارت جلا دی جائے اور صرف میں نقصان کی وجہ بنوں “ ان موصوف کو بھی خود ہی چاہیے کہ نہ آئیں ۔
کل ہی میں چوہدری سرور ، جن سے میری ایک دوست کہ زریعے پرانی شناسائ ہے درخواست کر رہا تھا کہ آپ اوورسیز سے چندہ کی درخواست کر رہے ہیں ، ان کہ مسائیل تو حل کریں ۔ ان کی جائیدادوں پر ان کہ رشتہ داروں ، عزیزوں اور مافیا نے قبضہ کیے ہوئے ہیں ۔ میں نے کلاسرا صاحب سے درخواست کی اور ایک پی ٹی آئ کہ برخوردار سے ۔ اس پر بھی ٹویٹر پر حملہ ہوئے ۔ جناب کوئ سسٹم بنانے دیں ۔ اوہ بھئ سسٹم تو سب سے پہلے میں نے سرور صاحب کو بنانے کہ لیے کہا جب وہ شہباز کہ گورنر تھے ۔ وہ الٹا ایک UK سے پاکستانی وکیل لڑکی لے آئے اور اس کو گورنر ہاؤس بٹھایا اور اس لڑکی نے سارا data اکٹھا کیا اور براہ راست ان اوورسیز پاکستانیوں سے رابطہ میں آ کر بھاری بھرکم رقم کی فرمائش کی ۔ معاملہ شہباز کہ پاس گیا اس نے اسی طرح کا کمیشن اپنی نگرانی میں وزیر اعلی آفس میں بٹھا دیا ۔ ایک بھٹی نامی شخص ہیڈ بنا دیا اس نے لُوٹنا شروع کر دیا نئ دوکان لگا لی ۔ کچھ دنوں پہلے مجھے سہیل ضیاء بٹ کی کزن انگلستان سے کہ رہی تھی کہ ڈی ایچ اے لاہور میں اس کہ گھر پر قبضہ ہے بھٹی قابضین کہ ساتھ ملا ہوا ہے ۔
اوورسیز پاکستانی بہت شدید تنگ ہیں ، میں نے جو دو سال میں یہاں امریکہ دیکھا ۔ قادیانی اور لبرل مافیا زیر نگرانی رضا رومی اور حسین حقانی انہیں دہشت گرد قرار دے رہا ہے ۔ ایمبیسڈر ہمارے کو رقص اور جام کی محفلوں سے فرصت نہیں ۔ جائیں تو کہاں جائیں ۔
میرا عنوان تھا کہ اسلامی معاشی نظام لانا مشکل کیوں ؟ بہت آسان جواب ۔ کیونکہ یہ جنگ ہے اس ایک فیصد سے جس نے ہماری روزی روٹی پر قبضہ کیا ہوا ہے اور وہ ایک فیصد ہی ہم پر حکومت کر رہا ہے ۔ ٹرمپ اور موریسن تو اس ایک فیصد کو گالیاں دے سکتا ہے اور ان پر ٹیکس لگا سکتا ہے ، عمران خان نہیں ۔ اس نے تو رزاق داؤد ، ہاشوانی ، ترین اور کئ اوروں کو چُوما چاٹا اور ساتھ بٹھا لیا ۔ مانیکا ایک کرپٹ ترین کسٹم آفیسر آج بے گناہ ۔ شہباز کا چیلا بیوریوکریٹ جہانزیب آج ایف بی آر کا چیف ۔ وہ نکالے گا ایس آر او روز اس ایک فیصد کہ لیے ۔
اسلامی معاشی نظام بہت آسان ہے ۔ بچت نہیں خرچ ، سُود نہیں شرکت ۔ استحصال نہیں فلاح و بہبود ۔ اس کہ خدوخال بہت سارے اسلامی سکالرز نے ماضی میں دیے ہیں پڑھنے اور عمل کی توفیق کاش اللہ تعالی دے ۔ کسی کی نیت ہی نہیں لانے کی ۔ ملا عمر لے آیا تھا اس پر سب چڑھ دوڑے ۔ اب تو امریکہ آپ سے الگ ہو رہا ہے بلاؤ ملا ظریف کو اس سے پوچھو اس نظام کا ؟ خان صاحب اب معاملہ تسبیح سے آگے کا ہے ۔ تسبیح نے اقتدار تو دلوا دیا مزید عمل درکار ہیں ۔ کل مجبوراً آپ کو بابر اعوان سے استعفی لکھوانا پڑا ۔ ابھی دیکھیے کتنے اور لوگ نیب میں دھرے جاتے ہیں ۔ جس وجہ سے میں کہتا تھا پہلے ریفارمز اور کڑا احتساب پھر الیکشن ، لیکن اُس وقت بھی یہی مسئلہ تھا اور آج بھی ، اور نجانے کتنے سال اور ، “کہ یہ سب کچھ کرے گا کون”۔
بہت خوش رہیں ۔ پاکستان پائیندہ باد
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔