مشہور جرمن فلاسفر اور شاعر گوئیٹے نے کہا تھا کے دیوار میں دروازے لگانے کی بات ہے ، جہاں سے لوگ اصلی زندگی کی طرف جا سکیں ۔ گوئیٹے کے نزدیک سائینس ، مزاہب، سکالر ، فلاسفر ، آسٹرولوجر ، یا ادیب ، کوئ بھی اس دیوار میں ایسا دروازہ نہیں لگا سکا جس سے گزرنا آسان ہو ۔ جو لوگ اس پار جانے میں کامیاب بھی ہوئے یا تو واپس نہیں آئے اور اگر آئے تو دوبارہ دنیا کے جھیل جھمیلوں میں پڑ گئے ۔ یاد رہے گوئیٹے سول سرونٹ بھی تھا اور بہت زبردست ایڈمنٹریٹر ۔ سوئٹزرلینڈ کے ماہر نفسیات کارل جُنگ نے بھی یہی کہا تھا کے روحانیت کا تجربہ انسانوں کو ان کی دوسرے half کی زندگی گزارنے میں بہت کام دے سکتا ہے اور حقیقت میں وہی اصلی زندگی ہے ۔ اصل میں معاملہ وہاں تک پہنچنے کا ہے ۔ میرے نزدیک یہ سب کچھ انتہائ آسان ہے ۔ ہم دنیا کی temptations میں اتنا دھنس گئے ہیں کے اس سے باہر نکلنا ہی نہیں چاہتے ۔ ہماری ڈیفالٹ سیٹنگز ہرگز تابعداری یا غلامی کی نہیں تھیں ۔ جب بارہ سال بعد ہم تھیٹا برین سٹیٹ سے نکلے تو تقلید یوں کے ہتھے چڑ گئے اور کہیں کے نہ رہے ۔ خود بھی رسوا ہوئے اور پوری کائنات کو خراب کیا ۔ William Blake نے کہا تھا کے
“True method of knowledge is experiment “
یہ تجربات ہم سائینس کی لیبارٹریوں میں تو بخوبی کرتے رہے ، لیکن نجانے کیوں باغوں ، پہاڑوں اور جھیلوں کے کنارے اپنے ساتھ کرنے کو تیار کیوں نہیں ہوتے ۔ سائینس کی تو اپنی limits ہیں ۔ وہ چیزوں کو dissect کر کے تو کچھ بتا سکتی ہے لیکن تخلیق یا کن فیکون کے بارے میں بلکل خاموش ہے ۔ میرا آئ فون کا Siri مشکل سے میرے ایک فیصد سوالوں کے جواب دیتا ہے ۔ ایک مشہور فزکس کے پروفیسر برائن ٹرنر نے کہا تھا کے
Science can bring you to Big Bang but it can’t take you beyond it ..
معاملہ تو اس سے آگے جانے کا ہے ۔ وہ اصل میں روحوں کے زریعے ہی ممکن ہے ۔
یہاں امریکہ میں حال ہی میں ایک کتاب آئ ہے ، جو ایک میرے جیسے سر پھرے نے لکھی ہے ،زبردست اپنی زندگی جینے کا رنگ
To shake the sleeping self
جینکنز کی یہ کتاب ویسے تو سفرنامہ ہے لیکن اصل میں یہ دنیا کی بہت ساری حقیقتوں سے پردہ اٹھاتی ہے ۔ ایک تو یہ کے جینکنز نے قانون کا اچھا پروفیشن چھوڑ کر Oregon سے Patagonia کا سائیکل پر سفر صرف معاملات کی تہ تک جانے کے لیے کیا ، دوسرا اس نے اپنے آپ کو بلکل قدرت کے حوالے کر دیا یہ سارا راز جاننے کی خاطر ۔ اس کی عمر اُس وقت ۳۱ سال تھی جب وہ یہ مشکل سفر پر نکلا ۔ میں بھی کوئ ایک سال گرین کارڈ کی وجہ سے نیو جرسی میں مقید ہونے کے بعد اگلے ہفتہ سفر پر نکل رہا ہوں اور میرا شوق بھی Oregon کا rose garden ہے ۔ جینکنز کیا خوبصورت سفر کی ضرورت کو بیان کرتا ہے
“If discontent is your disease, travel is medicine. The brain absorbs the new world with gusto and on top of that it observed itself “
نظام نے ہمیں مشین بنا کر ہمارا استحصال کیا اور کیے جا رہا ہے ۔ اور ہم اس حماقت کی چکی میں خوشی خوشی پستے جا رہے ہیں ۔ جینکنز کا باپ چاہتا تھا کے اس کا بیٹا سیٹل ہو جیسے باقی مادہ پرستی میں کامیاب لوگ ۔ لیکن جینکنز اپنی زندگی جینا چاہتا تھا ۔ اس کے نزدیک
“School system wants you to go to college and chose a major and straight to job , marriage and a mortgage “
اسی جدوجہد میں انسان ختم ہو جاتا ہے اور جب کچھ کرنے کے قابل نہیں رہ جاتا پھر دم درود کے لیے کوئ بابا ڈھونڈتا ہے نہ جانتے ہوئے کے بابا تو اس کے اندر تھا جس کو اس نے جگایا ہی نہیں ۔
دراصل Plato بھی یہ غلطی کر گیا تھا جب اس نے Being کو becoming سے علیحدہ کیا اور اس کی شناخت آئیڈیا کی mathematical abstraction کے ساتھ کر دی ۔ جیسا میں نے پہلے ایک بلاگ میں کہا تھا کے ہم نہ تو observer ہیں اور نہ creature بلکہ ہم تو وہ field ہیں جو کائنات ، خدا یا روشنیوں کا رقص ہے ۔ آج بھی اگر ہم وہ دوری ختم کر دیں تو oneness کے ساتھ دوبارہ آزاد ہو سکتے ہیں اور اپنا قیام ہی دیوار کے باہر رکھ سکتے ہیں ۔ اللہ تعالی آپ سب کا حامی و ناصر ہو ۔ بہت دعائیں ۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...