جہاز ابھی فضا میں تھا لیکن شہر کی عمارتیں اور سڑکیں نظر آنے لگی تھیں۔ اس پر ہیبت طاری تھی، جسم ایسے شل ہو گیا تھا جیسے سارے بدن سے جان نکل چکی ہو۔ اسے اپنی اس کیفیت کی خود سمجھ نہیں آ رہی تھی۔ وہ تو برسوں اس شہر میں آنے کے لئے تڑپا تھا۔ دل تھا کہ گویا ہاتھوں سے نکلا جا رہا تھا۔ ائیر پورٹ پر اترے تو اس سے چلا نہیں جا رہا تھا ٹانگیں بالکل بے جان ہو چکی تھیں ۔ ائیر پورٹ پر ہی اس نے روزہ افطار کیا لیکن کیا کھایا کیا پیا اسے کچھ پتا نہیں تھا۔ کچھ ہوش آیا تو اس وقت جب سامنے فاروق بھائی کو دیکھا، اس کے پڑوسی فاروق بھائی جو اسے لینے آئے ہوے تھے۔ وہ ان کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ گیا، گاڑی چوڑی سڑکوں پر دوڑنے لگی اور وہ اپنی حالت کا تجزیہ کرنے لگا۔ آخر ایسا کیوں ہو رہا ہے میرے ساتھ، بہت بچپن میں پڑھا ہوا ایک شعر اس کے دماغ میں گونجا۔
عشق، اک میر، بھاری پتھر ہے
کب یہ تجھ ناتواں سے اٹھتا ہے
اسے یاد آیا کہ اس بچپن کے دور میں وہ سوچتا تھا کہ آخر عشق کتنا بھاری پتھر ہے اور میر کتنے ناتواں ہیں کہ اسے اٹھا نہیں سکتے، اپنے بچپنے میں وہ تو سوچتا تھا کہ پہاڑ کو دھکہ دے تو اپنی جگہ سے ہلا کر رکھ دے۔ اسے تب سے پہلوانی کا شوق تھا، شاید اپنے ماموں کو دیکھ دیکھ کر جو باقاعدہ پہلوان تھے اور روزانہ اکھاڑے میں مشق کیا کرتے تھے ۔ استاد اکھاڑے میں اپنے پٹھوں کو مشق کرواتے یہ پہلوانی زبان میں "زور کرانا" ہوتا تھا، ماموں اکثر کہتے "بچے، جتنی دلچسپی سے زور کرو گے اتنی ہی آسانی سے کشتی جیت پاؤ گے۔
گاڑی رجب بھائی کے گھر کے سامنے رکی تو وہ ایک ہلکا سا دھچکا اسے ماضی سے واپس کھینچ لایا ۔ فاروق بھائی نے اسے سہارا دے کر گاڑی سے نیچے اتارا، اس شہر میں ان کا قیام رجب بھائی کے گھر کی اوطاق (بیٹھک) میں ہی رہنا تھا ۔ وہ رجب بھائی، ان کے والد اور بیٹوں اور گروپ کے دیگر افراد جو اس سے دو دن پہلے یہاں پہنچ چکے تھے سب سے مل کر فرشی نشست پر بیٹھا تو پھر خیالوں میں کھو گیا۔
"یا اللہ، میں بہت ناتواں ہوں، تو تو جانتا ہے نا، مجھے اس عشق کا بوجھ اٹھانے کی ہمت دے دے ۔ "
اچانک اسے خیال آیا کہ وہ کہاں بیٹھا ہے، کس کے شہر میں بیٹھا ہے، اس شہر میں ان کے سانسوں کی خوشبو رچی ہوئی ہے، اس شہر کی ہوائیں کبھی ان کے بدن کو چھوتی رہی ہیں ۔ اس کا دل اتنا تیز دھڑکا جیسے بھی پھڑپھڑا کر پسلیوں کا پنجرا توڑ کر باہر آ جائے گا ۔ اس کی پیلی رنگت اور ماتھے پر بہتا پسینہ دیکھ کر رجب بھائی پریشان ہو گئے ۔ انہوں نے ڈاکٹر کے پاس چلنے کو کہا تو فاروق بھائی نے انہیں روک دیا شاید وہ اس کی اندرونی کیفیات کو کسی حد تک سمجھ رہے تھے ۔
دسترخوان لگ گیا، اس نے چند لقمے لئے اور پیچھے ہٹ گیا، اس سے کھایا ہی نہیں جا رہا تھا ۔ سبھی کے اصرار کرنے پر اس نے تھوڑی سی کھیر اپنے پیالے میں ڈال لی اور ان کا ساتھ دینے کے لئے آخر تک دسترخوان پر بیٹھا رہا ۔
نماز کا وقت ہو گیا تھا، مغرب تو اس نے ائیر پورٹ پر ہی بمشکل ادا کی تھی ۔ وہ سب مسجد جانے کو تیار تھے ۔ اس سے اٹھا نہیں جا رہا تھا ۔ اپنے شل ہوتے وجود کو کسی پر بوجھ بنانا اسے گوارا نہیں تھا ۔" آپ جائیں، میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے میں یہیں نماز پڑھ لوں گا"
اس نے خود کو یہ کہتے ہوے حیرت سے سنا، وہ تو اس مسجد کے ایک ایک منظر کے لئے عمر بھر تڑپا تھا، یہ دنیا کی عظیم ترین مسجد تھی جہاں وہ رہتے تھے جو جہانوں کے لئے رحمت کا باعث ہیں، پھر وہ کیوں نہیں جا رہا؟
کافی دیر خیالوں میں گم رہنے کے بعد بھی وہ کچھ نہیں سمجھ پایا تو اپنے بے جان وجود کو گھسیٹتے ہوئے اٹھا اور وضو کرنے لگا ۔ نماز کے دوران اس کا دل شکوہ کر رہا تھا ۔
"یار، تو تو دل کی حالت جانتا ہے، میں کیا کروں؟ بے بس ہوں نا ۔ لیکن تو تو ہر بات پر قادر ہے میرے دل کو اتنی ہمت، اتنی قوت دے دے کہ میں تیرے حبیب پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سامنا کر سکوں "
اس کی آنکھوں سے آنسو بہتے چلے جا رہے تھے ۔ نماز طویل ہوتی جا رہی تھی جانے کب مسجد جانے والے واپس آ گئے ۔ اس نے سلام پھیرا تو سبھی اوطاق میں موجود تھے ۔ رجب بھائی کے والد اس کے قریب آ کر بیٹھ گئے ۔
" سائیں، سنبھالو اپنے آپ کو، رب سوہنا بہتر کرے گا ۔ صبح جانا سب کے ساتھ نماز کے لئے ۔ ان شاء اللہ کوئی مشکل نہیں ہو گی "
رات گزر گئی سحری کرتے ہی سب مسجد جانے کی تیاری کرنے لگے ۔ رجب بھائی کی بیٹی کی شادی شروع تھی ۔ انہوں نے چلتے ہوے انتہائی معزرت کے ساتھ بتایا کہ واپسی پر سب بیت قدیم جائیں گے جہاں انہوں نے ان کے قیام کا بندوبست کیا ہے ۔ "گھر میں رشتے داروں کا رش ہو گا تو آپ کے آرام میں خلل پڑے گا"
انہیں کیا اعتراض ہو سکتا تھا ۔ چل پڑے، مسجد جوں جوں قریب آتی جا رہی تھی اس کی حالت خراب ہوتی جا رہی تھی، وہ بمشکل خود کو سنبھال رہا تھا ۔ مسجد میں وہ اس احتیاط سے داخل ہوا کہ کسی طرح سبز گنبد کے سامنے نہ جائے ۔ چپکے سے نماز پڑھی اور دھک دھک کرتے دل کے ساتھ باہر نکل آیا ۔ اسے لگتا تھا کہ سبز گنبد پر نظر پڑتے ہی وہ برداشت نہیں کر پائے گا ۔ آنسو بن کر بہہ جائے گا یا دل پھٹ کر مر جائے گا ۔ "نہیں، یہ میرے بس میں نہیں" ۔
وہ بیت قدیم پہنچ گئے ۔
یہ رجب بھائی کا پرانا فلیٹ تھا ۔ "میں جب گھر والوں کو یہاں بلانے لگا تو اس وقت یہ فلیٹ خریدا تھا" رجب بھائی بتا رہے تھے فلیٹ کیا تھا بلڈنگ کے چھت پر بنا ایک چھوٹا سا رہائشی یونٹ تھا ایک ہال کمرہ جس ٹین کی چادر کی چھت ڈالی گئی تھی ۔ کمرے سے باہر غسل
خانہ تھا اور ایک برآمدہ نما چھتی جس کو کبھی باورچی خانے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہو گا اب اس میں کاٹھ کباڑ پڑا ہوا تھا ۔ غسل خانے کے لئے پانی پانچ منزل نیچے گراؤنڈ فلور سے اٹھا کر لانا پڑتا تھا ۔
" میرا بڑا بیٹا ماجد اسی گھر میں پیدا ہوا تھا " رجب بھائی کی آواز پر وہ سوچنے لگا کہ بیت قدیم واقعی بیت قدیم ہے کیونکہ ماجد اس وقت کم از کم تیس پینتیس سال کا تو دکھائی دیتا تھا ۔ یہاں کی واحد اچھی بات یہ تھی کہ یہاں سے مسجد کا فاصلہ صرف سات آٹھ سو گز تھا ۔ پیدل ہر نماز پر بڑی آسانی سے پہنچا جا سکتا تھا ۔
وہ بجائے آرام کرنے کے نیچے چلا گیا ۔ گلیوں میں بے مقصد پھرنے لگا یہ احساس کہ اس زمین نے کبھی ان کے قدم چھوئے ہوں گے ۔ ان ہواؤں نے کبھی ان کے بدن کو چوما ہو گا ۔ چلتے چلتے اسے زمین پر مٹی پڑی نظر آئی ۔ اس شہر کی مٹی ہے اور وہ بھی اس علاقے کی جہاں وہ رہتے تھے، کیا پتا اس میں کچھ ذرات ایسے بھی ہوں جو کبھی ان کے قدموں سے لپٹے ہوں، وہ جھکا پختہ سڑک سے ہاتھوں سے خاک اکٹھی کی اور دونوں ہاتھوں کی مٹھیوں میں لے کر کچھ خاک اپنے سر پر ڈالی اور کچھ چہرے پر مل کر ہچکیوں کے ساتھ رونے لگا، اچانک اسے ایک جھٹکا سا لگا ۔۔۔۔۔ اس کیفیت، اس منظر سے تو وہ پہلے بھی گزر چکا ہے ۔ کب؟ کہاں؟
اسے یاد آنے لگا ۔
اس کی اللہ سے یاری تو بچپن سے تھی، اللہ نے عشق اپنے محبوب کا دے دیا ۔ وہ اس یاری اور اس عشق کو اپنی زندگی کا حاصل سمجھتا تھا ۔ شدید غربت دیکھی تب بھی اپنے یار کا ہاتھ تھامے اس سوہنے عشق کی پوٹلی سینے سے لگائے اطمینان سے کاٹ لی اور جب رب نے اپنا کرم کیا اور اچھے حالات دیکھے تب بھی نہ یار کا ہاتھ چھوٹا نہ عشق کی لو مدھم پڑی ۔ وہ خزاؤں اور بہاروں کے چالیس چکر دیکھ چکا تھا ۔ ایک پختہ مرد تھا جب اس پر مجازی عشق نے وار کیا ۔ یہ وار بہت شدید تھا ۔ وہ تو دھیمے دھیمے سلگتے عشق کا عادی تھا یہ بھڑکتا ہوا الاؤ تھا جس نے اسے اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔ وہ تو محبت میں تسلیم و رضا کا قائل تھا "جو میرے یار کی مرضی" اس کے دل کی آواز ہوتی تھی ۔۔۔۔۔ اور وہ یار بدل بیٹھا تھا ۔ وہ جو عشق کی کٹھن گھاٹیاں اپنے یار کا ہاتھ تھام کر عبور کر لیتا تھا اب نئے یار کو محبوب بنا بیٹھا تھا ۔ یہ معمولی جرم نہیں تھا ۔ یہ کفر تھا، یہ شرک تھا جانے کیا تھا لیکن اسے ذلیل کر گیا ۔ احترام کے پھول برساتی نظریں طعنوں سے بھر گئیں ۔ طنز کے تیر اس کے دل کو چیرنے لگے ۔ ایسے میں اس کی محبوب ہستی نے، نئی دوست نے اسے اپنی زلفوں کی چھاؤں میں چھپا لیا ۔ وہ جو سبز گنبد کی میٹھی سبز روشنی کا اسیر تھا آزاد ہو گیا، اپنی ساری ریاضت خاک کر بیٹھا ۔ وہ سراپا آگ تھی ۔ جہنم جیسی دہکتی ہوئی آگ جو بہت شوق سے آگ پیتی تھی ۔۔۔۔۔۔ وہ جو تسلیم و رضا کا عادی تھا اس کے ایک حکم پر جام اٹھا بیٹھا ۔ آگ پینے لگا ۔ اس کے بدن کی آگ میں خود بھی جلنے لگا ۔ یہ تپش وصل کی راتوں میں بہت بھلی لگتی تھی گویا وہ خود بھی آگ سے بنا ہو گویا وہ خود اپنے اصل کی طرف لوٹ رہا ہو ۔ لیکن وصل کی راتیں بہت مختصر تھیں ۔ پھر ہجر کی کڑی دھوپ نے اسے گھیر لیا ۔ محبوب اپنی زلفوں کی چھاؤں میں کسی اور کو بٹھا چکا تھا ۔ اب وہ اس کی رسائی سے بہت دور تھی ۔ حد امکان سے بھی دور ۔۔۔۔۔۔
جرم معمولی نہیں تھا تو سزا بھلا کیسے معمولی ہو سکتی تھی ۔ اسے اپنا وجود ایک کوڑھ زدہ کتے کی طرح لگنے لگا ۔ اسے لگتا جیسے لوگ اس سے گھن محسوس کر رہے ہوں ۔ جیسے ہر ایک کی نظریں اس کے متعفن وجود پر تھوک رہی ہوں ۔۔۔۔۔۔ آخ تھو، آخ تھو ۔۔۔۔ وہ بھاگنے لگا ۔ لوگوں سے چھپنے لگا لیکن کوئی جائے اماں نہیں تھی ۔ عشق جنون بنتا جا رہا تھا ۔ اس نے شدت سے اپنی محبوبہ کی طرف واپس پلٹنے کی کوشش کی تو اس نے بھی اس کے چہرے پر تھوک دیا آخ تھو ۔۔۔۔۔۔ وہ چہرہ جسے وہ کبھی چومتے نہیں تھکتی تھی آج اس نے بھی اس پر نفرت سے تھوک دیا تھا ۔ لیکن وہ پھر بھی اس سے نفرت نہیں کر سکا ۔ عشق کس بلا کا نام ہے اسے اب پتا چلا ۔ دل میں ہر وقت ایک الاؤ دہکتا رہتا تھا ۔ اسے نہ اپنا ہوش تھا نہ اپنے ارد گرد کا ۔۔۔۔۔ یہ دیوانگی بہت خطرناک تھی ۔۔۔۔ اس سے محبت کرنے والوں نے اسے زنجیروں میں جکڑنا چاہا کہ وہ اپنے آپ کو نقصان نہ پہنچا لے لیکن وہ سب زنجیریں توڑ کر بھاگ نکلا ۔
وہ دیوانگی میں اس کے شہر جا پہنچا اس کی گلی کا طواف کرنے لگا ۔ یہ ہوائیں اس کے بدن کو چھو کر آ رہی ہیں ۔ وہ بدن جو کبھی اس کا اپنا تھا ۔ ایک دن گزرتے ہوے اسے خیال آیا کہ وہ بھی تو اسی گلی سے گزرتی ہے ۔ اسی مٹی پر اس کے پاؤں بھی پڑتے ہیں ۔ وہ جھکا دونوں ہاتھوں میں خاک اکٹھی کی اور کچھ اپنے سر میں ڈال لی کچھ چہرے پر مل لی اور ہچکیوں سے رونے لگا ۔ ۔ ۔۔۔
روتے ہوے اچانک اسے ایک خیال آیا اور وہ بے اختیار ہنس پڑا
"تو میرا یار مجھے زندہ دلوں کے شہر میں زور کرا رہا تھا "