اکبر کی ردّ استعماری جہت بہ یک وقت ظاہری اور باطنی ہے۔ اردو کے وہ پہلے تخلیق کار ہیں جنھوں نے منکشف کیا کہ استعمار یت داخلی اور نفسیاتی بھی ہوتی ہے۔
توپ کھسکی پروفیسر پہنچے
جب بسولہ ہٹا تو رندہ ہے
تعلیم جو دی جاتی ہے ہمیں وہ کیا ہے فقط بازاری ہے
جو عقل سکھائی جاتی ہے وہ کیا ہے فقط سرکاری ہے
وہ کہتے ہیں یہ ٹھیک ہے ہم کہتے ہیں جی ہاں
بالفعل تو ہم اس کے سوا کچھ نہیں کرتے
اصل یہ ہے کہ استعماریت ،’ایک نئی دنیاپیدا اور مسخر کرنے ‘کا نہایت ولولہ خیز ،پر شکوہ تصور ہے ۔اس کے اجزا نہ صرف ایک دوسرے سے مربوط ہیں ،بلکہ یہ مسلسل نمو کرتے ،آگے سے آگے بڑھتے ،نئی وسعتیں اور نئی گہرائیاں تسخیر کرتے ہیں۔اپنے تجسس و تحقیق کی اس نہ مٹنے والی پیاس کی مدد سے استعماریت اپنی ’اصل‘ کوان لوگوں سے چھپانے میںاکثر کامیاب ہوتی ہے،جنھیں یہ نشانہ بناتی ہے ۔اپنے عمل میں استعماری تصور اس ہاتھی کی طرح ہوتا ہے جو کہیں داخل ہونے سے پہلے اپنی سونڈسمانے کی اجازت چاہتا ہے اور رفتہ رفتہ اپنے پورے جثے کو بھی کھینچ لاتا ہے،اور پھر ساری ترتیب بدل ڈالتا ہے؛تاریخ،جغرافیے ،نفسیات کی۔تاریخی طورپر استعماریت اپنا آغازتجارت و سیاست سے کرتی ، استحکام ثقافت کے ذریعے حاصل کرتی اور اپنی تکمیل نفسیاتی تبدیلیوں کی صورت میں کرتی ہے۔اکبر کے مصرعے ’توپ کھسکی پروفیسر پہنچے ‘ میں یہی تاریخی حقیقت بیان ہوئی ہے ۔قمرالدین احمد نے اسی ضمن میں اکبر کی گفت گو کا حوالہ دیا ہے کہ ’’ یورپین سیاست ،میدان ِ جنگ اور مکاتب دونوں سے یکساں مفید کام لیتی ہے ۔اہل ِ یورپ پہلے جنگ کے تمام شدائد پورے کرکے زیر کرتے ہیں۔اس کے بعد مفتوحہ ملک میں اپنے مدارس جاری کرکے قلوب کو اپنے رنگ پر لاتے ہیں‘‘ ۔اکبر داخلی استعماریت کے کچھ اسباب اورچند اثرات کو ظریفانہ طرز میں پیش کرتے ہیں۔ مثلاً یورپ والے ایک ایسے اختیار کے حامل ہیں کہ جو چاہیں ہندوستانیوں کے دلوں میں بھر دیتے ہیں۔خاص طور پر سرکاری تعلیم کے ذریعے جسے اکبر بازاری کہتے ہیں۔لفظ’بازاری‘ میں ذو معنویت ہے؛بازار ،تجارت کی شے اور گھٹیا۔نو آبادیاتی تعلیم ،ادنیٰ درجے کی سرکاری نوکری ’خریدنے‘کا ذریعہ ہے ،اور یہ شخصیت کی تہذیب و تطہیر کے بلند مقصد سے تہی ہے،اور اس لیے گھٹیاہے۔یہ تعلیم آدمی نہیں ،کلرک پیدا کرتی ہے۔ سماج کو آدمی نہیں ملتا،البتہ سرکاری انتظامی مشینری کو سستے داموں پرزے ضرور مل جاتے ہیں۔اکبر نے تعلیم اور کلرک کے اس تعلق کو کئی مقامات پر طنز کا نشانہ بنایا ہے۔مثلاًان کا مشہور شعر ہے:ہم کیا کہیں احباب کیا کارِ نمایاں کر گئے؍بی اے ہوئے،نوکر ہوئے،پنشن ملی پھر مر گئے؛کھا ڈبل روٹی ،کلرکی کر خوشی سے پھول جا۔سوال یہ ہے کہ کیا استعمار زدوں کو یہ علم نہیں ہو پاتا کہ ان کی طبیعت تبدیل کی جارہی ہے؟اگر علم ہوتا ہے تو وہ اس تبدیلی کے خلاف مزاحمت کیوں نہیں کرتے؟یہ دونوں سوال طاقت کی حرکیات سے متعلق ہیں۔
توپ اور پروفیسر،دونوںطاقت کامنبع ہیں۔ایک طاقت کی مادی شکل ہے اور دوسری ذہنی و علمی ۔اکبر کا یہ انکشاف غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے کہ نو آبادیات دو قسم کی طاقتوں کی مدد سے قائم ہوتی ہے ۔بارود کی طاقت (توپ )اور علم کی طاقت (پروفیسر)۔وہ ان کی مدد سے نو آبادیاتی طاقت کی حرکیات کو واضح کرتے ہیں۔ہر چند دونوں طاقت کی الگ الگ قسمیں ہیں،مگر وہ ایک ہی نظام کی تشکیل میں مرحلہ وار کام میں لائی جاتی ہیں۔بارود کی طاقت کے ذریعے آدمی کی عصبی قوت مفلوج کی جاتی اور علم کی طاقت کی مدد سے اس کی ذہنی و تخیلی توانائی پر تصرف حاصل کیا جاتا اور پھراسے خاص رخ پر ڈھالا جاتا ہے۔اکبر کی نظر کو بلاشبہ داد ملنی چاہیے کہ وہ عصبی اور ذہنی طاقت میں تعلق دریافت کرتی ہے ۔ عصبی طاقت کے مفلوج ہوجانے کے بعد علم کی طاقت کام کرنا شروع کرتی ہے ۔تاہم اس رشتے کی نوعیت تاریخی ہے ،نامیاتی نہیں۔یعنی نو آبادیات نے بارود وعلم کی طاقتوں کے باہمی تعلق کا یہ تصور پیش کیا ہے ،اس کے علاوہ بھی دونوں کا رشتہ ممکن ہے ۔
اکبربارود اور علم کی طاقت کی دونوں صورتوں کو دیسی علامتوں کے ذریعے بھی واضح کرنے کی کوشش کرتے ہیں:بسولہ اور رندہ۔رندہ کسی حدتک پروفیسر کا مقامی مترداف بنتا ہے ،مگر بسولہ توپ کا مترادف نہیں،اس لیے کہ بسولہ لکڑی کو چھیلتا ہے،توپ کی طرح اس کے پرخچے نہیں اڑاتا۔البتہ رندے کے ذریعے جس طرح چھیلی ہوئی لکڑی کی سطح ہموار کی جاتی ہے ،اس کے بھدے ،ٹیرھے ترچھے حصوں کو صاف کیا جاتا ہے ، اسی طرح پروفیسر بھی ایک نیا ذہن،نیا زاویہ ء نظر تشکیل دینے کی طاقت رکھتا ہے۔اکبر داخلی استعماریت کی ضمن میں طاقت کی جس حرکیات کو واضح کرنا چاہتے ہیں،وہ بسولے اور رندے سے عمدگی سے واضح ہوتی ہے۔استعمار کار اپنی رعایا کو شے(لکڑی) سمجھتا ہے،اپنے علم کی طاقت سے اسے خاص شکل دیتا ہے،سوچنے، سمجھنے اور دنیا کو جاننے کے خاص زاویہ ء نظرکی تشکیل کرتا ہے۔اصل یہ ہے کہ داخلی استعماریت کی تشکیل میں بسولہ ہٹتا نہیں،پہلے بسولہ کام کرتا ہے ،اور پھر رندہ۔استعمار کا کام اچھا خاصابڑھئی کا کام ہے۔ہندوستانیوں کے شے بننے کی بات اکبر نے ایک قطعے میں کہی ہے:
یہ بات غلط کہ ملک اسلام ہے ہند
یہ جھوٹ کہ ملکِ لچھمن و رام ہے ہند
ہم سب ہیں مطیع و خیر خواہِ انگلش
یورپ کے لیے بس ایک گودام ہے ہند
گویا یورپ کی طاقت نے ’ہم سب‘ہندوستانیوںکو اشیا میں بدل دیا ہے؛ہماری انسانی شناختیں مسخ کردی گئی ہیں۔’وہ ‘جو کچھ کہتے ہیں ،’ہم ‘ بس ہاں کرتے ہیں؛ہمیں حکم ِ خاموشی ہے ،اور ہم اس کو بجا لارہے ہیں ۔(بسولہ اور رندہ چل رہے ہیں)۔’ان ‘ کے پاس زبان ہے اور ہم فقط ’کان ‘ ہیں۔جھوٹ اور سچ میں امتیاز کرنا ہمار اکام نہیں،سننا ہمارا فرض ہے اوراسے ’ہم ‘ ادا کیے جارہے ہیں۔ایک مقام پر اکبر کا طنز شدید ہو گیا ہے : شکر چشم و گوش کرتا ہوں مگر یارب یہ کیا ؍آنکھ بھنگے کے حوالے کان مچھر کے سپرد۔شناختوں کے مسخ ہونے کو ایک دوسری جگہ ، ڈارون کے نظریہ ء ارتقا کے حوالے سے بیان کیا ہے: ہم تو انسان سے بنے جاتے ہیںبندر اے حضور؍آپ خوش قسمت تھے بندر سے جو انساں ہو گئے۔ شے،اور بندرداخلی استعماریت کے پایہ ء تکمیل کو پہنچنے کی علامتیں ہیں۔دونوں بنیادی انسانی وصف،شعورِ انفرادی اور قوتِ ارادی سے محروم ہوتے ہیںجو اپنی حالت کو بدلنے،تاریخ کا رخ تبدیل کرنے ،اور طاقت کی حرکیات کو اپنے حق میں کرنے کے لیے ناگزیر ہے۔اکبر چوں کہ ظرافت نگار ہیں،اس لیے وہ تاریخی عوامل کے تجزیے کے بجائے،ان کے اثرات کو موضوع بناتے ہیں۔تاہم وہ اس امر کی طرف اپنے مخصوص طنزیہ پیرائے میں اشارہ ضرور کرتے ہیں کہ داخلی استعماریت یک طرفہ نہیں ہوتی؛ استعمار زدہ بھی اس بات کا ذمہ دار ہے کہ وہ ’اطاعت و خیر خواہی ‘یا معمولی فائدے کی غرض سے خود کو شے کے طور پرقبول کر لیتا ہے،یا پھر بندر کے مرتبے پر قناعت کر لیتا ہے۔دوسرے لفظوں میں وہ توپ کی طاقت کے آگے آدمی کو بے بس ضرور سمجھتے ہیں،مگر پروفیسر کے سامنے نہیں؛مادی طاقت باہر سے حاصل کرنا پڑتی ہے،مگر ذہنی وتخیلی طاقت اندر سے برآمد ہوتی ہے،اور یہی وہ طاقت ہے جو آدمی کو شے یا بندر بننے سے روک سکتی ہے ؛بسولے اور رندے کے آگے بے بس لکڑی کی طرح پڑے رہنے سے باز رکھ سکتی ہے۔اکبر اس بات کے قائل نظر آتے ہیں کہ عصبی طاقت کے چھن جانے کے باوجود ذہن کی طاقت کا احیا ممکن ہے ۔جوہر کے وجود پر مقدم ہونے ،یاشعور کے مادے پر فائق ہونے کے اس تصور کی وجہ ہی سے اکبر داخلی استعماریت سے نجات کا امکان پیش کرتے ہیں۔ایک قسم کی رجائیت کی طرف توجہ دلاتے ہیں۔اکبر کے نزدیک ’اندر ‘سے مراد اپنے تخیل میں محفوظ اپنی ’ہسٹری و لٹریچر ‘ ہے ،جسے وہ اساس سمجھتے اور عظمت ِ گزشتہ کا تفاخر آمیز وسیلہ خیال کرتے ہیں۔درج ذیل قطعے میں اسی جانب اشارہ کرتے اور ان لوگوں کو طنز کی زد پر رکھتے ہیں جو اپنی سہل انگاری کی وجہ سے ’اندر کی طاقت ‘سے بے خبر رہتے ہیں۔
چھوڑ لٹریچر کو اپنی ہسٹری کو بھول جا
شیخ و مسجد سے تعلق ترک کر اسکول جا
چار دن کی زندگی ہے کوفت سے فائدہ
کھا ڈبل روٹی کلرکی کر خوشی سے پھول جا
اکبرتقلیدِ یورپ ،داخلی استعماریت اور حافظے کی گم شدگی کوباہم منسلک قرار دیتے ہیں۔تاریخ کو مسخ کرنے ،رومی و غزالی کی جگہ سپنسر و مل کو رائج کرنے کا ذمہ دار استعمار ہے،مگر اپنے تاریخی حافظے سے دوری کے ذمہ دار خود ہندوستانی ہیں۔اکبر اس ضمن میں اپنے ہم وطنوں اور ہم مذہبوں کو بری الذمہ قرار نہیں دیتے ۔وہ اس رائے کے حامل محسوس ہوتے ہیں کہ اندر ؍ذہن ؍حافظے کی طاقت کو اس طرح مفلوج نہیں کیا جا سکتا ،جس طرح عصبی طاقت کو۔دوسرے لفظوں میں وہ بارود کی تباہ کن طاقت کا انکار نہیں کرتے،مگر ذہن کی طاقت کے مقابلے میں اسے ’محدود‘ سمجھتے ہیں۔بارود پرخچے اڑاسکتا ہے، مگر رندہ بے جان لکڑی سے نئی نئی اشیا خلق کر سکتا ہے؛رندہ لکڑی میں اس شبیہ کو منتقل کرسکتا ہے،جسے رندہ چلانے والے کے تخیل نے تراشا ہوتا ہے؛سادہ لفظوں میں’علم کی طاقت‘ اصل میں تخلیقی ہوتی ہے،اور یہ اسی وقت طاقت ور کا استعماری آلہ بنتی ہے ،جب کوئی خود کو شے کے طور پر ،لکڑی کے طور پر قبول کرلے؛بارود کی طاقت چوں کہ ایک مقام پر سمٹی ہوتی اور محدود ہوتی ہے، اس لیے اس پر اجارہ ممکن ہے،مگر ’علم کی طاقت‘ پر اجارہ صرف اس صورت میں ہوسکتا ہے ،جب کوئی شخص یا گروہ اس طاقت کے سامنے اسی طرح جھک جائے ،جس طرح رندے کے آگے لکڑی ،یا پروفیسر کے سامنے اندھے مقلدین ،یک سر غیر تنقیدی رجحان کے حامل اشخاص؛بندر کی طرح کرتب دکھانے والے،سہل انگار،اپنے حال سے بے خبر،حافظے کی گم شدگی کے مریض اور مستقبل کے سلسلے میں جانوروں کی طرح بے حس۔اکبر ایک جگہ کہتے ہیں : اوروں کی کہی ہوئی جو دہراتے ہیں؍وہ فونو گراف کی طرح گاتے ہیں؛ خود سوچ کے حسب حال مضمون نکال ؍انسان یوںہی ترقیاں نہیں پاتے ہیں۔فونو گراف کی طرح میکانکی انداز میں ہمیشہ ایک ہی طرح کی باتیں دہرانے والے ،مقلدِ محض اپنے اندر کی طاقت سے ،محض اپنی سہل انگاری ،یا معمولی مفاد پرستی کی وجہ سے بے خبر ہوتے ہیں۔وہ نقل ِ وضعِ مغربی اورکلرکی کے جنون میں اپنی اس آزادی کو کھو دیتے ہیں جو اپنی ثقافت و تاریخ سے ایک زندہ ربط کے لیے ناگزیر ہے۔اسے اکبر قوم کی بدبختی قرار دیتے ہیں۔
کیا کہوں میں اس کو بد بختیِ نیشن کے سوا
اس کو آتا نہیں اب کچھ امیٹیشن کے سوا
یہاں اس امر کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ اکبر ذہن کی طاقت کا جو تصور رکھتے ہیں،وہ احیائی ہے ، تخلیقی نہیں۔ وہ تقلید یا امیٹیشن کو اس لیے قوم کی بد بختی کہتے ہیں کہ وہ اجداد کے افسانے بھول چکی ہے ۔دوسرے لفظوں میں ان کی نظر میں داخلی استعماریت سے بچنے کی موزوں صورت اپنی ہسٹری و لٹریچر کو اپنے حافظے کا حصہ بنائے رکھنا ،اور اپنی ثقافتی شناخت کی علامتوں کا احیاہے ۔ نئے تناظر میں اس ہسٹری و لٹریچر کی توجیہ و تعبیر کیاہو سکتی ہے ، اور کس طرح نئے تخلیقی رویے پیدا ہوسکتے ہیں،یہ باتیں اکبر کی ردّا ستعماری جہت کا حصہ نہیں بن پاتیں۔اکبر کا مقصود ذہن کی لامحدود ، تخلیقی طاقت کی طرف توجہ دلانا نہیں۔ انھیںاپنے ثقافتی حافظے کی گم شدگی اور بازیافت تک محدود بساط ِ ذہن کا تصور پیش کرنا منظور تھا۔
(اردو ادب کی تشکیل جدید، مطبوعہ 2016ء سے اقتباس )