۹ مئی کی رات ۱۱ بجے جلگاوں سے معین الدین عثمانی کا فون آیا کہ احمد عثمانی اس دار فانی سے کوچ کر گئے۔
سن کر دل کو ایک جھٹکا سالگا۔ ابھی کچھ دن قبل ان کے فرزند کے انتقال کی خبر ملی تھی، اس کی تعزیت بھی نہیں کر پایا تھا کہ اب تو وہی ہستی بھی اس دنیا سے کوچ کر گئی جسے تعزیت کرنی تھی۔
لاک ڈاون کی وجہ سے مالیگاوں کے حالات بے حد خراب ہیں۔ اس بات کا مجھے علم تھا، احباب اور رشتہ داروں سے مالیگاوں کے حالات اور وہاں ہونے والی اموات کا پتہ چل رہاتھا۔ لیکن یہ حالات احمد عثمانی کو بھی ہم سے جدا کر دیں گے اس بات کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔
احمد عثمانی کے اس دار فانی سے کوچ کرتے ہی اردو زبان کے ایک اچھے افسانہ نگار، ناول نگار، بچوں کے ادیب ، مدیرکو اردو دنیا نے کھو دیا تو احمد عثمانی کے شناساوں نے ایک مخلص دوست، ایک سوشل ورکر، ایک درد مند انسان کو کھو دیا۔
احمد عثمانی سے میری پہلی ملاقات آج سے چالیس سال قبل ایولہ میں ہوئی تھی۔ جب میں کالج کا طالب علم تھا اور اردو ، ہندی ادب میں اپنا مقام بنانے کے لیے جدوجہد کر رہا تھا۔ اس وقت میرے جیسوں کے لیے احمد عثمانی جیسے لوگ مشعل راہ تھے۔
کیونکہ اس وقت تک احمد عثمانی کا پہلا افسانوی مجموعہ ’’ رات کا منظر ‘‘ شایع ہو چکا تھا۔ اوراس کی خوب چرچا تھی۔
کیونکہ احمد عثمانی جواد رائٹرس گروپ سے جڑے ہوے تھے اس لیے ان کی نہ صرف ادب عالیہ پر نظر بھی بلکہ وہ ادب عالیہ کے تخلیق کے اصول، رموز و نکات سے اچھی طرح واقف تھے۔نیا پورہ مالیگاوں میںماہنامہ جواز اور جواز رائْٹرس گروپ کا آفس تھا،جہاں روزانہ جواز سے تعلق رکھنے والے ادیب وشاعر جمع ہوتے تھے۔جواز کے مدیر سید عارف بھلے ہی ممبی میں رہتے تھے لیکن وہ باقاعدگی سے مالیگاوں آتے رہتے تھے،ان کی آمد کے بعد جواز سے جڑے شعرا و ادیب کچھ اور زیادہ سرگرم جو جاتے تھے۔
جواز کی ہفتہ واری کیا روزانہ کی نشستوں میں تخلیق کار اپنی تخلیقات پیش کرتے رہتے تھے۔اس کے علاوہ جواز کے لیے موصول ہونے والی تخلیقات پر بھی انہیں رسالے میں اشاعت کے لیے بحث ہوتی تھی۔ جواز جدید یت کا اس زمانہ میں ’’شب خون ‘‘ کے بعد سب سے بڑا ترجمان تھا۔اس وجہ سے اردو دنیا کے تمام اہم جدیدیت کے علبردار قلمکار ــ’’ جواز‘‘ میں اپنی تخلیقات روانہ کرتے رہتے تھے۔ اس وجہ سے احمد عثمانی کونہ صرف جدید ادب بلکہ جدیدیت کے عصری رجحانات کو پڑھنے اور سمجھنے کا موقع ملتا تھا۔
یہی وجہ تھی کیاان کے پہلے افسانوی منظر ’’ رات کا منظر‘‘ پر جدیدت کا اثر تھا اور وہ جدیدیت کے علمبرداروں کے حلقہ میں ہاتھوں ہاتھ لیا گیا تھا۔
ان دنوں موبائل یا ٹیلی فون کی اتنی اچھی سہولت نہیں تھی۔ رابطہ اور آدھی ملاقات کا سب سے بہترین اور آسان ذریعہ خط ہی تھا۔ اس لیے میری بھی احمد عثمانی سے خط و کتابت ہوتی تھی۔
ایک دن ان کا خط موصول ہوا کہ وہ ایولہ آ رہے ہیں اورمجھ سے ملاقات ضرور کریں کے۔ میرے لیے اس سے بڑی سعادت اور کیا ہو سکتی تھی۔ دراصل ایولہ میں ناسک ضلع کے اردو اساتذہ کا کوئی پروگرام تھا اس میں ناسک ضلع کے تمام اساتذہ شریک ہورہے تھے۔ احمد عثمانی اسی سلسلے میں ایولہ آ رہے تھے ان کے ساتھ مالیگاوں کے دیگر ادیب اساتذہ بھی آ رہے تھے۔جن میں شببرآصف بھی تھے۔
پروگرام کے دن احمد عثمانی ایولہ آے ، پروگرام میں شریک ہوے جو میرے مادر علمی اردو اسکول نمبر ایک میں تھا۔ میں ان کی تلاش میں پروگرام میں گیا، ایک شناسہ سے احمد عثمانی کے بارے میں استعفسار کیا تو انہوں نے ایک نوجوان کی طرف اشارہ کردیا۔ سفاری سوٹ میں ملبوس احمد عثمانی کو میں اس لیے آسانی سے پہچان گیاکہ ان کی تصویر کئی بار اخبارات اور رسائل میں دیکھ چکا تھا۔
سلام کر کے اپنا نام بتایا توان کے چہرے پر خوشی کے تاثرات کا ایک زلزلہ نمودار ہوا اور پورے جوش سے انہوں نے مجھ گلے لگا لیا۔ اور پروگرام چھوڑ کر مجھ سے بولے۔
’’ آو چاے پیتے ہیں۔‘‘
میں نےعذر پیش کیا،چاے کی ہوٹل کافی دور ہے۔تو تپاک سے بوے۔
’’ چاے کا تو ایک بہانہ ہے۔ تمہارے ساتھ وقت بتانا ہے۔ اس لیے چاے کی ہوٹل کتنی بھی دور ہو کوئی جرج نہیں۔‘‘
اور ہم جلسہ گاہ سے نکل آے۔ راستے میں انہوںنے مجھ سے میرے تعلیم، گھر اور ادبی تخلیقات کے بارے میں کئی سوالات کیے، میں ان کا جواب دیتا رہا۔ چاے کی ہوٹل میں بھی بہت دیر تک ادبی موضوعات پر گفتگو ہوتی رہی۔ پھر انہوں نے اپنے ہاتھ میں پکڑے بیگ سے اپنا افسانوی مجموعہ ’’ رات کا منظر ‘‘ نکال کر مجھے دیا۔جس پر پہلے سے میرا نام لکھا تھا۔ میرے لیے وہ بہت بڑا ادبی تحفہ تھا۔
اس کےبعد احمد عثمانی سے جو مراسم بنے وہ آخر تک قائم رہے۔
میں نے ان کی اس افسانوی مجموعہ سے افسانہ ’’ نئے موسموں کا اسیر ‘‘ کا ہندی ترجمہ کیا تو وہ بہت خوش ہوے اور اپنے کچھ اور افسانوں کے ترجمہ کے لیے نشاندہی کی۔ ان میں سے میں صرف دو اور افسانوں کا ہندی ترجمہ کر سکا۔
اس کے بعد مالیگاوں، جلگاوں، بھیونڈی کے ادبی پروگراموں میں احمد عثمانی سے مسلسل ملاقاتیں رہیں۔
معین الدین عثمانی کے زیر اہتمام شاہین لائبریری کے ادبی پروگراموں میں وہ عام طور پر رات میں دس بجے کے قریب مالیگاوں سے تشریف لاتے تھے،تب تک ہم سارے شرکا رات کے کھانے سے فارغ ہو کر ہوٹل میں کسی کمرے میں محفل سجا کر بیٹھے ہوے ہوتے تھے۔آتے ہی سب خلوص سے ملتے اور کھانہ کھانے کے لیے جانے سے قبل میرئ طرف اشارہ کر کہ کہہ جاتے۔
’’ یہ شخص راب بارہ بجے تک آپ لوگوں کے ساتھ ہے۔ بارہ بجے کے بعد آپ لوگوں کو اسے میرے حوالے کرنا پڑے گا، اس سے کئی سالوں کا حساب لینا ہے۔ ‘‘
بارہ بجے تک تو سبھی رخصت ہو جاتے تھے اور اس کے بعد ان کےیا میرے کمرے میں ہماری محفل کا آغاز ہوتا تھا۔جس میں کھبی کبھی نور الحسنین بھی شریک ہو جاتے تھے۔اس کےبعد رات بھر ادبی باتیں، ہنسی مذاق ، چھیڑ چھاڑ ، اپنی کی گئی ادبی شرارتوں اور داداگیری کا ذکر چلتا رہتا تھا۔میں عام طور پر رات میں زیادہ دیر تک جاگنے کا عادی نہیں ہوں۔ لیکن ان کے ساتھ ان کی باتوں میں رات کس طرح گذر جاتی تھی پتہ ہی نہیں چلتا تھا۔
اس کے بعد مختصر طویل ملاقاتوں کا یہ سلسلہ جاری رہا۔
ایک دن فون آیا۔
’’ میں نے اپنی بچوں کی کہانی ’’ موتی کی واپسی ‘‘ کا ہندی ترجمہ کروایا ہوں۔ تم ذرا اسکی زبان اور غلطیاں دیکھ لو۔‘‘
میں نے جواب دیا روانہ کر دیں۔ تین دن بعد رجسٹرڈ ڈاک سے اس طویل کہانی کو مسودہ مجھ موصول ہوا۔میں نے جب اس میں غلطیان درست کرنی شروع کی تو اپنا سر پکڑ لیا۔ زبان و بیان کی بے شمار غلطیاں تھیں۔ایک ایک صفحہ پر تیس چالیس غلطیاں پاکرمیں پریشان ہو گیا اور ان کو فون لگا کر کہا۔
’’عثمانی صاحب، اس میں تو اتنی غلطیاں ہیں کہ سوچ رہا ہوں غلطیاں درست کرنے کے بجاےمیں خود اسے دوبارہ لکھ دوں۔‘‘
’’ ٹھیک ہے ، ٹھیک ہے۔ تم ہی اسےدوبارہ لکھ دو اور ہاں اس کی ڈی ٹی پی کروا لینا۔‘‘
میرے لیے اس طویل کہانی کو دوبارہ لکھنا کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ مگر ڈی ٹی پی کرنا تھوڑی ٹیڑھی کھیر والا معاملہ تھا۔اردو زبان کے ڈی ٹی پی کرنے والے مشکل سے مل پاتے میں تو بھیونڈی میں ہندی ڈی ٹی پی کرنے والا ملنا اس سے بھی مشکل تھا۔
پھر مجھے ایک ہلکے سے خطرے کی بو بھی محسوس ہوئی۔کہ اگر کسی سی ڈی ٹی پی کروا بھی لی تو اس کا پروف بھی مجھے ہی دیکھنا پڑے گا۔ اس سے اچھا ہے میں ہی ڈی ٹی پی کر لوں۔
اس لیے میںنے ہی ترجمہ اور ڈی ٹی پی کرلی۔مگر ایک دوسراحکم نازل ہو گیا۔ کتابی شکل دیکر روانہ کرنا۔
یہ ذرا مشکل معاملہ تھا۔کیونکہ میں نے ڈی ٹی پی یونیکوڈ فونٹ میں گوگل ان پٹ کی مدد سے کی تھی۔ جس کا استعمال،ڈی ٹی ُی کے صافٹ وئیر پیج میکر، کورل ڈرا میں نہیں ہوتا ہے۔ان میں ٹائیپنگ کے لیے عام طور پر ٹرو ٹائپ فونٹ کرتی دیو یا شری لیپی کا استعمال ہوتا ہے۔
پہلے میں کرتی دیو میں ہی ہندی مراٹھی کا سارا کام کرتا تھا، لیکن یونی کوڈ کے آنے کے بعد وہ کی بورڈتقریبا بھول گیا تھا۔ اور شری لیپی کی بورڈ کو تو آج تک میں سمجھ نہیں سکا۔
اس لیے ٹایپ شدہ مواد کی ان پیج میں کتاب تیار کی۔ اس مواد کے ان پیج میں جاتے ہی کئی مقامات پر تبدیلیاں ہوگئی۔انہیں دوبارہ ٹائپ کرنا پڑا۔بحر حال کتاب تیار کر کے میں نے انہیں روانہ کر دی اور سختی کے ساتھ تاکید کی کہ اس پر کہیں بھی مترجم کی طور پر میرا نام نہیں آنا چاہیے۔در اصل پہلے جس شخص نے اس کا ہندی ترجمہ کیا تھا اس کا دل نہیں توڑنا چاہتا تھا۔ انھوں نے میرے حکم کی تعمیل کی تھی لیکن اپنی بات میں میرے ترجمہ اور ڈی ٹی پی کرنے کا شکریہ ادا کر کے اپنی دینانت داری کا ثبوت بھی دے دیا تھا۔
ابھی انہوں نے ڈی ٹی پی شدہ کتاب کھول کر بھی نہیں دیکھی تھی کہ ایک اور نیا حکم صادر کر دیا۔
’’ تم میرا یک اور کام کرو گے اور اس کام سے انکار نہیں کروگے۔ ‘‘
میں پریشان ہو گیا۔اب یہ کونسا کام آگیا جسے کرنے سے مجھے انکار بھی نہیں کرنا ہے۔
’’ آپ کام تو بتائیے ؟ ‘‘ میں نے کہا تو ارشاد فرمایا۔
’’ تم میرے اردو ناول ’’ زندگی تیرے لیے ‘‘ کا ہندی ترجمہ اور ڈی ٹی پی کروگے۔ ‘‘
یہ سن کر میں نے اپنا سر پکڑ لیا۔مجھے اپنی تخلیقات کو لکھنے کا موقع مشکل سے مل پاتا ہے۔ اور اس پورے ناول کا ترجمہ اور ڈی ٹی پی ؟
لیکن اس کی نوبت ہی نہیں آسکی۔ نہ انہوں نے ترجمہ کے لیےناول روانہ کیا۔
دو سال قبل جب مالیگاوں گیا۔ تو میری آمد کاسن کر بانچھیں کھل گئی اور دوسرے دن گیارہ بجےملنے کا اپاونٹمینٹ دیا۔یہ کہتے ہوے۔
’’ زندگی تیرے لیے ‘‘ کا مراٹھی ترجمہ ہو گیا ہے ۔اور اس کی ڈی ٹی پی بھی تیار ہے ۔ ذرا ایک نظر اس پر ڈال دینا۔‘‘
وقت مقرر پر جب میں ’’ بیباک ‘‘ کہ آفس پہونچا تو پتہ چلا موصوف ابھی نیند سے جاگے ہی نہیں ہیں۔ لیکن میرے آمد کا پتہ چلا تو دس منٹ میں فائل لیکر حاضر ہو گئے اور چاے بول کر فائل میرے حوالے کر دی۔
میں ترجمہ شدہ ناول کی ڈی ٹی پر پڑھنے لگا تو میری پریشانیوں میں اضافہ ہونے لگا۔
’’ ترجمہ کیسا ہے ؟ ‘‘ دو تین صفحات پڑھنے کے بعد انہوں نے راے جاننی چاہی تو میں پھٹ پڑا۔
’’نہ تو یہ مراٹھی ترجمہ ہے اور نہ مراٹھی ڈی ٹی پی۔نہ تو ترجمہ کرنے والے کو مراٹھی زبان آتی ہے اور نہ ڈی ٹی پی کرنے والے کو۔۔‘‘
میری بات سن کر کچھ پریشان ہو گیے۔
’’ مترجم مراٹھی زبان پر عبور رکھتا ہے اور جماعت اسلامی کی ایک کتاب کا مراٹھی میں ترجمہ کر چکا ہے ۔ ‘‘
اب میرے لیے پریشانی بڑھی،جماعت اسلامی کی کتاب کا مراٹھی میں ترجم کرنے والا اتنی خراب مراٹھی نہیں لکھ سکتا۔میں نے اس کی ترجمہ شدہ فائل کی کاپی مانگی تو اس کا زیروکس مل گیا۔
میں نے اے پڑھا تو مجھے اپنی راے بدلنی پڑھی۔
بہت اچھاترجمہ تھا، بالکل ادبی زبان میں ، بنا کسی غلطی کے۔
اس کا مطلب تھا ساری غلطی ڈی ٹی پی والے کی تھی وہ مراٹھی زبان نہیں جانتا تھا۔
میں نے مشورہ دیا۔ کسی اچھے مراٹھی دان سے دوبارہ ڈی ٹی پی کرا لی جاے۔ وہ کتاب بیباک پبلی کیشن کے تحت خود چھاپنا چا ہتے تھے۔
اس سلسلے میں میں نے دوسرا مشورہ دیا ۔کتاب چھاپنے کے لیے کسی مراٹھی پبلیشر کو دے دیں خود چھاپنے کی غلطی نہ کریں۔وہ ڈی ٹی پی کروالیگا اور پروف بھی دیکھ لیگا۔تو پوچھنے لگے مراٹھی کے کسی پبلیشر سے تعلقات ہے ؟ تو میں نے لا علمی ظاہر کی۔ پھر یاد آیا جلگاوں میں بھی کئی مراٹھی پبلشر ہیں، اس سلسلے میں معین الدین عثمانی مدد کر سکتے ہیں۔ فورا انھوں نے معین الدین عثمانی کو فون لگا کراپنا منشا ظاہر کر دیا تو معین نے کہا آپ جلگاوں آجائیے میں کسی پبلیشر سے ملوا دوں گا تو اے اگلے ہفتہ کو وقت دے دیا۔
یہ کام ہو گیا تو مجھ سے بولے۔
’’ اب تم اس پر مراٹھی میں پیش لفظ لکھ دو۔ ‘‘
’’ میں تو اس پر پیش لفظ نہیں لکھ سکتا ۔‘‘ میں نے معذرت ظاہر کی۔’’ لیکن میرے مراٹھی کے ایک بہت برے ادیب دوست ہیں ۔جنکی ہر موضوع پر کی کتابیں ہیں۔اور سب سے بری بات یہ ہے کہ وہ اردو بھی بہت اچھی طرح جانتے ہیں۔ پونہ کے بھارت ساسنے صاحب۔ انہوں نے میری کئ کہانیوں کا مراٹھی میں ترجمہ کیا ہے ۔ پیش لفظ کے لیے میں ان سے بات کرتا ہوں۔‘‘
فورا مجھ سے بھارت ساسنے صاحب کا نمبر لیا اور میرے حوالہ سے ان سے پیش لفظ کے لیے بات کر لی۔میرے وجہ سے انھوں نے پیش لفظ لکھنے کے لیے حامی بھر دی۔اور ان کے سارے مسائل حل ہوگئے۔
بھارت ساسنے صاحب نے کتاب پر پیش لفظ بھی لکھ دیا۔معین کے ذریعے جلگاوں کے ایک مراٹھی پبلیشر سے کتاب کی اشاعت کے سلسلے میں بات بھی کر لی۔لیکن پھر پورے ایک سال تک کتاب کی اشاعت کے سلسلے میں کوئی خبر نہیں مل سکی۔
بھارت ساسنے صاحب مجھ سے کتاب کی اشاعت کے سلسلے میں سوال کرتے تو میں لاعلمی ظاہر کر کے پیچھا چھڑا لیتا۔
پھر اچانک گذشتہ دنوں مجھ کو ایک خوشگوار حیرت کا جھٹکا لگا۔
انہوں نے مراٹھی کتاب روانہ کی تھی۔ اچھی چھپی تھی اور اس کا ایک شاندار اجرا بھی مالیگاوں میں ہواتھا۔
جواز کے بعد وہ بیباک سے وابستہ ہوگئے تھے۔ان کو بیباک سے کچھ ایسا دلی لگاو تھا کہ ہارون بی اے صاحب نے جب اپنی صحت کی وجہ سے بیباک سے علیحدگئ حاصل کر لی تو اس کی ساری ذمہ دارٰان احمد عثمانی کو دے دیں۔
جو انہوں نے پوری طرح نباہی۔ اور بیباک کی اشاعت میں باقاعدگی قائم رکھی۔
جبکہ ہر کوئی جانتا ہے ایک ادبی پرچہ کی باقاعدہ اشاعت آج کے دور میں کتنا مشکل کام ہے۔
میں اور معین الدین عثمانی ہمیشہ انہیں بیباک کے معیار اور پروف کی غلطیوں پر ٹوکا کرتے تھے وہ ہر بار اسے تسلیم کر لیا کرتے تھے۔
کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کے چلے جانے کے بعد ان کی باتیں یاد آتی ہیں اور ان کا چہرہ آنکھوں کے سامنے گھومنے لگتا ہے۔
آج اسی کیفیت کے تحت یہ مضمون کاغذ پر اترتا چلا گیاہے۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...