غسل خانے کی دیوار پہ ایک ہی آئینہ ٹنگا تھا جس کے نیچے والے دونوں کونے سیاہ پڑ چکے تھے اور ان کی سیاہی اوپر کی طرف ایسے بڑھ رہی تھی جیسے کوئی بیل دیوار چڑھتی ہے۔ تازہ شیو کے بعد میرے گالوں سے جیسے دھواں نکل رہا تھا۔ کنگے سے سر کے داہنی طرف مانگ نکالتے ہوئے مجھے گاؤں کے بیچوں بیچ گزرتی سڑک یاد آ گئی، جو ہوبہو ایسے لگتی تھی جیسے کسی نے سر کے عین درمیان میں کَس کے مانگ نکالی ہو۔ وہی سڑک مجھے اس شہر میں لائی تھی جہاں ایک رہائشی عمارت میں ایک کمرے کا گھر تھا، جہاں اب ہم تین لوگ ایک کچن اور غسل خانہ شئیر کرتے تھے، اور اسی غسل خانے میں سیاہ پڑتے آئینے کے سامنے میں تیار ہو کے جاب انٹرویو کے لیے نکلنے والا تھا
شہر نیا تھا، راستے نئے تھے، زندگی کی کروٹ نئی تھی اور نئی پینٹ اور بش شرٹ میں، میں بھی نیا نیا ہی لگ رہا تھا۔ ٹائی باندھنا میں پہلے ہی یوٹیوب سے سیکھ چکا تھا۔ تیار ہو کے گلی میں نکلا، سامنے ارشاد جنرل سٹور سے چیونگم کا پیکٹ لیا اور جیب میں رکھ کے رکشے کا انتظار کرنے لگا۔ کچھ ہی لمحوں میں رکشے کی آواز کانوں میں پھڑ پھڑ کرنے لگی، مڑ کے دیکھا اور دور سے آتے رکشے کو ہاتھ دیا۔ رکشہ ڈرائیور بڑھتی عمر کا تھا اور اس کی کالی داڑھی اپنا رنگ دھول مٹی کے نام کر چکی تھی۔ میں اچک کے بیٹھا اور آفس کا پتا اسے بتا دیا۔ اس نے 'اوہ اچھا۔۔ جی اچھا" کہا اور رکشہ آگے بڑھا دیا
رکشے میں جا بجا قرآنی آیات اور دعاؤں کے سٹکر سے چپکے ہوئے تھے۔ جب میں وہ سب باری باری پڑھ چکا تو بات بڑھانے کو میں اسے بتانے لگ پڑا کہ میں کہاں سے آیا ہوں اور کیوں آیا ہوں اور اب جہاں وہ مجھے لے جا رہا ہے، وہاں کیوں جا رہا ہوں۔۔ اس نے بالکل خاموشی سے میری تفصیل سنی اور "ہممم" کہہ کے چپ ہو رہا۔ مجھے بہت عجیب لگا۔۔ کچھ دیر کے لیے میں سر گھما کے باھر دیکھنے لگا۔ باھر سڑک پہ گاڑیاں دوڑ رہی تھیں، عمارتیں چھوٹ رہی تھیں۔۔ میں نے جیب سے چیونگم نکالی، ایک منہ میں ڈالی اور رکشے والے کہا "بھائی، چیونگم لو گے؟ " اس نے سر اٹھا کے شیشے میں سے مجھے دیکھا اور مسکرا کے ایک ہاتھ آگے بڑھا دیا۔ میں نے چیونگم اس کی ہتھیلی پہ دھری، اس نے شکریہ کہہ کے چیونگم چبانے لگا۔ "چیونگم ،بندے کی عزت رکھنے کو بنائی گئی ہے" اس نے سفر کا پہلا جملہ مکمل کیا۔ مجھے اس کی بات پہ بـے اختیار ہنسی آ گئی۔ "میں نے بھی انٹرویو میں عزت برقرار رکھنے کو ابھی خریدی تھی"۔۔ وہ ہلکا سا مسکرایا اور بولا "سر، آپ کو جلدی نہیں ہے پہنچنے کی؟ " مجھے بات سمجھ نہیں آئی۔۔ اس نے دوبارہ پوچھا" سر میرا مطلب ہے آپ پہلے آدمی ہیں ، صبح کے اس وقت کے، جنہوں نے بیٹھتے ہی یہ نہیں کہا کہ جلدی چلو، میرے پاس وقت نہیں ہے"۔۔ میں نے" آھا "کہہ کے کلائی پہ بندھی گھڑی میں وقت دیکھا تو وقت بہت تھا۔۔ " نہ، مجھے پہنچنا ضرور ہے وہاں مگر کوئی جلدی نہیں ہے، میں اچھے خاصے وقت کا مارجن رکھ کے نکلا ہوں" اس نے فوراً پوچھا" پہلی بار ہے سر؟ "۔۔۔۔۔۔ " جی پہلی بار ہے اور یہ سر تو مت کہیں مجھے، میرا نام عادل ہے"۔۔ اس نے جیب سے رومال نکال کے پورے منہ کو رگڑا اور رومال واپس رکھ دیا
"آپ نئے نئے شہر آئے ہیں، یہاں یہ سر وغیرہ ایک روٹین ہے بس، اسے سیریس نہ لیں سر "۔۔۔ میرا قہقہہ بیساختہ بھی تھا اور لاؤڈ بھی۔۔" یہ اچھا کہا آپ نے "۔۔۔۔اس نے اشارے پہ رکشہ روکا اور شیشے میں سے مجھے دیکھتے ہوئے بولا "تو سر یہ جاب آپ کے کتنی اور کیوں ضروری ہے؟ "۔۔ ساتھ رکی گاڑیوں کو دیکھتے ہوئے میں نے کہا" بھائی، جاب ضروری اس لیے ہے کہ پیسے کمانے ہیں، گھر چلانا ہے، یہ جاب یا وہ جاب فرق نہیں ہے، فرق ہے تو صرف یہ کہ تنخواہ کتنی ہو گی۔۔ گاؤں میں اب زمینیں جیسے بانجھ پڑتی جا رہی ہیں، سب نکل رہے ہیں نوکری کی تلاش میں، میں بھی نکل آیا"۔۔۔۔ اس نے میری بات مکمل ہوتے ہی کہا" تو اہم یہ جاب نہیں، اہم کوئی بھی نوکری ہے"۔۔۔۔۔۔" ہاں کوئی بھی، کہیں بھی جاب، کوئی خواب تھوڑی ہے "۔۔۔۔۔۔" آپ خواب نہیں دیکھتے؟ "۔۔۔ اس کی بات پہ میں مسکرا کے رہ گیا" دیکھتا ہوں، پالتا نہیں ہوں۔۔ خواب پالنے اور پھر انہیں بڑا کرنے، ان۔ کی جوانی دیکھنے کے لیے بہت محنت لگتی ہے، میں خوابوں سے نکل کے، منہ پھاڑے کھڑی زندگی کو سنبھالنے کی کوشش میں ہوں"۔۔۔۔ اس نے گول چکر سے رکشہ گزارا اور دوسری سڑک پہ مڑ گیا۔۔۔ "تو آپ حقیقت پسند ہیں۔۔ اچھی بات ہے۔۔۔ لیکن کیا حقیقت پسند ہونا اس جاب کے لیے یا کسی بھی جاب کے لیے زیادہ اہم ہے؟ " میں نے کچھ دیر سوچا۔۔" میرے خیال میں ہاں۔۔ حقیقت پسندی ہی اصل کُنجی ہے۔۔ آپ زمان و مکان کے درمیان خیالوں اور خوابوں سے وقت گزار سکتے ہیں، زندگی نہیں۔۔ زندگی کی تمام تر خوبصورتی یا بدصورتی اس کا "حقیقت" ہونا ہے۔۔ اسی طرح اس زندگی کے لیے اٹھائے گئے ہر قدم پہ حقیقت پسندی کی راہ ہی بہتر ہے "۔۔ اس نے ہمممم کو لمبا کھینچا۔۔اور سڑک کے کنارے رکشہ روک دیا" لیں سر، یہ آ گیا آپ کا مطلوبہ آفس "۔۔ میں نے رکشے سے سر باھر نکال کے سامنے آسمان کو چھوتی عمارت کو دیکھا اور رکشے والے کو پیسے دئیے، وہ نوکری ملنے کی دعائیں دیتا رخصت ہو گیا۔۔ عمارت تھی کہ کسی فرعون کا کوئی شیشے کا ہرم (pyramid) تھا۔ ٹائی درست کی، جیب سے چیونگم نکال کے کچھ دیر چبائی اور پھر پھینک کے عمارت کی طرف چل پڑا۔ سیکیورٹی والوں سے کلئیر ہونے کے بعد ریسیپشن پہ بیٹھی خاتون کو انٹرویو کا بتایا اور وقت میسر ہونے کے کارن پہلی منزل پہ ہی گھومنے لگا۔ رکشے میں بیٹھ بیٹھ کے ٹانگیں جڑ گئی تھیں۔۔ ٹہلتے ٹہلتے ایک دیوار کے سامنے جا کھڑا ہوا جہاں اس کمپنی کے مالک کی زندگی کی کہانی لکھی تھی۔ وہ ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوا مگر آج وہ اتنی بڑی کمپنی اور اس عمارت سمیت کئی جگہوں کا مالک تھا۔ دیوار کے بیچوں بیچ اس کی بڑی سی تصویر ٹنگی تھی اور تصویر کے نیچے لکھا تھا
میری راہیں مشکل اور میری منزل نامعلوم تھی، مگر میرا خواب۔۔ میرا ہم سفر تھا