پیوٹن جب چوتھی دفعہ اسی سال روس کی صدارت کا امیدوار بنا تو مارچ میں اس سے پوچھا گیا کے اگر وہ ہار گیا تو کیا کرے گا ؟ پیوٹن نے جواب دیا ، کے وہ کمبائین ہارویسٹر کا ڈرائیور بنے گا۔ پیوٹن کی بہت ساری تصویریں عجیب و غریب پوز کے ساتھ مارکیٹ میں آئیں ۔ کبھی قمیض کے بغیر گھوڑے کو پکڑے جسم کی نمائش کر رہا ہوتا ہے ، کہیں پٹرول بھر رہا ہوتا ہے اور کہیں کمانڈو کے لباس میں کمانڈوز کے ساتھ روس کو دوبارہ سپر پاور بنانے کے خواب دیکھ رہا ہوتا ہے ۔ دراصل ، پیوٹن کو یہ پتہ ہے کے اس نے کرنا کیا ہے؟اس کے اہداف کیا ہیں؟ہمارے خان صاحب کو اہداف کا پتہ ہی نہیں لہٰزا روشنی سے تیز رفتار کی ٹرین بنانے کا فرما گئے ۔
ایک بہت مشہور اور انتہائ قابل امریکی لکھاری اور جرنلسٹ ، پیٹرک لارنس نے Discerning Putin کے عنوان سے حال ہی میں بہت زبردست مضمون لکھا ۔ مضمون امریکہ کی دو سو سال پرانی یونیورسٹی Rutgers کے مشہور جریدے Raritan نے چھاپا ۔ پنجاب یونیورسٹی لاہور کو بھی بنے سو سال سے زیادہ ہو گئے ہیں ، اس کا بھی ایک عدد پریس ہے لیکن کوئ تعمیری چھپائ تو کیا VC ہی سب کچھ برباد کر گیا اور اپنے ساتھ تمام اساتذہ برادری کو بھی بے عزت کر گیا ۔
پیٹرک وہ واحد امریکی جرنلسٹ ہے جو کوئ تیس سال امریکہ سے باہر ڈیوٹی پر رہا ۔ اس کا خاصہ عالمی امور ہے ۔ وہ ہر ملک پھرا اور اس دوران تین مشہور جرائید کے لیے کام بھی کیا ۔ فار ایسٹرن اکنامک ریویو ، نیو یارکر اور انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹرائبیون ۔
جب پیوٹن نے ۲۰۰۰ میں یلٹسن سے اقتدار سنبھالا تو روس تباہ و برباد ہو چکا تھا ۔ کلنٹن اس وقت امریکہ کا صدر تھا اور وہ اسے ماڈرن بنانے کے چکر میں تھا ۔ پیٹرک بہت زبردست لکھتا ہے کے ماڈرن بنانا بھی دراصل مغربی بنانا رہا ہے ۔ اور پیوٹن کی پیٹرک سب سے زبردست بات روس کی روایات کو آگے لے کے چلنا تھا جسے وہ کچھ اس طرح بیان کرتا ہے
“he acts according to Russian traditions rather than law so considered authoritarian or dictatorial “
اور اسی کلیہ سے اس نے روس کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا ۔
“Putin has stemmed the tide of boundless plundering and capital flight. Punishing parasitic oligarchs “..
۱۹۹۸ میں مجھے ایک تعلیمی دورے پر جینیوا جانا پڑا تو ایک وہاں مقیم دوست نے بتایا کے یہاں روسی لُٹیرے دوکانیں کی دوکانیں خرید لیتے ہیں ۔ پیوٹن نے ان کا مقابلہ کیا اور کافی حد تک باہر کا پیسہ واپس لانے میں بھی کامیاب ہو گیا ۔ اب روس سے الگ ہوئ ریاستیں آزربائجان وغیرہ کا پیسہ باہر جا رہا ہے ہمارے زرداری اور شریفوں کی طرح ۔ ایک اور پیٹرک کے نزدیک پیوٹن نے جو شاندار کارنامہ انجام دیا وہ تھا
“Reconstructed idea of national Unity “
پاکستان کا آج یہی المیہ ہے ۔ نہ ہی جمہوریت ہے ، نہ ہی عامریت بلکہ عسکریت ہے قبائل کو آپس میں لڑوا کر حکومت کرنے کی ۔ فوج نے اپنے ہاتھ میں کسی بھی پاکستانی کو غدار یا نہ غدار کہنے کا زمہ لیا ہوا ہے ۔ پیٹرک یہاں ایک بنگالی پروفیسر ، پرتھا چیٹرجی کا تزکرہ کرتا ہے جس نے governmental technologies
کے نام سے اپنا ایک انوکھا فلسفہ دیا ۔ چیٹرجی کے نزدیک کنٹرولڈ جمہوریت ہی ریاستوں کو بچا سکتی ہے ۔ جسے وہ کہتا ہے
Legitimacy tends to drive less from participatory political processes than from the provision of security , services , sound infrastructure, and altogether the prospect of well being within the polity
یہی فلسفہ بھوٹان کی ملکہ کا ہے جس نے Gross National Happiness
کا ہدف چنا ۔ پیوٹن کہتا ہے کے وہ روس کی GDP کو پچاس فیصد تک زیادہ کرنے میں کامیاب ہو جائے گا اور روس آنے والے وقتوں میں دنیا کی پانچ بڑی معیشتوں میں گردانا جائے گا بلکل اسی طرح جس طرح جاپان نے ۱۹۶۰ میں اکانومی کو take off کروایا ۔ بات تو ٹھیک ہے ، کسی روسی سفارت کار کو ملنا پاکستان میں ایک عذاب ہوتا تھا ، آج پاکستان اور روس کی فوجیں اکٹھے مشقیں کرتی ہیں ۔
پاکستان میں مسئلہ طاقت اور شرکت اقتدار کا ہے ۔ یہاں نہ تو لوگوں کی شمولیت والا نظام چلا اور نہ ہی فوجی عامریت کا ، کیونکہ کوئ حکمران بھی اپنے ہم وطنوں سے مخلص نہیں تھا ۔ صرف مدینہ کی ریاست اور مغرب کی جمہوریت کے راگ الاپے گئے ، عوام کا مزید استحصال کرنے کے لیے ۔ فی الحال ہم شکست خوردہ قوم ہیں ، کیا کوئ پیوٹن جیسا حکمران آ کر اسے سنبھال سکے گا ؟ یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا ۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...