اردو ادب کو نوبل انعام کیوں نہیں ملتے ہیں ؟ اس سوال پر گفتگو کرنے سے پہلے 2020 کے ادب نوبل پرائز کے بارے میں گفتگو کرلیں جو محترمہ لوئس گُلوک کو دیا گیا ہے.
لوئس گُلوک( Louise Gluk) نے درونِ ذات کے ان تمام نا خوشگوار معاملات کو موضوعی، مزاحمتی اور احتجاجی انداز کے ساتھ جزوِ شاعری بنایا جو جب تک افقی سطح پر تو محسوس کئے جا سکتے تھے آفاقی سطح پر ایک حساس فنکارانہ ڈکشن کے تعین کے انتظار میں تھے. انکے موضوعات گھریلو زندگی، ٹوٹتے رشتے، طلاق، ذہنی علاج اور موت کے گرد گھومتے ہیں اور ان سب کی بنیاد میں انکا افسانوی اور رومن اساطیری مطالعہ ہے جو انہوں نے اپنے والد سے حاصل کیا. وہ امریکی سفید فام یہودی باپ کی اولاد ہیں جنکے دادا ہنگرین یہودی تھے.
انکے غیر متوقع طور پر اعزاز پانے کے مندرجہ ذیل ممکنہ اسباب میں سے سب یا کچھ ہوسکتے ہیں
ہنگری نژاد یہودی امرکی سفید فام ہونا. (ابھی امریکہ میں رنگ بھید کے تنازعات خوب ابھر کر آئے ہیں)
نسلی اجتماعی احتجاج بنام ذاتی و نجی خانگی رشتوں اور ٹوٹ پھوٹ کو لے کر احتجاج
کثیر الاشاعت ہونا لگاتار 25 سال کی عمر سے شاعری و افسانوی کتابوں کا سلسلہ رواں دواں ہی 1968 میں پہلی کتاب نے لوگوں کو تعجب میں ڈال دیا تھا کہ اس طرح بھی ذاتی رشتوں پر لکھا جا سکتا . رواں سال میں ہی 11 کتابوں کی اشاعت. یعنی 50 سال کی ریاضت.
انکے ادبی کارناموں کا نامور ادبی شخصیات کے کارناموں سے تقابلی مطالعہ
زندگی کے تاریک پہلوؤں کی فنکارانہ عکاسی
کل ملا کر ایک سفید فام یہودی کی کئی دہائیوں پر محیط شعری و ادبی مجموعی نمایاں خدمات کو اور نمایاں کرنا.
امریکی انگریزی زبان کا وسیع دائرہ اور دائرہ کار اور عالمی اپروچ
اب اس مندرجہ بالا تناظر میں ہم چھان پھٹک کر سکتے ہیں کہ کیوں ایشیائی زبانوں میں بالخصوص بر صغیر کی زبانوں میں اور اس میں بھی اردو زبان میں نوبل انعام پانا کیوں اتنا مشکل ہے.
سہولت کے لئے چند معروضات پیش ہیں :
بر صغیر کی نمایاں زبانوں یعنی اردو، ہندی، بنگالی، ملیالی وغیرہ کی تصنیفات کا ایک دوسرے کی زبان میں اور دیگر عالمی زبانوں انگریزی، فرینچ، ہسپانوی، جرمن زبانوں میں ترجمہ نہ ہونا.
یہاں کی ساہتیہ اکادمی انعام یافتہ کتب کا بھی ترجمہ نہ ہونا اور انکے فروغ کی ناکافی کوشش
ساہتیہ اکادمی اور اس سے کمتر درجے کی سرکاری اکادمیوں کی صحیح کتاب کی 'ناتلاش' . یہ 'ناتلاش' بھی ایک بڑی وجہ ہے. اور اس کی کئی وجوہات ہیں جسمیں نیٹورکنگ، اثر و رسوخ اور اپنوں کو نوازنے والے معاملات شامل ہیں.
کتاب کی ترسیل و ابلاغ کا ناکافی اور کمزور نظام. ضروری نیٹ ورکنگ کی کمی.
عالمی سطح کی نیٹ ورکنگ جیسے رابندر ناتھ ٹیگور کے معاملے میں انکے انگلش اور یورپین دوستوں نے کی تھی.
کُل ملاکر برصغیر کی زبانوں کا نامزدگی تک ہی معاملہ نہیں پہنچتا تو آگے کے معاملات کی بات ہی کیا کی جائے.
خالص سائنسی اور معاشیات کے معاملات کے لئے نوبل انعام کے معاملے کو چھوڑ دیا جائے تو ادب اور امن کے انعامات زیادہ تر متنازعہ رہے ہیں. جیسے الگ الگ وقت پر امریکی اور اسرائیلی سربراہوں کو امن انعام دے دینا.
ایک مثال سے سمجھ سکتے ہیں. مشترکہ نوبل انعام برائے امن جو کچھ سال پہلے پاکستان اور ہندوستان کو گیا اسکی سیاسی معنویت سے انکار نہیں کیا جاسکتا. ستیارتھی کو یہ انعام تب ہی ملا جب وہ برسوں پہلے مدھیہ پردیش کے چھوٹے شہر ودیشا سے دلّی اپنے این جی او کے' بچبن بچاؤ' کے ساتھ شفٹ ہوئے. انہوں نے نے بھی نوکری چھوڑ کر بچپن بچاؤ آندولن 34 سال کی عمر شروع کر دیا تھا. انکا بھی ایک لمبا سفر رہا. ملالا یوسف زئی انکی شریک انعام یافتہ ضرور اپنے آپ میں ایک استثناء ہے.
سماجی خدمات کے لئے ہندوستان اور پاکستان میں کئی فلاحی ادارے اور شخصیات کا کام قابلِ قدر ہے. جیسے پاکستان میں مرحوم ایدی کے فلاحی ادارے کے کام اور انڈیا میں عظیم پریم جی کی فاونڈیشن کے تعلیم روزگار صحتء عامہ کے تعلق سے اور انسداد غربت کے کام
اردو کی بعض شخصیات بجا طور پر اس انعام کے نامزد ہو سکتی تھیں اور انعام پا بھی سکتی تھیں جیسے فکشن میں قرات العین حیدر اور جیلانی بانو.
موجودہ منظر نامے میں اگر مضاحمتی، معاشرتی اور ثقافتی ادب کو نئے ڈکشن اور عالمی اثر مرتب کرنے والی قوت کے طور پر پیش کرنے میں مشرف عالم ذوقی صاحب کا نام انکے ضخیم تازہ ناول 'مرگِ انبوہ' کے لئے لیا جا سکتا ہے. مگر موجودہ سیاسی صورتحال میں اس کی سرکاری پزیرائی ملکی سطح پر تو تقریباً ناممکن ہے. اس راہ میں اڑچنیں تو خوب ہیں. کچھ ریاستی اکادمیاں ضرور کچھ کر سکتی ہیں.
کوئی کتاب پہلے اچھی خاصی ریڈرشپ پیدا کرلے یہ بھی اس معاملے میں از بس ضروری ہے لیکن دیگر ملکی زبانوں کی طرح اردو میں بھی کتابوں کی ریڈرشپ کم سے کم ہے بلکہ دوسری ہم پلہ زبانوں جیسے ہندی، ملیالم، بنگلا، مراٹھی سے تو اور بھی کم ہے بلکہ نہیں کے برابر ہے. اسکے اسباب و علل الگ چرچا کا موضوع بن سکتے ہیں
پسِ نوشت :
میں نے کہیں بھی ایسا نہیں کہا کہ ہمارے یہاں یعنی بھارت میں نوبل انعام کے لائق فن پارے وجود میں نہیں آ رہے ہیں. پاکستان، بنگلہ دیش اور اردو کی مہجری بستیوں کے لکھاری اس ضمن میں کیا سوچتے ہیں، وہ بہتر بتا سکتے ہیں
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...