آج یہاں امریکہ میں Hurricane Florence کا آخر امریکی ریاست شمالی کیرولائینا میں پڑاؤ ہوا ہے ، جہاں اگلے چار پانچ دن سیلاب اور بارشیں ممکنہ تباہی کا سبب بن سکتے ہیں ۔ اللہ تعالی خیر کرے ۔ موسم کی تبدیلی کی وجہ سے قدرتی آفات میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے ۔ امریکہ کے مغربی ساحل کیلیفورنیا کہ جنگلوں میں ابھی بھی آگ بجھائ جا رہی ہے ۔ رب ہم سے ناراض ہے ۔ رب کو راضی کرنے کہ جتن کرنے ہوں گے ۔ کل ایک دوست بتا رہا تھا ۲۰۲۵ میں قحط آ رہا ہے ۔ دنیا کی آدھی آبادی اس کی لپیٹ میں ہو گی ۔
اسی دنیا میں ایک اور موضوع جو بہت اہمیت کا حامل ہے ، وہ ہے وہ عورتوں کہ ساتھ زیادتی اور برابر کا سلوک یا برتاؤ نہ ہونا ۔ چاہے امریکہ ہو یا یورپ ، اسلامی دنیا ہو کوئ یا کوئ بھی اور مزہب ، عورت ہر جگہ پِس رہی ہے ۔ اس کی آواز روزبروز دبتی جا رہی ہے ۔ سب سے بڑا المیہ اس کو مادہ پرستی کی دنیا میں commodity سمجھنا ہے ۔ اسلامی دنیا میں تو حالات بد ترین ہیں ۔
کل میں اسی موضوع پر ایک پاکستانی خاتون سعدیہ زاہدی کی کتاب پڑھ رہا تھا ۔ سعدیہ ورلڈ اکنامک فورم کی ایگزیکٹو کونسل کی رکن ہے اور gender اور خواتین کہ روزگار پر ایک مایہ ناز کنسلٹنٹ ہے ۔ اس کی کتاب اسی سال نیویارک سے چھپی اور اس کا نام ہے
“Fifty Million Rising “
اس کتاب میں سعدیہ صرف مسلم خواتین کو فوکس کر رہی ہے اور ان کہ مسائیل abortion سے لے کر abaya تک ڈسکس کرتی ہے ۔ سعدیہ کی ریسرچ تقریباً تمام مسلم ممالک پر ہے ۔ کازغستان ، کیریگستان، ایران ، ترکی ،انڈونیشیا ، پاکستان ، مصر ، سعودیہ ، کویت ، قطر اور کافی سارے اور ممالک کا خواتین کہ حوالے سے زبردست ڈیٹا اس کہ پاس موجود ہے جو وہ اپنی ہر دلیل کہ ساتھ اسپورٹ کرتی ہے ۔ سعدیہ کی کتاب کے آغاز کے مضمون کا عنوان ہی ،
Daughters of Khadija
ہے ۔ کیا خوبصورت ٹائٹل ۔ میرا دل خوش ہو گیا ۔ سعدیہ نے تمام مسلمان بچیوں کو دختران خدیجہ کہ نام سے منسوب کیا ۔ حضرت خدیجہ کہ والد محترم کہ فوت ہونے کہ بعد انہوں نے ان کا کاروبار سنبھالا اور سعدیہ انہیں ماڈرن CEO سے کہیں بہتر خاتون گردانتی ہیں ۔ ہمارے پیارے نبی نے اس بزنس میں ان کا ہاتھ بٹایا اور بعد میں ان سے شادی ہوئ ۔
سعدیہ اسلامی روایات سے اپنا مقدمہ پیش کرتی ہیں ۔ جیسا کہ جہاں وہ آیا یا nanny کا تزکرہ کرتی ہے وہاں بھی بار بار زکر کرتی ہے کہ کس طرح عرب روایات میں بچہ کو نگہداشت اور دودھ پلائ کہ لیے کسی اور عورت کہ پاس بھیج دیا جاتا تھا ۔ حضرت محمد صلی و علیہ وصلم کی مثال دیتی ہے کہ وہ چھ سال حضرت حلیمہ کی زیر نگرانی پلے اور بڑے ہوئے ۔ مقصد عورت بچہ کی پیدائش کہ بعد بھی کام کاج اور اپنا کاروبار زندگی چلا سکتی ہے ۔ عورت ہر کام کر سکتی ہے جو مرد کر سکتا ہے ۔ اس میں سعدیہ ، ڈاکٹر آمنہ نُصیر کو جو الاظہر مصر میں پروفیسر رہیں ہیں
Comparative jurispridenc
کی ، ان کو quote کرتی ہیں ۔
“Every thing Allah gave to man, Allah gave to woman, so woman should be able to work in any profession they want, as women could work as fighters during Prophets time “
پھر سعدیہ نے مسلمان عورتوں میں کامیاب عورتوں کی مثالیں دیں ۔ ان میں سے ایک درخشاں مثال ، میساء المانع (Maysa Almani) کی ہے ۔ یہ سعودی خاتون ہے ، سعودیہ ہی میں رہتی ہے John Hopkins
کہ Carey business school
سے تعلیم یافتہ ہے ۔ میساء حکومت اور پبلک سیکٹر دونوں کہ لیے کام کرتی ہیں ۔ میری خواہش ہے عمران خان سعودیہ سے پیسے کی بجائے اس خاتون کی خدمات پاکستانی خواتین کہ لیے مانگ لیں ۔ کیا زبردست میساء کی تجاویز ہیں عورتوں کو کاروبار اور مالی طور پر آزاد کرنے کی ۔ اس کو سعودیہ میں بہت مشکلات کا سامنا رہتا ہے لہٰزا زیادہ وقت باہر کہ اسلامی ممالک میں مختلف قسم کہ پراجیکٹس چلاتی ہے اور کافی ساری اپنی پراڈکٹس لانچ کرتی ہے ۔ ۲۸ سالہ میساء کا یہ جملہ سعدیہ فخر سے quote کرتی ہے
“Citizens are partners in development “
پھر ایک ترکی کی خاتون فاطمہ ساحین کی مثال دیتی ہے ، جو اردگن کی تیسری کابینہ میں ۲۰۱۱ میں واحد خاتون وزیر رہیں ۔ پیشہ کہ اعتبار سے فاطمہ کیمیکل انجینئر ہے۔ وہ نہ صرف ۲۰۱۴ میں ایک میونسپیلیٹی گا زینتیپ ، کی مئیر بنی ۲۰۱۸ میں صدر منتخب ہوئ ہے
Union of Municipalities of Turkey (TBB)
کی ۔ جو ایک بہت پاور فل ادارہ ہے بلدیاتی نظام کہ حوالے سے ۔ یاد رہے ، یہ مصطفی کمال والا ترکی نہیں ۔ اردگن والا قدامت پسندی والا بیانیہ ۔ اردگن نے abortion پر پابندی لگا دی ۔ ہیڈ سکارف شروع کیا ۔ فاطمہ جیسی عورتوں نے ان پابندیوں کہ باوجود عورتوں کہ حقوق کی بات کی ۔ انہیں نہ صرف سیاست میں لائ بلکلہ اداروں کہ اہم منصب پر ۔ جیسا کہ سعدیہ ، سعودی اسکالر شیخ احمد الغامدی کی مثال دیتی ہیں جو پی ایچ ڈی سکالر ہے اسلامک اسٹڈیز میں ۔ جو ٹی وی پر اپنی اہلیہ جواہر بنت علی کہ ساتھ آ گیا جس نے نہ تو چہرہ ڈھانپا ہوا تھا بلکہ میک آپ بھی کیا ہوا تھا ۔ جسے شیخ غامدی نے جائز قرار دیا ۔ غامدی نے عورت کی segregation کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا، اور عورتوں کی ڈرائیونگ اور دیگر پیشوں میں نوکریوں کی بات کی ۔ شہزادہ محمد بن سلمان کہ شیخ صاحب بہت قریب ہیں ، امید ہے سعودیہ میں خواتین مزید ترقی کریں گیں ۔
اس بیانیہ میں ایک بڑی رکاوٹ سعدیہ کہ نزدیک old generation کا نئ نسل سے اختلاف ۔ مجھے پچھلے مہینے ایک خاتون پاکستان سے لکھ رہی تھیں کہ “میں بہت کچھ کرنا چاہتی ہوں کاش میرے والدین اجازت دیں “ اسے سعدیہ internal clash of civilisations کہتی ہے ۔ اور ایک خاتون کو کچھ یوں quote کرتی ہے ۔
“I want to change the resistance to change. We need to be free to make our choices. It’s not about wearing hijab or not. It’s about taking risks”
اس پر سعدیہ قندیل بلوچ کی بھی مثال دیتی ہے اور کیا خوبصورت الفاظ میں اس سارے سانحہ کو بیان کرتی ہے ۔
“The singer, model and actress Qandeel used a unique combination of overt sexuality and “girl power” to become an overnight social media celebrity, one who was both loved and derided”
سعدیہ اس کتاب میں کازغستان کی روشن خیالی پر بہت تبصرہ کرتی ہے ، جہاں عورتوں کی کثیر تعداد مردوں کہ شانہ بشانہ کام کر رہی ہیں ۔ اور وہاں کی ایک IT کی ماہر کہ مطابق سعدیہ کہتی ہے
“She simply wants to help the world come a little closer together “
پھر سعدیہ کویت کی ڈاکٹر معصومہ المبارک کا تزکرہ کرتی ہے ۔ کیا زبردست خاتون ۔ وہ ۲۰۰۵ میں پہلی خاتون وزیر بنی ۔ ایک ہسپتال میں آگ لگ گئ ، اس کہ پاس صحت کا منصب بھی ہفتہ پہلے آیا تھا لیکن اس نے استعفی دے دیا باوجود کہ بہت روکا گیا ، منتیں کی گئیں ۔ ادھر پاکستان میں ، چودہ لوگوں کا قاتل سابقہ وزیر اعلی ابھی بھی دندناتا پھرتا ہے ۔ خیر جو بات اس کتاب میں سعدیہ کہنا چاہتی ہے وہ یہ ہے کہ عورتوں کو زیادہ سے زیادہ سیاست میں آنا ہو گا ۔ کاروبار کرنے ہوں گے ۔ اس کتاب میں اس نے بہت سارے ایسے کاروبار بتائے ہیں جن کے لیے ورلڈ اکنامک فورم بھی کام کر رہا ہے ۔ مسلمانوں ملکوں میں مزہبی پابندیوں کی وجہ سے عورتوں کو سیاست اور کاروباری امور سے باہر رکھا گیا ۔ جس سے معاشرہ میں شدید بگاڑ پیدا ہوا ۔ دی سینچری فاؤنڈیشن میں Lily Hindy کا ایک مضمون میں پڑھ رہا تھا ۔ جس کہ نزدیک ۲۰۰۵ میں تو جب پہلی دفعہ خاتون کویت کی اسمبلی میں آئ تو بہت احتجاج ہوا۔ آہستہ آہستہ مزید خواتین آئیں ، لیکن اب پھر تعداد بہت کم ہو رہی ہے ۔ اب پھر ۲۰۱۸ میں ایک ہی ممبر ہے ۔ پاکستان میں تو مخصوص نشستیں ہیں جن پر ماسیاں اور انگوٹھا چھاپ friends of politicians آتی ہیں ۔ مجھے یاد ہے طارق باجوہ کی اہلیہ پی ایم ایل نواز کی طرف سے مخصوص نشتوں پر رہیں ۔ موصوف لاس اینجلس میں کمرشل قونصلر تھے ۔ صرف حلف لینے گئیں ۔ کلاسرا صاحب پھر یاد آ گئے کہ ۸۰ فیصد لوگ تو دیہاڑی بنانے کہ لیے جاتے ہیں proxy لگتی ہے ۔ عمران خان خود کتنی دفعہ اسمبلی میں آئے ؟ پاکستان میں تو مرد بھی پریشان ہیں ، عورتوں نے تو ہونا ہی ہونا۔ یہاں تو اللہ کرے ، کوئ ہلاکو خان آئے اور صرف تلوار چلائے ۔یہ بدمعاشیہ تو لاتوں کہ بھوت ہیں باتوں سے نہیں مانیں گے ۔ بہر کیف خواتین کا مردوں کہ شانہ بشانہ ہر فیلڈ میں کام کرنا اتنا ضروری ہے کہ شاید مستقبل کے پاکستان کا اسی ایک چیز پر انحصار ہو ۔
سعدیہ کہ quote پر ہی ختم کرنا چاہوں گا اور اپنے سربراہوں کہ لیے یہی دعا ہے کہ اللہ تعالی انہیں عقل سلیم عطا فرمائے ۔ آمین
“If these women , Khadija’s modern day daughters, are successful in harnessing the power in them, they may well unleash a new golden age in the Muslim world”
پاکستان پائیندہ باد