ہچھلے جمعہ کہ دن امریکہ کہ سیمنا گھروں میں ایک فلم “Life Itself “کہ نام سے ریلیز ہوئ ۔ یہ فلم لکھی اور ڈائیریکٹ Dan Fogelman نے ہے ، جس کی اس سے پہلے بھی دو فلمیں (۲۰۱۶ )This is Us اور Tangled دو ہزار دس میں بہت مقبول ہوئیں ۔ بنیادی طور پر Dan ٹی وی ڈراموں کا پروڈیوسر اور رائیٹر ہے ۔ اس کی ٹیلی ویژن سیریز میں crazy,stupid,love امریکہ میں بہت مشہور ہوئی ۔
مجھے یہ فلم دیکھنے کہ بعد ایسا لگا جیسے میں کوئ شیکسپیر کی tragedy فاسٹ فارورڈ کر کہ ۲۱ صدی میں دیکھ رہا ہوں ۔ آدھا گھنٹہ میں ہی اتنی اموات ہو جاتی ہیں ۔ لڑکا اور لڑکی کا عشق اور بچی ہونے سے کچھ پہلے لڑکی بس حادثہ میں انتقال کر جاتی ہے اور اس کہ چھ مہینے بعد لڑکا خودکشی کر لیتا ہے ۔ اور بچی گرینڈ والدین کہ سپرد ۔ اس ایک tragedy سے کئ کنول پھوٹتے ہیں اور اپنا کردار ادا کرنے کے بعد پھر فنا ہو جاتے ہیں ۔ ویسے تو جغرافیائی طور پر یہ فلم نیویارک اور اسپین میں کافی سارے خاندانوں پر فلمائ گئ ہے ، لیکن ایک طریقے سے پوری دنیا کو نفسیاتی اور معاشرتی اعتبار سے کور کر رہی ہے ۔ جیسا کہ ایک لکھاری نے فلم کے tragedy والے premise پر کچھ یوں کمینٹ کیا ۔
“Beauty and happiness , can, and often does, spring from tragedy”
مسئلہ سارا ہمارے ساتھ ہے ، ہمیں زندگی جینی آئ ہی نہیں ۔ ہم نے اپنے سے بڑھ کر پنگے لیے ۔ نفرت ، حسد اور تکبر سے زندگی کا سارا حُسن برباد کر دیا ۔ اپنی مرضی منوانے کی خاطر انا اور چودراہٹ کی لڑائیاں شروع کر دیں اور اس آگ میں اخلاقیات ، مزہب ، اور معاشرت سب کو تباہ و برباد کر دیا ۔ لمحہ اور گیت جو موجود تھا ، اس کو گایا ہی نہیں ۔ اسی فلم کا ایک بہت زبردست ڈائیلاگ میں quote کرتا ہوں۔
“In any moment life will surprise you” Wild echoes.
میں یہ بات اکثر کرتا ہوں ، میں ہمیشہ کہتا ہوں زندگی بہت آسان بھی ہے اور ایک پھانسی بھی ۔ اپنی اپنی سمجھ کہ مطابق ہر ایک نے اس میں رنگ بھرنے ہیں ۔ ہم سب ایک دوسرے سے connected ہیں اور بقول Hawking کائنات کہ Grand Design کا حصہ ۔ یہ ڈیزائن دراصل کسی بھی قسم کی jigsaw puzzle تو بلکل نہیں البتہ ایک پانی کی طرح کا flow ہے جو اگر چلتا رہتا ہے تو مسکراہٹیں ہی مسکراہٹیں ، رک جائے تو ماسی مصیبتے سے زیادہ بھیانک ۔ اس کو رُکنے نہ دیں ۔ زمدگی کا پہیہ چلتا ہی اچھا لگتا ہے ۔ یہ فلم اس نظریہ کی بھرپور عکاسی کرتی ہے ۔ کل میں اپنی پاور ٹاک دینے والی فالور ٹویٹر پر اور جس کو میں بھی فولو کرتا ہوں Gordana Biernat کی ٹویٹ دیکھی ، جو کچھ یوں زندگی کو بیان کرتی
“Each one of us is a portal through which the world as we know it manifests”
کیا زبردست بیانیہ ۔ مزید وہ اس سوچ کو کس طرح cap کرتی ہے یہ کہ کر کے
“Taking responsibility for the frequencies YOU are allowing through YOU is one of the most mindful things you can do”
اور اس power talk کو ایک بہت اچھی نصیحت پر ختم کرتی ہے ۔
“If you need to pretend or hide your true self, you are with the wrong people. Surround your self with beings of the same #frequency as YOU”
سارا کھیل ہی اتنا سا ہے ۔ دائرے سے باہر نہیں نکلنا ۔ دائرے کہ اندر رہ کر کا رقص باقی سب دائروں کے ساتھ اور سمجھنا ہے کہ ۔
ان آنکھوں کی مستی کہ مستانے ہزاروں ہیں
ان آنکھوں سے وابستہ افسانے ہزاروَں ہیں ۔
اس وقت جب میں یہ بلاگ لکھ رہا ہوں ، واشنگٹن ڈی سی میں خاتون فورڈ سینیٹ کمیٹی کہ سامنے اس کہ ساتھ بیتے ہوئے افسانوں کی شہادت پیش کر رہی ہے ۔ پوری دنیا پروسیڈنگ دیکھ رہی ہے ۔ میڈیا لائیو کوریج دے رہا ہے ۔ اس کہ بعد کیوانو کی باری آئے گی ۔ مزے کی بات یہ کہ ، یہ سارا کھیل ایسا ہے جس میں سب جیتیں گے اور سب ہی ہاریں گے کیونکہ یہ قدرت کا کھیل ہے جو ہماری روحیں کھیلتی ہیں ۔
جیتے رہیں ۔ خوش رہیں ۔