شمس العلماء محمد حسین آزاد کو جدید اردو نظم کا بانی اور مجدد کہا جاتا ہے۔ کیونکہ عنوانی نظم نگاری اور نیچرل شاعری کی ابتداء ان ہی کے ہاتھوں ہوئی۔ آپ بڑے ادیب، نامی گرامی نقاد، مشہور نثرنگار، ماہرِ تعلیم اورایک معروف اخبار نویس تھے ۔ علاوہ ازیں آپ فلالوجی (philology ) کے بھی بڑے ماہر اور جدید فارسی کے استاد کامل تھے ۔ مولانا محمد حسین آزاد ۱۰ جون ۱۸۳۰ء کو دلی میں پیدا ہوئے ۔ان کے والد کا نام مولانا محمد باقر تھا۔ جو کہ ذوق کے دوست تھے اسی وجہ سے آزادؔ کی ابتدائی تعلیم ذوق کے سایٔہ عاطفت میں ہوئی۔ ان کی بابرکت صحبت سے موصوف نے شعر گوئی اور فن عروض سیکھا۔آزادؔ ؔنے عربی اور فارسی اپنے والد سے ہی سیکھی اور پھر دلی کالج میں داخلہ لیا جہاں مولوی نذیر احمد، مولانا حالی، مولوی ذکاء ﷲ وغیرہ ان کے ہم سبق تھے ۔ مولانا آزادؔ کو بچپن سے شاعری کا شوق تھا وہ ذوقؔ کے ساتھ بڑے بڑے مشاعروں میں جاتے اور اپنے استاد کا کلام سنتے تھے ۔آپ کے والد 1857ء جنگ آزادی میں مارے گئے اور نتیجتاَ آزاد ؔ کو اپنے گھر بار کو چھوڑ کر دہلی سے لکھنؤ جانا پڑا۔ آزادؔ کو ان کے تعلیمی و تصنیفی اور سرکاری کارناموں کی وجہ سے بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔آغا محمد باقر لکھتے ہیں کہ:
‘‘۱۸۸۷ء میں مولانا آزاد ؔ کو ملکہ وکٹوریا کی جوبلی کے موقعہ پرتعلیمی اور ادبی خدمات کے صلے میں شمس العلماء کا خطاب ملا۔’’ ۱
اردو ادب کی اس عظیم ہستی نے زندگی کے آخری بیس سال قیدِ جنوں میں گزار کر اس فانی دنیاسے جنوری ۱۹۱۰ء میں ہمیشہ کے لیے رخصت کیا۔ یہاں ہم آزادؔ کے اُن کارناموں کا ذکر کریں گے جن سے ادبی دنیا میں مولانا محمد حسین آزادؔ کی ایک پہچان بنی ہوئی ہے ۔
قصصِ ہند:۔
قصصِ ہند تین حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلا حصہ ماسٹر پیارے لال آشوب کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ اس کا تیسرا حصہ کرنل ہالرائیڈ کے ایماء پر سر رشتۂ تعلیم پنجاب کے اراکین نے ترتیب دیااور قصصِ ہند کا دوسرا حصہ محمد حسین آزادؔ کا پہلا ادبی اور علمی کارنامہ ہے ۔اس کے بعد ایک عرصہ تک آزادؔ نے کسی مستقل تصنیف کی طرف توجہ نہیں کی۔ عتیق ﷲ لکھتے ہیں کہ :
’’قصصِ ہند میں کسی خاص عہد یا ہندوستان کی مکمل و مبسوط تاریخ کو موضوع نہیں بنایاگیا ہے بلکہ محض ان چیدہ چیدہ تاریخی شخصیات ہی پر خاص توجہ کی گئی ہے۔ جو مختلف سے توجہ طلب رہی ہیں۔آزاد نے انہیں بڑی بے تکلف اور حکائی زبان میں اد اکرنے کی سعی کی ہے۔ آزاد نے بڑی حد تک معروضیت کا بھی خیال رکھا ہے ۔ ‘‘ ۲
قصص ہند میں محمود غزنوی، شہاب الدین غوری ،علاء الدین، ہمایوں، اکبر،نور جہاں ،شاہ جہاں،اورنگ زیب،شیوا جی وغیرہ وغیرہ کے کچھ حالات و واقعات کا ذکر کیا ہے ۔ اس میں آزاد ؔنے ہندوستان کے کچھ مشہور قصوں کہانیوں کو عام فہم زبان میں بیان کیا ہے ۔ رام بابو سکسینہ لکھتے ہیں کہ:
’’یہ لاجواب کتاب جماعت طلباء میں نیز پبلک میں بے حد مقبول ہے بچے اس کو دلچسپ واقعات کا مجموعہ سمجھتے ہیں اور پڑھے لکھے اس کی عبارت کے دلدادہ ہیں ۔‘‘ ۳
آبِ حیات:۔
مولانا محمد حسین آزادؔ کی شاہکار اور بہترین تصنیف ’آبِ حیات‘ ہے۔ اس میں مشہور شعراء کے حالات مع نمونۂ کلام اور موصوف کے دلچسپ اور عالمانہ تنقید کے نمونے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اس سے قبل اس قسم کا تذکرہ کسی نے نہیں لکھا تھا ۔آب حیات لکھ کر مولانا نے ایک جدید طرزکی تذکرہ نگاری کا آغاز کیا ۔گنجینۂ معلومات ہونے کے علاوہ اس کتاب کی خوبی اس کی بے مثال طرزِ عبارت ہے کہ جس کی نقل کی سب کوشش کرتے آئے ہیں مگر کماحقہٗ کوئی نہیں کر سکا۔ ڈاکٹر رام بابو سکسینہ اس کتاب کی تنقیدی اہمیت ان الفاظ میں بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ اسی کتاب سے تنقید کا صحیح معیار اردو میں قائم ہوا۔ حالیؔ کی یادگار غالبؔ کو اسی کتاب کے مطالعہ کا نتیجہ سمجھنا چاہئے ۔‘‘ ۴
آزادؔ نے اس کتاب کو پانچ ادوار میں تقسیم کیا ہے۔ شاعر کے واقعاتِ حیات اور ان کی سرگذشت قلمبند کرنے میں آزاد کے پر لطف اوردلچسپ اسلوب بیان اور ان کی محاکاتی صلاحیتوں نے ان کی اچھی رہبری کی ہے ۔’آبِ حیات‘ اردو کی ادبی تاریخ کا ایک ایسا البم ہے کہ جس میں ہر تصویر اپنے خد و خال اور اپنی شخصیت کے تمام اہم پہلوؤں کے ساتھ اجاگر ہوتی ہے ۔ڈاکٹر محمد صادق لکھتے ہیں کہ:
’’ آب حیات محض اردو شاعری کی تاریخ ہی نہیں بلکہ ایک توانا ،متحرک اور زندگی سے لبریز دستاویز ہے جو عہد ماضی کو از سر نو زندہ کرکے ہماری آنکھوں کے سامنے لا کھڑا کرتی ہے ۔‘‘ ۵
کلیم الدین احمدبھی تذکروں میں اس کتاب کی اہمیت پر رقمطراز ہیں:
’’آزاد ؔشاعروں کے نام نہیں گناتے، متفرق اوصاف و نقائص کی فہرست مرتب نہیں کرتے ۔ہر شاعر کی زندہ تصویر کھینچتے ہیں۔ میرؔ، سوداؔ، دردؔ، انشاؔ، مصحفیؔ، ناسخؔ غرض ہر شاعر کی الگ الگ تصویر ہے۔‘‘۶
آبِ حیات کے اسلوب میں جو نزاکت اور سادگی موجود ہے وہ بہت کم انشاپردازوں کے حصے میں آئی ہے یہی وجہ ہے کہ تذکرے کے بہت سے واقعات غلط ثابت ہونے کے باوجود بھی اس کی ادبی اہمیت میں کوئی فرق نہیں آیا۔ عبدلقادر سروری آب حیات کی اہمیت پر اظہارخیال کرتے ہوئے یوں رقمطراز ہیں کہ:
‘The most remarkable book, however in the writings of Azad is his Aab-Hayat, which is a history of urdu poetry from the time of the earliest- poets like wali to the time of ghalib……it has been said by some critics that inaccuracies have crept in here and there in certain details and that at places the author have even drawn on his imagination a good deal. That may be true but taking the work as whole, we cannot be sufficiently grateful to Azad for the pains he took in producing this book.” 7*
دربارِ اکبری:
یہ ایک عالیشان تصنیف ہے جس میں آزاد ؔ نے بادشاہ اکبر کے عہد اور ان کے اراکین سلطنت کے حال درج کئے ہیں۔اس کتاب میں آزاد ؔ نے عہد اکبری کا نقشہ اس طرح کھینچا ہے کہ تمام مناظر جیتی جاگتی تصاویر کی طرح آنکھوں کے سامنے آجاتے ہیں۔ اکبر کی شان کے مطابق زبان کا استعمال کیا ہے اس کتاب کا ترجمہ انگریزی زبان میں بھی ہو چکا ہے۔موصوف نے اکبر کے نام سے ایک ڈرامہ بھی لکھا تھا۔ سیدہ جعفر آزادؔ کی دربار اکبری کی وجہ تصنیف بیان کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ:
’’آزادؔ نے بڑی غیر معمولی محنت اور لگن کے ساتھ ‘دربار اکبری’ کا پہلا ایڈیشن ۱۴ ستمبر ۱۸۹۸ء میں مرتب کرکے شایع کیا تھا۔ اس میں تاریخ ہند کے ایک سنہری دور کو موضوع بنایا گیا ہے۔ اکبر اعظم کی رواداری، وسیع النظری اور روشن خیالی آزادؔ کے مزاج میں میل کھاتی تھی اور اس رجحان نے بھی آزاد ؔ کو دربار اکبری کی تصنیف کرنے پر مائل کیا تھا۔’’ ۸
اسی طرح دیوان ذوق ؔکے فلیپ پر آغا محمد طاہر اس کتاب کی اہمیت ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں:
’’جلالدین اکبر شہنشاہِ ہندوستان اور اس کے نورتن (امرائے جلیل القدر)کے دلچسپ حالات اس خوبی سے قلم بند کئے ہیں کہ مذاقِ سلیم عش عش کرتا ہے ۔۔۔‘‘ ۹
عتیق اﷲ دربار اکبری کو اکبر کی سوانح، شخصیت اور ان کو کارناموں اور عہد کی مفصل تاریخ بتاتے ہوئے لکھتے ہیں:
’دربار اکبری’ محض دربار کے امراء کے سوانح پر مبنی نہیں ہے بلکہ اکبر کے روز و شب ان کی معاملہ فہمی اور انسان فہمی،ان کی سیاسی حکمت عملی، جنگی مہمات۔ مختلف فنون کے ماہرین اور امراء سے ان کے تعلق کی نوعیت،ان کی وسیع المشربی اور مذہبی تصورات، ان کے عہد کی تصانیف اور عمارات، ان کے عادات و خصائل، ان کے بچپن اور لڑکپن سے لے کر بڑھاپے تک اہم سوانحی مراحل گویا اکبر کی زندگی کے مختلف ادوار کو بڑے موثر اور دلپذیر پیرائے میں بیان کیا ہے۔’’ ۱۰
نیرنگ خیال:
نیرنگ خیال محمد حسین آزادؔ کے تمثیلی مضامین کا مجموعہ ہے۔ یہ ۱۸۸۰ء میں دو حصوں میں شائع ہوا۔ ان مضامین میں آزادؔ نے تمثیل نگاری (Allegory) سے کام لیا ہے۔ یہ مضامین ہلکی پھلکی اور شگفتہ مضمون نگاری کا عمدہ نمونہ ہیں۔ ان میں آزاد ؔ نے انگریزی ادب سے بھر پوراستفادہ کیا ہے۔ آزاد ؔ کو اس تصنیف کا خاکہ ڈاکٹر جی ۔ڈبلیو۔لائٹنر G.W.Lietner) سے ملا تھا جو یونانی اور انگریزی ادب کا ماہر تھاان ہی کی مفید معلومات اور مہیا کردہ مواد سے آزادؔ نے نیرنگ خیال کی عمارت تعمیر کی۔ سیدہ جعفر بھی اس حقیقت پر ان الفاظ میں روشنی ڈالتی ہیں کہ:۔
ان (آزاد) کے سامنے جانسن اور ایڈیسن کی مضمون نگاری کے نمونے تھے اور ان ہی سانچوں میں آزادؔ نے اپنے انشائیوں کو ڈھالنا چاہا تھا۔’’ ۱۱
نیرنگ خیال میں جتنے بھی مضامین شامل ہیں، (نیرنگِ خیال کل تیرہ مضامین پر مشتمل ہے) ان میں سے چھے مضامین جانسن کے ہیں ،تین ایڈیسن کے ہیں اور بقیہ دوسرے انگریزی ادیبوں کے ۔لیکن ان ترجموں میں آزاد نے اپنی ذہانت اور سحر بیانی سے اتنا ردوبدل کر دیا ہے کہ ان میں تخلیقیت کی شان پیدا ہوئی ہے ۔ نیرنگ خیال کے تمام مضامین میں ’’شہرت عام اور بقائے دوام کا دربار ‘‘نہایت ہی اہمیت کا حامل ہے۔ اس میں آزاد نے مختصر انداز میں مختلف شخصیتوں جیسے نظامی،ؔ سعدیؔ، اورنگ زیب، غالبؔ، جرأتؔ وغیرہ وغیرہ کا خاکہ پیش کیا ہے جس میں ان کی مرقع نگاری کے جوہر سامنے آتے ہیں۔ غالب کی شاہانہ شان کا مختصر سا خاکہ کچھ اس طرح سے پیش کرتے ہیں:
’’۔۔۔غالبؔ اگرچہ سب سے پیچھے تھے پر کسی سے نیچے نہ تھے۔ بڑی دھوم دھام سے آئے اور نقارہ اس زور سے بجا کہ سب کے کان گنگ کر دئے۔ کوئی سمجھا اور کوئی نہ سمجھامگر واہ واہ اورسبحان ﷲ سب کرتے رہے ۔۔۔۔’’ ۱۲
دیوانِ ذوقؔ:۔
خاقانیٔ ہند شیخ ابراہیم ذوقؔ کے کلام اور قصائد کو آزاد نے ترتیب دے کر دیوان کی صورت میں چھپوایا۔ اس کتاب کی ترتیب و تالیف سے محمد حسین آزادؔ نے اردو ادب کی بیش بہا خدمات انجام دی ہے اور اپنے استاد کو گمنام ہونے سے بچا لیاہے۔ دیباچہ میں ذوقؔ کی سوانحی زندگی کے کچھ واقعات رقم کئے ہوئے ہیں۔مذکورہ دیوان میں آزادؔ نے اشعار کے ساتھ ساتھ کچھ دلچسپ نوٹ بھی لکھے ہیں جن سے نہ صرف اشعار کی قدر و قیمت ہی بڑھ گئی بلکہ ان میں ایک رومان کی سی کیفیت پیدا ہو گئی ہے۔ محمد حسین آزاد ؔنے حالات غدر میں دیوان ذوق ؔ کے خام مواد کو کسی طرح سے بچا لیا اس پر عبدالقادر سروری روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
‘He left Delhi with the woman and children ofthe family and the only thing that he managed to save from the general ruin was a bundle of manuscript poems of his great master Zauq. which were subsequently published by him in his enlarged edit -ion of Diwan-i-Zauqwith a suitable preface.”13*
سخندانِ فارس:۔
سخندان فارس ان مختلف مقالات کا مجموعہ ہے جوفارسی زبان و ادب سے متعلق ہیں۔فارسی ادب کے تعلق سے یہ کتاب بہت ہی دلچسپ ہے ۔یہ کتاب دو حصوں پر مشتمل ہے پہلے حصے میں آزادؔنے علم فلالوجی اور سنسکرت اور فارسی زبان کے آپسی رشتے پر روشنی ڈالی ہے اور دوسرا حصہ گیارہ لیکچروں پر مشتمل ہے جو کہ فارسی زبان و ادب اور دوسرے موضوعات سے متعلق ہیں۔ یہ کتاب علم فلالوجی (Philology) یعنی علم لسانیات کے فن پراردو کی اولین تصانیف میں اپنی نوعیت کی پہلی کتاب ہے ۔بلا شبہ آج کے دور میں علم لسانیات کے جو اصول و ضوابط وضع ہوئے ہیں وہ آزاد کے زمانے سے بالکل مختلف ہیں۔لیکن ایک ایسے دور میں جب یہ علم نیا نیا ہی تھا خاص کر اردو ادب میں علمی موضوعات اور مسائل کی کی طرف بہت کم توجہ کی جاتی تھی اس کتاب کی حیثیت ایک بہت بڑے کارنامے سے کم نہیں ہے۔ آزادؔ اردو کا پہلا محقق ہے جس نے اردو اور فارسی کے لسانی رشتوں کی طرف توجہ دلانے کے ساتھ ساتھ قدیم فارسی اور قدیم سنسکرت کے لسانی رشتوں پر بھی بحث کی اور یہ ثابت کیا کہ اردو کی لسانی اور ادبی وراثت میں صرف فارسی ہی کا نہیں بلکہ قدیم سنسکرت کے ذخیروں کا بھی بڑا حصہ ہے ۔ اس کتاب میں آپ نے فارسی اور سنسکرت زبان کو متحدالاصل ثابت کرنے کی کوشش کی ہے ۔ اس کتاب کے بارے میں محمد صادق لکھتے ہیں کہ:۔
”The book has a two fold thesis.First,that language is a living organism and passes inevitably through the stages of growth decline,and modification through which organism pass.Words are not the immutable symbols of fixed ideas; they change in sound and meaning,and die,as other things do.This naturally takes him on the study of Phonetics,Semantic s, Degeneration of meaning, Theory of loan words,Race mixture and Linguis tic growth, Fossils,F olk Etymology,and other cognate subjects. Sketchy as most of these notes are, they reveal insight into linguistic processes. The second is the famous discovery of philology that a language,like other aspects of civilisation,bears only too palapably the impact of its natural and social sorroundings.” 14*
پروفیسر صادق اپنی ایک اور کتاب میں مذکورہ تصنیف کے بارے رقمطراز ہیں :
’’ سخندان فارس جس میں آزاد نے وسطِ ایشیا کے مشاہدات قلمبند کئے ہیں۔گزشتہ صدی کی چند جاندار کتابوں میں سے ایک ہے ۔’’ ۱۵
سیدہ جعفر بھی اس کتاب کے بارے میں لکھتی ہیں کہ:۔
’’اس کتاب کی اہمیت یہ ہے کہ اس میں پہلی بار آزاد نے زبان کو ایک نامیاتی حقیقت کے طور پر پیش کیا ہے ۔جو گرد و پیش کے حالات سے بدلتی اور نئے روپ دھارتی رہتی ہے اور بتایا ہے کہ زبان پر ماحول کے اثرات برابر رونما ہوتے رہتے ہیں ۔ آزادؔ نے اس کتاب میں مقفیٰ اورمسجع عبارت آرائی پر سخت تنقید کی ہے ۔’’ ۱۶
نگارستانِ فارس:۔
نگارستانِ فارس ایران اور ہندوستان کے فارسی شعراء کا ایک مختصر تذکرہ ہے ۔جس میں رودکی سے لے کر نورالعین واقف بٹالوی تک ۳۶ شعراء کے حالات و واقعات مع نمونۂ کلام کے ساتھ ساتھ ان کے لطیفے بھی درج ہیں۔ حاشئے پر ان کتابوں کے نام بھی درج ہیں جن سے ان شعراء کے حالات و واقعات اخذ کئے گئے ہیں ۔اس کتاب میں صاف و سادہ زبان کا استعمال کیا گیا ہے ۔مگر آب حیات کی سی شان اس میں نہیں ہے ۔ شاید اسی لیے اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ یہ آزادؔکے ابتدائی دور کی تصنیف ہے یا نظر ثانی سے محروم رہ گئی ہے ۔اگر ہم یہ کہیں کہ یہ کتاب سخندان فارس کی توسیع شدہ شکل ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ آغا محمد طاہربھی اس کتاب کے دیباچے میں اسی بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:۔
’’یہ حضرت آزادؔ کا ہی جگر اور حوصلہ تھا کہ سفر کی مصیبتیں اور تکلیفیں جھیل کر فارسی کی سرزمین میں پہنچے۔ وہاں کے دستور اور موبدوں سے ملے۔ ژند، پاژند، درّی، پہلوی۔ سُغدی، زابلی، کابلی فارسی زبانوں کی الگ الگ چھان پھٹک کی۔ ایرانی، تورانی قوموں کے میلے ٹھیلے دیکھے ۔ان کی شادی غمی کی مجلسوں میں شریک ہوئے اور سخندان فارس کا ایسا تحفہ بنا یا کہ دانایانِ فرنگ نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیااور اپنے وطن کو لے گئے ۔اس سے بہت پہلے دوسرا حصہ بھی تیار کرلیا تھااور نگارستان فارس اس کا نام رکھا ۔اس تذکرہ میں رودکیؔ شاعر سے لے کر واقفؔ تک شعرائے فارسی زبان کے احوال قلم بند کئے ۔’’ ۱۷
نگارستان فارس ،آزاد کی وفات کے بعد ۱۹۲۲ء میں آغا محمد طاہر نے شائع کرائی۔اس کا قلمی نسخہ آغا محمد طاہر کو مختلف بستوں سے ملا۔جس میں بہت ساری خامیاں بھی رہ گئی ہیں جس کے بارے میں عتیق اﷲ بھی تحریر کرتے ہیں ۔ ‘‘نگارستان فارس’ اصلاََ فارسی شعراکا ایک تذکرہ ہے ۔ جس میں ان کمیو ں اور خامیوں نے بھی بار پا لیا ہے ۔ جو اکثر تذکرہ نگاروں کے ساتھ منسوب کی جاتی ہے ۔آب حیات ایک تذکرے کی حیثیت سے ‘نگارستان فارس ’سے کئی درجہ بہتر ہے ۔نگارستان فارس میں شعرالعجم کی طرح فارسی شاعری کی تاریخ بیان نہیں کی گئی ہے بلکہ تاریخ وار چند منتخب اور قابل ذکر شعرا ہی کو مطمح نظر رکھا گیا ہے ۔آغا محمد طاہرکو کافی تلاش و جستجو کے بعد جو قلمی مسودہ مختلف بستوں میں سے ملا وہ بھی جگہ جگہ سے مخدوش اور غیر مربوط تھا وہ لکھتے ہیں کہ بعض شعرا کے انتخابِ کلام بھی نہ مل سکے ۔کیا جانے حالات جذب میں کہاں سے کہاں باندھ دئے دو تین جلیل القدر شاعر بھی رہ گئے مثلاََ عمر خیام ،ابن یمین وغیرہ ۔لیکن ان تمام باتوں کے باوجودبھی اس قدر شعرا کسی اردو کے تذکرے میں نہ ملیں گے ۔ ’’ ۱۸
نظم آزاد:
‘نظم آزاد’ ان کے شعری کلام کا مجموعہ ہے ۔نیچرل شاعری کے موجدمحمد حسین آزاد فطری شاعر تھے اور ازل سے شاعرانہ طبیعت لائے تھے ۔ آپ نے ہی جدید شاعری کی داغ بیل ڈالی اور اردو شاعری کو گل و بلبل اور حسن و عاشقی کے چکر سے نکالنے میں بڑا اہم رول ادا کیا اور موضوعاتی نظم نگاری کا آغاز کیا۔انھوں نے جدید رنگ میں متعدد چھوٹی چھوٹی مثنویاں اور نظمیں تحریر کیں۔ کرنل ہالرائیڈ کے ایماء پر آزادؔ نے ایک ادبی انجمن ‘انجمن پنجاب ’کے نام سے لاہور میں قائم کی ۔یہاں انھوں نے مختلف لیکچر پیش کئے اور جدید رنگ کی موضوعاتی نظمیں اور مثنویاں بھی پڑھیں، سب سے پہلے انھوں نے مثنوی‘شب قدر’ پڑھی۔ آپ کے بیٹے مولوی محمد ابراہیم نے ۱۸۹۹ء میں آزادؔ کا مجموعہ کلام ‘نظم آزاد’ کے نام سے شائع کیا۔عبدالقادر سروری لکھتے ہیں کہ:
‘‘آزادؔ کا رتبہ اردو شاعری میں وہی ہے جو اسکاٹ کا انگریزی شاعری میں ہے۔ کسی نئے خیال کے پیدا کرنے والے اور کسی نئی تحریک کے بانی کو دنیا جس وقعت کی نظروں سے دیکھ سکتی ہے ۔آزادؔ بھی اس کے پوری طرح مستحق ہیں۔انھوں نے ہی قدیم شاعری کی اصلاح کا سب سے پہلے بیڑا اٹھایا اور انھوں نے ہی جدید تصور کو سینچا ۔آزاد ہی کی بدولت لوگ نیچرل شاعری کے مفہوم سے آشنا ہوئے ۔۔۔۔۔۔۔۔جہاں کی ہر چیز اپنی دلکشی اور رعنائی کے لئے صرف دستِ قدرت کی مرہون ہے ۔اس میں صبح اور شام کے سمے، پرندوں کی چہک، پھولوں کی مہک، آبشاروں کا شور، سبزہ زاروں کی دلکشی اور کہساروں کی بے ترتیبی غرض حسن فطرت کی بو قلمونیوں کا پورا نقشہ موجود ہے ۔ ’’ ۱۹
آزادؔ اپنی شاعری کو ذریعہ اصلاح نہیں بناتے پند و نصائح سے گریز کرتے ہیں اسی وجہ سے ان کا کلام خشک اور پھیکا نہیں ہونے پاتا۔جو موضوع ان کو پسند آجاتا ہے اس پر طبع آزمائی کرکے بطور نمونہ پیش کرتے ہیں۔ ان کی یادگار کئی ایک مثنویاں ہیں۔مثلاََ شب قدر۔صبح امید، گنج قناعت، دادِ انصاف، وداع انصاف، خواب ِامن اور نظموں میں مبارک باد جشن جوبلی، الوالعزمی کے لیے کوئی سدراہ نہیں، سلام علیک، معرفت الٰہی، محنت کرو، نوطرز مرصع وغیرہ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ آزادؔ نے اپنے ایک لیکچر میں اپنے ہم وطنوں کو ‘فصاحت’ کی اصطلاح سے صحیح معنوں میں روشناس کراتے ہوئے ان کو انگریزی ادب خصوصاََ نظم سے استفادہ کر کے اپنے اردو ادب خصوصاََ اردو نظم کو مالامال کرانے کیلئے آمادہ کر رہا ہے ۔اور ان کو اس بات کیلئے بھی آمادہ کرتا ہے کہ اردو نظم نے ہمارے بزرگوں سے لمبے لمبے خلعت اور بھاری بھاری زیورات میراث پائے ہیں مگر کیا کرے اب یہ خلعت پرانے ہوگئے ہیں اور ان زیورات کو وقت نے بے رواج کردیا ہے ۔ اسی لیے اب ہمیں اُن کی تقلید کرنے کی بجائے ایک نیا راستہ اختیار کرنا چاہئے جس کےلیے اب ہمیں انگریزی ادب کی طرف بھی متوجہ ہونا چاہئے ۔کیونکہ ہیرے جواہرات سے ہم اپنے ادب کو آراستہ کر سکتے ہیں وہ انگریزی صندوقوں میں قید ہیں۔ آزادؔ اپنے اس لیکچر میں اپنے ہم وطنوں سے مخاطب ہو کر کچھ اس طرح فرماتے ہیں۔:
‘‘اے گلشن فصاحت کے باغبا نو! فصاحت اسے نہیں کہتے کہ مبالغے اور بلند پروازی کے بازؤں سے اڑے ،قافیوں کے پروں سے فرفر کرتے گئے ۔لفاظی اور شوکت الفاظ کے زورسے آسمان پر چڑھتے گئے اور استعاروں کی تہہ میں ڈوب کر غائب ہو گئے ۔ فصاحت کے معنی یہ ہیں کہ خوشی یا غم ،کسی شئے پر رغبت یا اس سے نفرت ،کسی شئے سے خوف یا خطر ،یا کسی پر قہر یا غضب، غرض جو خیال ہمارے دل میں ہو،اُس کے بیان سے وہی اثر ،وہی جذبہ، وہی جوش سننے والوں کے دلوں پر چھا جائے ۔ جو اصل کے مشاہدہ سے ہوتا ہے ۔۔۔۔۔اے میرے اہلِ وطن ! ۔۔۔تمہارے بزرگ اور تم ہمیشہ نئے مضامین اور نئے انداز کے موّجد رہے مگر نئے انداز کے خلعت اور زیور جو آج کے مناسب حال ہیں ۔وہ انگریزی صندوقوں میں بند ہیں کہ ہمارے پہلو میں دھرے ہیں اور ہمیں خبر نہیں۔ ہاں صندوقوں کی کنجی ہمارے ہم وطن انگریزی دانوں کے پاس ہے ۔’’ ۲۰
محمد حسین آزاد ؔ نے اور بھی کئی دیگر تصانیف تحریر کئے ہیں جیسے ‘نصیحت کا کرن پھول’ایک مکالمہ ہے نصائح کے پیرائے میں بچیوں اور عورتوں کیلئے نہایت آسان اردو میں لکھا ہے ۔ جس میں انھوں نے یہ دکھایا ہے کہ کس طرح ایک شریف سوداگر اور اس کی بیوی نے اپنی بیٹی کو علم و ہنر کے زیور سے آراستہ کیا۔ ‘سیر ایران’ میں انھوں نے اپنے ایران کے سفر کے کچھ حالات وواقعات بیان کئے ہیں۔‘قند پارسی’ جدید فارسی کی سب سے پہلی کتاب ہے اور فارسی سیکھنے کا ایک اہم اور مفید رسالہ ہے ۔‘ مکتوبات آزاد’ آزاد کے کچھ خطوط کا مجموعہ ہے جن سے آزادؔ کی نجی زندگی کے کچھ اہم پہلوؤں پر روشنی پڑتی ہے ۔ تذکرۂ سنین اسلام (حصہ اوّل)،تذکرۂ علماء جو کہ ہندوستان کے چالیس مشاہیر علماء کا تذکرہ ہے ۔ ‘سپاک و نماک’ غیر مربوط متصوفانہ خیالات کا مجموعہ ہے اور جانورستان میں کچھ جانوروں کے حالات اور ان کی آوازوں کا بیان ہے جو کہ دو حصوں پر مشتمل ہے پہلے حصے میں اڑنے والے جانوروں اور دوسرے حصے میں چلنے پھرنے والے جانوروں کا ذکر ہے ۔مؤخرالذکر دونوں تصانیف اس زمانے کی ہیں جب مولانا مجذوبیت کی ادبی زندگی گزار رہے تھے ۔فلسفۂ الٰہیات بھی اسی دور کی تصنیف ہے۔ اس سے مولانا کے تصنیف و تالیف کے ذوق و شوق کا پتہ چلتا ہے کہ اس حالت میں بھی آپ تصنیف و تالیف سے باز نہ آتے تھے۔ اس کے علاوہ محمد حسین آزادؔ نے درس و تدریس کے حوالے سے اردو اور فارسی ریڈریں اور ابتدائی رسائل بھی اسکولی طلباء کیلئے لکھے تھے ۔ان سب کی عبارت نہایت سلیس اور عام فہم تھی ۔فی الحقیقت طلباء کے واسطے وہ بہت ہی مفید تھیں اور کچھ عرصہ تک وہ نصاب میں بھی شامل رہی تھیں۔ آزادؔ کی شخصیت بڑی پہلودار ہے ۔اگرچہ اردو ادب میں ان کی شخصیت کی پہچان ایک انشاء پرداز کی حیثیت سے ہے لیکن آپ اردو کے اولین محقق، ادبی مورخ، نقاد، لسانی مفکر، ماہرِ تعلیم اور جدید اردو شاعری کے معمار بھی ہیں۔ان کی شخصیت کے یہ تمام پہلو بہت ہی اہم ہیں لیکن انشاء پردازی ان سب پر غالب آگئی ہے ۔آزادؔ اردو کے صاحبِ طرز انشاء پرداز ہیں ان کا اسلوب اور زبان اردو ادب میں منفرد اہمیت کا حامل ہے ۔آزاد ؔنے جس دور میں آنکھ کھولی وہ اردو نثر کا پر تکلف دور تھا۔میر امن کی باغ و بہار وجود میں آچکی تھی لیکن ارباب علم ظہوریؔ اور بیدلؔ کی اتباع پر فخر کرتے تھے ۔آزاد اس رجحان سے متاثر ہوئے اور دوسری طرف انھوں نے دلی اردو اخبار کی سادگی اور دلّی کالج کی سلیس نثر سے بھی استفادہ کیا۔آزاد ؔ نے ان دونوں کے امتزاج سے ایک نئی راہ نکالنے کی کوشش کی۔ آزاد ؔ کا اسلوب اور شخصیت دونوں ایک دوسرے سے اس طرح پیوست ہیں کہ انھیں الگ نہیں کیا جا سکتا۔ان کی شخصیت میں نرمی ،دھیما پن اور وقار تھاان کے اسلوب کی سب سے نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ اس میں ان کی شخصیت کا مکمل اور بھرپور اظہارملتا ہے۔ آزادؔ کا ذخیرۂ الفاظ بھی کافی وسیع تھاجس میں اردو ادب کا کوئی بھی انشاء پرداز ان کے مقابلے میں کھڑا نہیں ہو سکتا۔آزادؔ کی زبان میں کلاسیکی رچاؤ اور تہذیبی شعور تھا۔لسانی مفکر ہونے کی وجہ سے موصوف کو اردو زبان کے ارتقاء کا صحیح اندازہ تھاوہ اردو کو اس کے سرچشمے سے دور نہیں کرنا چاہتے تھے۔ اس بناء پر انھوں نے بڑی پاکیزہ اور خوبصورت زبان کااستعمال کیا ہے۔ اردو ادب آزادؔ کے لفظوں کے باغات سے ہمیشہ مہکتا رہے گا۔
کتابیات:-
۱ ۔ آغامحمد باقر،تاریخ نظم و نثر اردو،شیخ مبارک علی صاحب تاجر کتب۔لاہور ، ۱۹۳۳ء ص ۲۸۶
۲۔ عتیق اﷲ ،مونو گراف محمد حسین آزاد،اردو اکادمی دہلی، ۲۰۱۲ء ، ص ۳۵
۳۔ رام بابو سکسینہ،تاریخِ ادب اردو،عفیف آفسیٹ پرنٹرس،دہلی، ۲۰۰۹ء ص ۴۱
۴۔ رام بابو سکسینہ،تاریخِ ادب اردو،عفیف آفسیٹ پرنٹرس،دہلی، ۲۰۰۹ء ص ۴۲
۵۔ ڈاکٹر محمد صادق ، محمد حسین آزاد ،احوال و آثار، مجلس ترقی ادب لاہور ،۱۹۷۶ء ، ص ۷۰
۶۔ کلیم الدین احمد،اردو تنقید پر ایک نظر،پٹنہ لیتھو پریس ،پٹنہ ، ۱۹۸۳ء ص۷۰
7. Sir Abdul Qadir, Famous urdu poets, new book society,Lahore,1947 ,p151
۸۔ سیدہ جعفر،تاریخ ادب اردو، جلد دوّم ،وی۔ جے ۔پرنٹرس حیدر آباد ، ۲۰۰۲ء ،ص ۲۰۹ ۹۔ آغا محمد طاہر، دیوانِ ذوقؔ،آزاد بک ڈپو، لاہور ۱۹۲۲ء ،بیک کور
۱۰۔ عتیق اﷲ ،مونو گراف محمد حسین آزاد،اردو اکادمی دہلی، ۲۰۱۲ء ، ص ۷۹
۱۱۔ سیدہ جعفر،تاریخ ادب اردو، جلد دوّم ،وی۔ جے ۔پرنٹرس حیدر آباد ، ۲۰۰۲ء ، ص۲۰۹ ۱۲۔ محمد حسین آزاد،نیرنگ خیال، لبرٹی آرٹ پریس ،دہلی ، ۱۹۷۰ء ،ص ۱۱۵
13. Sir Abdul Qadir, Famous urdu poets, new book society,Lahore,1947 ,p151
14.Mohammad Sadiq,Muhammad Husain Azad,his life and works,mahmud printing press,lahore,1974,p29
۱۵۔ ڈاکٹر محمد صادق ، محمد حسین آزاد ،احوال و آثار، مجلس ترقی ادب لاہور ،۱۹۷۶ء ، ص ۲ ۴
۱۶۔ سیدہ جعفر،تاریخ ادب اردو، جلد دوّم ،وی۔ جے ۔پرنٹرس حیدر آباد ، ۲۰۰۲ء ، ص۲۰۸
۱۷۔ محمد حسین آزاد،نگارستان فارس،جے ۔آر۔ پرنٹرس سوئیوالان دہلی ، ۱۹۹۲ء ،ص ۴۔۳
۱۸۔ عتیق اﷲ ،مونو گراف محمد حسین آزاد،اردو اکادمی دہلی، ۲۰۱۲ء ، ص ۴۵
۱۹۔ عبدلالقادر سروری،جدید اردو شاعری ،مطبوعہ کھنہ لیتھو پریس دہلی ، ۱۹۴۵ء ،ص ۱۰۲۔۱۰۱
۲۰۔ محمد حسین آزاد،نظم آزاد،عالمگیر پریس۔لاہور،بار نہم، ۱۹۴۴ء ، ص ۲۵۔۲۴