مولوی احتشام الحق کی اذان اور تقریر سارے میں مشہور تھی. جتنے اونچے مسجد کے مینار تھے اتنی ہی اونچی مولوی احتشام کی آواز تھی. اونچے سُروں میں جب گلے سے "حیی علی الفلاح" نکلتا تو قدم مسجد کی طرف چل نکلتے. ارد گرد کے قریباً سبھی گاؤں عید میلاد النبی، سب برات، شب معراج، بڑی گیارہویں، محرم، عاشورہ وغیرہ کے لیے مولوی احتشام کو ہی تقریر کے لیے بلایا کرتے تھے. ایسی جوشیلی تقریر کہ سننے والے جھوم جھوم اٹھتے. ایسی پُر اثر تقریر کہ ابھی پچھلے دس محرم کے دن ان کی تقریر کے دوران بلک بلک کے روتے لوگوں میں چاچا رحمت اتنا روئے تڑپـے کہ مسجد میں ہی دل کا دورہ پڑا اور چل بسے. ختم سے لے کر تعویز تک، سب مولوی صاحب کے پاس ہی جایا کرتے تھے
مولوی صاحب فجر سے عشا تک سبھی اذانیں خود دیا کرتے تھے اور سبھی جماعتیں خود کروایا کرتے، کبھی کوئی ختم ، دعوتِ خطاب، سفر یا مسئلہ درپیش ہو تو الگ بات ہے. عصر سے پہلے کبھی مسجد میں اور کبھی اپنے حجرے میں بچوں کو قرآن پڑھایا کرتے تھے. حجرہ کیا تھا، مسجد کے پچھواڑے میں تین کمروں کا پکا مکان تھا جہاں مولوی احتشام اکیلے رہا کرتے تھے. ان کے بیوی بچے آبائی گاؤں خیر نگر میں رہتے تھے
بچوں کی خاصی تعداد قرآن پڑھنے آیا کرتی تھی اور سبھی اس بات پہ متفق تھے کہ وقار علی، مولوی صاحب کا بھی لاڈلا ہے. وقار علی چھے بہنوں کا اکلوتا اور سب سے چھوٹا بھائی تھا، سو گھر والوں سے لاڈ ایسا اور اتنا ملتا تھا کہ گاؤں بھر میں وہ "لاڈلے" کے نام سے پکارا جاتا تھا. کچھ لوگ تو اسے دِھیاں ورگا پُتر (بیٹیوں جیسا بیٹا) بھی کہا کرتے تھے. لاڈلے کو اس لاڈ نے بہت نقصان پہنچایا تھا، وہ سب کے سامنے بالکل خاموش اور سر جھکائے رہتا. اسے لاڈلا گالی لگتا تھا. پانچویں سے چھٹی جماعت میں آ گیا تھا مگر اعتماد نام کی شے کہیں بھی نہیں تھی. پڑھائی میں اچھا ہونے کے باوجود ہم جماعت لڑکوں کی باتوں پہ جھکا ہوا سر اور جھکا لیتا اور لال گال لیے چپ سادھ لیتا. ایک بار اس کی طبیعت کچھ خراب تھی تو باجی نائیلہ اس کا بستہ اٹھائے اسے سکول چھوڑنے آئیں تھیں، تب بچوں نے اسے بہت تنگ کیا کہ "باجی، اپنی چھوٹی بہن کو سکول چھوڑنے آئی ہیں" وہ سرخ کان لیے کتاب میں گھس گیا
مولوی صاحب بچوں کو پڑھانے میں سخت طبیعت رکھتے تھے. بچے مار کے ڈر سے سبق خوب رٹ کے آیا کرتے تھے. والدین کو مار پہ اعتراض نہیں تھا، بچے قرآن مکمل پڑھ لیں بس. اپنے بیٹے کو پہلی بار پڑھنے کے لئے چھوڑنے آئے امتیاز بٹ کا کہنا تھا کہ مولوی صاحب، اس کی چمڑی آپ کی ہے، بس ہڈیاں میری ہیں انھیں کوئی نقصان نہ ہو.. مگر وقار لاڈلے کو مار اور سختی سے استثنا تھا. لاڈلے کو مولوی صاحب ہمیشہ اپنے پاس بٹھاتے، اس کے گال سہلاتے کبھی کمر پہ اور ران پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے سبق پڑھایا کرتے.
اس دن گو کہ سبق سے چھٹی تھی مگر ظہر کی نماز پڑھتے وقار لاڈلے کو مولوی صاحب نے پڑھنے کے لئے اپنے حجرے میں آنے کو کہا. لاڈلا نماز کے بعد گھر چلا گیا اور پھر گھر سے کافی دیر سے آنے کے بعد مولوی صاحب کے پاس بیٹھا لہک لہک کے سورۃ الرحمٰن کی آیات پڑھ رہا تھا.
مولوی احتشام سفید بنیان اور دھوتی میں تکیے سے ٹیک لگائے آدھے بیٹھے آدھے لیٹے ہوئے تھے. دایاں ہاتھ لاڈلے کی کمر سہلا رہا تھا اور بایاں ہاتھ دھوتی کے اندر مسلسل ہل رہا تھا. زیر زبر کی غلطی پہ لاڈلے کے گال پہ چٹکی بھرتے اور ہنسنے لگتے. کمرے کا دروازہ بھی بند تھا اور اندر کچھ حبس سے اور کچھ ہوس سے پسینہ بہہ رہا تھا. پڑھتے پڑھتے مولوی صاحب نے وقار علی کو پکارا
لاڈلے ادھر آؤ یہاں بیٹھو
اور پھر اس کی ہچکچاہٹ پہ اسے پکڑ کے اپنی جھولی میں بٹھا لیا اور اسے پڑھنے کا کہتے ہوئے کھی کھی کرنے لگے. وقار لاڈلا مولوی احتشام کی جھولی میں تھا اور لاڈلے کی جھولی میں سورۃ الرحمٰن، وہ پھر مخصوص انداز میں آگے پیچھے ہلتے ہوئے لہک لہک کے "فبای الا ربکما تکذبان" پڑھ رہا تھا اور مولوی احتشام کی ہنسی اور جھولی میں طوفان آیا پڑا تھا
بہت گرمی ہے بھئی لاڈلے، آف آج تو بہت گرمی ہے
کہتے ہوئے مولوی صاحب نے دونوں اطراف سے دھوتی کے پلو کھینچ لیے اور لاڈلا ننگی ٹانگوں پہ آ رہا. مولوی صاحب نے سورہ اس کے ہاتھ سے لے کے چارپائی پہ رکھی اور بیٹھے بیٹھے اس کی شلوار نیچے کھینچ دی. لاڈلا سرخ پڑ گیا اور مولوی احتشام کی کھی کھی کھی جاری رہی. وقار کی چیخ پہ فوراً اس کے منہ پہ ہاتھ دھرتے ہوئے مولوی احتشام کھی کھی کھی کے ساتھ "کچھ نہیں ہوتا لاڈلے، بس تھوڑا سا اور، کوئی بات نہیں، یہ ہو گیا بس بس" کہتے رہے، لاڈلا پہلے تڑپا اور کسمساتا رہا اور پھر بالکل ڈھیلا پڑ گیا. مولوی احتشام کی گود میں لاڈلا یوں بـے جان سا پڑا تھا جیسے چارپائی کی دوسری طرف قرآن چپ پڑا تھا
باھر دروازہ بجا "مولوی صاحب، عصر کی اذان کا وقت ہو گیا ہے" مولوی احتشام نے فوراً لاڈلے کو چارپائی پہ لٹایا اور "میں آیا بس" کہہ کے فوراً شلوار قمیض پہنی اور اسی حالت میں جا کے لاؤڈ اسپیکر پہ مسجد کے میناروں سے بھی اونچی آواز میں "حیی علی الفلاح" کی آوازیں لگانے لگے