ایک کالا کتّا جس کا نام میکس تھا، بہت بھوکا تھا۔ اسے روٹی کا ایک ٹکڑا ملا۔ جسے پا کر وہ بہت خوش ہوا۔ اس نے سوچا کہ سامنے کے درخت کی ٹھنڈی چھاؤ میں اطمینان سے بیٹھ کر یہ ٹکڑا کھاؤں گا۔ وہ روٹی کا ٹکڑامنہ میں لیے درخت کے نیچے پہنچ گیا۔ ابھی وہ بیٹھنے ہی والا تھا کہ اسے سامنے ایک سفید کتّا جس کا نام چارلی تھا دکھائی دیا۔ چارلی کے منہ میں ایک ہڈی تھی۔ چارلی بھی درخت کی طرف آرہا تھا، لیکن میکس کو دیکھ کر رک گیا اور دونوں کی نظریں ایک دوسرے سے ٹکرائیں۔ ”پہلے میں ہڈی حاصل کرلیتا ہوں اس کے بعد روٹی کھاؤں گا۔“ یہ سوچ کر میکس نے اپنی روٹی درخت کے نیچے رکھ کر چارلی پر حملہ کر دیا۔ دونوں میں خوب لڑائی ہوئی۔ کبھی میکس اوپر اور چارلی نیچے تو کبھی چارلی اوپر اور میکس نیچے۔ آخر چارلی زیادہ طاقت ور ثابت ہوا اور میکس کو شکست ہوئی۔
میکس بھوکا پیاسا درخت کے پاس آیا لیکن وہاں روٹی نہیں تھی۔ وہ بہت گھبرا گیا اور اِدھر اُدھر دیکھنے لگا۔ اس نے درخت کے چاروں طرف روٹی کی تلاش کی لیکن وہ نہیں ملی۔ آخر کار وہ تھک ہار کر درخت کی چھاؤ میں بیٹھ گیا۔ اب میکس کی حالت کچھ اس طرح تھی کہ ’آدھو چھوڑ پورو بھاگو، آدھو جائے پورو جائے‘ پھر اچانک اس کی نظر اوپر کی طرف گئی۔ اس نے دیکھا کہ وہ روٹی کا ٹکڑا درخت پر بیٹھے ایک کالے کوّے کے منہ میں تھا۔ میکس نے کوّے کی طرف دیکھا اور کہا، ”کوّے میاں میں نے آپ کی میٹھی اور سریلی آواز کی بہت تعریف سنی ہے، لیکن آج تک آپ کی آواز میں کوئی گیت نہیں سنا۔ آپ مجھے کوئی اچھا سا گیت سناؤں….پلیز۔ کوّے نے کہا، ” ایک بار میں لومڑی کے بہکاوے میں آگیا تھا۔ اس وقت میں نے بے وقوفی کی وجہ سے اپنی روٹی کھوئی تھی اور آج تونے لالچ کی وجہ سے اپنی روٹی کھوئی ہے۔“ اس کے بعد کوّا اس کی نظروں کے ہی پوری روٹی کھا گیا، اور میکس اسے دیکھتا ہی رہے گیا۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...