حالی نے کہا تھا
دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو ..
امیدِ واثق ہے کہ حالی ڈاکٹر تو نہیں مگر حکیم ضرور رہے ہوں گے ورنہ ایسے کیسے کہہ دیتے کہ انسان ہارٹ اٹیک کے لیے پیدا کیا گیا ہے ..
یہ دردِ دل بھی کیسا طالم ہے کہ اس "کمانڈو" بھی ہو گیا جو "کسی سے ڈرتا ورتا نہیں".. اور ہوا بھی کس ویلے کہ جب عدالت عالیہ کی طرف کاروانِ کمانڈو رواں دواں تھا کچھ نا ہنجار اس کریٹک سچویشن کو ڈرامہ کہہ رہے ہیں بس جی اللہ جسے چاہے ہدایت دے دے ..
پہلا منظر
نرم و گداز صوفہ،سامنے شیشے کی میز،میز پہ شیشے کی بوتل.. "کریم کلر" کی شلوار قمیض،کندھوں پہ پشاوری چادر.. ٹانگیں پسارے آدھے بیٹھے آدھے لیٹے، مشیرانِ ذی عظام اردگرد براجمان.. کوئی مشورہ سا باہمی ہوا، کمانڈو ذی وقار نے پروقار انداز سے پیمانہ ہونٹوں سے لگایا اور ہلکے ہلکے چسکیاں بھرنی شروع کیں، ایک مشیر نے بڑھ کے سی ڈی پلئـیر آن کر دیا..استاد حامد علی خان کی آواز گونجی
نَجـر تو سے لاگی..سئیاں تو سے لاگی ..تو سے لاگی ہاں تو سے لاگی، نَجـر تو سے لاگی ..
دوجا منظر
اک کارواں منزل کی جانب رواں دواں.. عدالت میں وِد آنر تشریف لے جاتے کمانڈو نے کسی کو فون ملایا، کچھ دیر گفت و شنید کے بعد فون بند ہوا،حضور نے سر سیٹ کے ساتھ ٹکایا..چہرے پہ پریشانی کم ہوئی.. پھر موبائل فون بجا،کمانڈو نے فون کان سے لگایا،ڈیڑھ منٹ بعد اک لمبی سی "ہوں" کے بعد ڈرائیور کو آرمی اسپتال کی طرف جانے کو کہا، لال بتی جلی اور سائرن گونجا، رستہ خودبخود "صاف" ہوتا گیا، گاڑی کے باہر سائرن کا بے ہنگم شور اور گاڑی کے اندر ٹیپ چلی..
سئیاں تو سے لاگی..نَجـر تو سے لاگی..
تیسرا منظر
آرمی کارڈیالوجی کا صاف شفاف اسپتال، ایک اکیلے کمرے میں سفید براق بستر پہ کمانڈو دراز.. ہلکی ہلکی گرمی سی کمرے میں.. کچھ کچھ دیر بعد کمرے میں رکھی مشینوں کی سیٹیاں … کمانڈو کے دل کے نشیب و فراز.. عزیز میاں کی قوالی فیڈ بیک میں
اس دردِ دل کی دوا.. دردِ دل کی دوا
ساقیا اور پِلا اور پِلا اور پِلا
ساقیا اور پلا اور پلا اور پلا …