یہ سوال ہر دور میں اٹھایا گیا اور پیغمبروں ، فلسفیوں اور دانشوروں نے اس پر ہمیشہ ایک اچھی سمجھ آنے والی حکمت پیش کی ، لیکن اس کہ باوجود ہم بھٹکتے رہے اور ہمیشہ مصیبتوں کی چکی میں پستے رہے اور اس وقت بھی ایسے لگ رہا ہے کہ سات ارب لوگ نجانے کن اندھیروں اور مشکلوں کہ سفر پر خوامخواہ سب کچھ ہوتے ہوئے گامزن ہیں ۔
آجکل میں یہودی فلسفیوں کے دو ہزار سال پرانی انہیں موضوعات پر دستاویزات کا مطالعہ کر رہا ہوں جو کبالہ کہ نام سے مشہور ہیں ۔ دراصل یہ دو پارچاجات کا مجموعہ ہے ۔ صفر یٹزیرا اور ظہر ۔ ان کی زبان تو انگریزی بھی نہیں تھی اور دو ہزار سال سے لوگ اپنے اپنے مطابق پڑھتے اور سمجھتے رہے ۔ یہودی مزہبی سکالر بھی ان کو سمجھنے اور پڑھانے میں دلچسپی نہیں رکھتے تھے کیونکہ اس سے ان کی مزہب کہ نام پر دوکانداری بند ہو جانی تھی ۔
کالج آف فرانس کے فلاسفی آف لاء کہ پروفیسر اڈولف فرینک نے جن کو Hebrew زبان پر بھی عبور حاصل تھا اس مجموعہ کو فرانسیسی اور انگریزی زبان میں سمجھانے کی کوشش کی ۔ دراصل یہ سارا بیانیہ ہی تصوف یعنی mysticism اور اللہ کہ ساتھ انسانی رشتہ کہ گرد گھومتا ہے ۔ گو کہ یہ بہت آسان اور سمجھ آنے والے پیرائے میں ہے اگر ہم خود بھی اپنی عقل اور فہم اس پر مرکوز کریں تو با آسانی سمجھ سکتے ہیں ۔ رضا ازلان جس نے حال ہی میں کتاب God لکھی جس کا میں نے ایک بلاگ میں تزکرہ بھی کیا نے بھی اسی بحث کو آگے بڑھایا تھا، مزاہب اور فلسفہ کہ نقطہ نظر سے ۔ رضا یہ گتھی مسلم صوفیاء کہ زریعے سلجھاتا ہے ۔ عباسیہ سلطنت کہ دوران بھی امام غزالی اور ابن العربی نے اس پر کافی جامع بحث کی ہے جس کا زکر بھی اڈولف کرتا ہے ۔
جیسا کہ میں نے پہلے کہا یہ سارا معاملہ ہے بہت ہی سادہ اور آسان ۔ اللہ کریم نے انسان کو اپنے ہی عکس پر بنایا اور اشرف المخلوقات ٹھہرایا یعنی تمام باقی مخلوقوں سے بہتر ۔ جیسا کہ سمجھا جاتا ہے کہ جانوروں ، نباتات اور پہاڑوں وغیرہ کی تو ایک ہی اجتماعی روح ہے لیکن ہر انسان کی مختلف انفرادی روح ۔ کتاب ظہر میں اڈولف لکھتا ہے کہ جب دنیا بنائ گئ
“All beings spring from divine substance, it proposed that man, as the last step toward perfection, reunite with that substance through ecstasy and annihilation of self”
یہ اوپر والا فلسفہ بہت قریب ہے اسلامی یا عرب کہ تصوف کے بھی ۔ اڈولف کہتا ہے کہ Oriental wisdom کی بنیاد بھی یہی ہے جس کہ معمار عباسیہ سلطنت کہ فلاسفر رہے جو اڈولف کہ نزدیک فتوحات کی وجہ سے پرانے علم سے کسی حد تک فائیدہ اٹھانے میں کامیاب ہوئے ۔ Orient کو یہ legacy حضرت ابراہیم کی دوسری بیوی ہاجرہ کہ بچوں کہ زریعے ملی ۔ کبالہ اور اسلامی تصوف بنیاد تو بلکل ایک ہی ہے جو خدا کی وحدنیت ، اس کا ساری کائنات کو تخلیق کرنا اور اس کا ہی کھیل گرداننا ہے لیکن رب کہ اظہار پر تھوڑا مختلف ۔ اسلامی فلسفیوں کہ نزدیک یہ اظہار تین اشکال میں ہے ، ایک خدا کا وحدنیت اور absolute ہونے کا ، دوسرا تمام یونیورس کہ objects کہ زریعے اور تیسرا پورا یونیورس بزات خود۔ کبالہ اسے اعداد کہ اعتبار سے دس شکلوں کہ اظہار پر فریم کرتا ہے اور کچھ یوں بیان ہوتا ہے
“Sefer yetzirah teaches the Oneness and Omnipotence of the God by means of various examples, which are multi form on one side and uniform on the other. They are in harmony with regard to the One, their Director.”
یہاں تک کہ اڈولف اس اظہار کی اس طرح مثال دیتا ہے کہ ایک دفعہ ایک مشہور فرانسیسی لکھاری نہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ یہ لکھنے کا آرٹ انسانی invention یا ایجاد نہیں بلکہ یہ انسانیت کے لیے تحفہ ہے جو مکاشفہ یا revelation کہ زریعے ممکن ہوا ۔ یقین کریں مجھے اردو بلکل نہیں لکھنی آتی تھی ، قدرت نے یہ اظہار کا طریقہ بخشا ۔ اچھے لکھاری سارے God gifted ہوتے ہیں ، ان کا اپنا کوئ کمال نہیں ۔ ایک خوبصورت کوشش ہوتی ہے ان کی طرف اس کائنات کی خوبصورتی اور خالق کہ پیار اور محبت کے بیان کی ۔ ویسے تو کائنات کی ہر چیز اسی خالق کا صبح شام ترانہ گا رہی ہوتی ہے ۔
کبالہ علم کہ مطابق انسان کہ جسم کے بارہ یا ایک درجن organ ہیں جو یہاں کی زندگیوں اور جدوجہد میں درکار ہوتے ہیں ۔ تین محبت کہ، تین نفرت ، تین زندگی دیتے ہیں اور تین موت ۔ اس طرح برائ والے برائ کی ترغیب دیتے ہیں اور اچھائ والوں سے اچھائ ہی پُھوٹتی ہے ۔ اس پر صفر یٹزیرہ میں ہے
“God is really considered as the Infinite Being and therefore Indefinable; God, in the fullness of His power and existence, is above, but not outside, the letters and numbers- that is to say, not outside the principles and laws which we distinguish in this world”
پھر کتاب ظہر میں ہے کہ آدم اور حوا روشنی کی صورت میں اوپر تھے اور نیچے دنیا میں جسم کی صورت میں ان کو کپڑے پہنائے گئے ۔ جب وہ جنت میں تھے تو اس جسمانی mode میں نہیں تھے ۔ جیسا کہ مرنے کہ بعد جسم تو واپس مٹی میں چلا جاتا ہے اسی کو مٹی سے بنانا اور مٹی میں جانا کہا جاتا ہے لیکن روح یا وہ روشنی واپس اپنے خالق حقیقی سے مل جاتی ہے ۔ تو اس طرح کپڑوں کو جسم کہ ساتھ ، اخلاقیات کو روح کہ ساتھ اور تصوف کو spirit یا کائنات کی روح کہ ساتھ گردانا گیا اور ظہر کہ مطابق یہ سارا معاملہ ہی کچھ یوں ہے ۔
“Universe and God are inseparable, since both have one and the same name”
یہ یونین خدا کہ ساتھ بھی ممکن ہے روح کہ جسم کہ ساتھ بندھے ہوئے بھی جب ecstasy یا تصوف کی انتہا یا ایک قسم کی reversibility سے ۔
“Real existence is only a reflection of image of ideal beauty “
جیسا کہ ایک اور جگہ ظہر میں کہا گیا کہ
Nothing is lost in the world, not even the vapour that issues from our mouths. Like every thing else, it has its place and it’s destination, and the Holy One, blesses be He, has or concur with his works. Nothing falls in to a void, not even the words and voice of man, for all things have their place and their destination”
میں نے اس بلاگ میں کچھ بنیادی معاملات کبالہ کہ مطابق بتائے ہیں جو کہ تمام فلسفوں ، مزاہب اور اخلاقیات سے کافی حد تک ملتے ہیں ماسوائے مشرکین اور مادہ پرستیت یا دہریوں کے ۔ باقی کسی اور بلاگ میں اسے جاری رکھوں گا ۔
کل میں یہ کتاب پڑھتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ چیزیں اتنی سادہ ہیں ۔ کچھ بھی پوشیدہ نہیں ۔ رب کریم کتنا مہربان ، رحمان و رحیم ہے ۔ ہمارے لیے آدم کی خطا پر بھی اتنی کرامات اور نعمتوں کے ڈھیر لگا دیے لیکن ایک ہم ہی نا شکرے جیسا کہ قرآن پاک میں فرمایا گیا ۔ پیار ، محبت ، سچائی والا معاملہ تو سب کِہ ہاتھ میں ہے جو اس زات کہ قریب لے کے جاتا ہے لیکن ہم نے شیطانی راستہ ہی کیوں اختیار کرنا ہے سمجھ سے باہر ہے ۔ کبالہ میں لکھا ہے کہ برائ کی قوتوں یا Demons کی تو کوئ روح ہی نہیں ایک بہکاوا ہے ۔ ہم آج ایک دوسرے کو کھانے اور تباہ و برباد کرنے پر لگے ہوئے ہیں ۔ہر شخص کا ایک اپنا مقصد ہے اس کائنات میں اس کو کیوں نہیں تلاش کر رہے ؟ اور اس میں نہ کوئ مقابلہ ہے نہ حسد اور نہ ہی پیسہ اور طاقت کی ضرورت ۔ وہ تو مفت ہے ، خاموشی اور سچ کہ اندر پنہا ، اس کو تلاش کریں جو فلسفہ پاؤلو کیلو کی Alchemist اور Zahir میں بھی ہے ۔ ظہر بھی اسی سوچ کی عکاسی کرتی ہے ۔ بہت خوش رہیں ۔ زندگیاں آسان کریں ۔ اللہ نگہبان۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...