کولمبئین تبادلہ (Columbian Exchange) یا عظیم تبادلہ دراصل بہت بڑے پیمانے پر انسانی آبادی، جانوروں، پودوں، ثقافت، ٹیکنالوجی اور خیالات کی منتقلی کو کہا جاتا ہے جو نئی دنیا امریکہ کی دریافت کرنے کے بعد ایفرو ۔ایشین نصف کرہ زمین کے درمیان دو طرفہ وقوع پذیر ہوا۔ اسکا تعلق یورپی نوآبادیات اور تجارت (اسمیں افریقہ سے غلاموں کی تجارت )سے بھی منسلک ہے جو پندرھویں اور سولھویں صدی میں کرسٹوفر کولمبس کے "ہندوستان" کی مبینہ دریافت کے اس سفر کے بعد شروع ہوا جو اس نے 1492ع میں کیا تھا۔ حالانکہ یہی تبادلہ غیر ارادی طور پر ان چھوت کی بیماریوں ( communicable diseases ) کو پھیلانے کا باعث بھی بن گیا جو پرانی دنیا سے نئی دنیا منتقل ہوگئی تھیں اور اس تبادلہ کی ضمنی حاصل ( byproduct) کے طور پر سامنے آئیں۔
ان دونوں خطوں کے درمیان رابطہ بہت ساری کشادہ اقسام کی نئی فصلوں اور مویشیوں کی گردش کا باعث بھی بن گیا جو دونوں نصف کرہ کی انسانی آبادی میں اضافہ کا سبب تھا، لیکن ان چھوت کی بیماریوں کی وجہ سے امریکہ کے ان قدیم انسانی آبادیوں، جنکو ریڈ انڈین کہا جاتا تھا، میں سرعت سے کمی کا باعث بھی بنا۔ تاجر جو امریکہ سے یورپ مکئی، آلو اور ٹماٹر لے آئے تھے، انکی اٹھارہویں صدی میں پہلے یورپ پھر ساری دنیا میں بہت کثرت سے طلب ہونے لگی اور یہ تمام نہایت اہم فصلوں میں شمار ہونے لگی۔ اسی طرح یورپین تاجروں اور کاشتکاروں نے manioc(مینوایک ۔ کساوا کی سوجی ۔ پتیوکا ۔ سدا بہار جھاڑی ۔ پتے مرکب اور متبادل ترتیب رکھتے ہیں ۔ اس کی جھلیاں نشاستہ سے لبریز گودا رکھتی ہیں ) اور مونگ پھلی کی فصلوں کو گرم مرطوب ایشیا (Tropical Asia) اور مغربی افریقہ میں کاشت کی،جہاں یہ نشونما پائیں اور پیداوار شروع کی، حالانکہ کسی اور خطے میں انکی پیداوار مشکل سے اور کم ہوتی ہے۔
کولمبین تبادلہ کو اس ٹرم سے یاد کرنے کا سہرا ایک امریکی تاریخ دان الفریڈ ڈبلیو کراسبائی (Alfred W. Crosby) کے سر جاتا ہے جس نے اپنی کتاب "ماحولیاتی تاریخ Environmental Historyمیں سب سے پہلے اسکو وضع کیا تھا۔ یہ کتاب 1972 میں پہلی دفعہ چھپی تھی۔ تب سے لیکر اب تک اس ٹرم کو بہت سے دوسرے تاریخ دان اور صحافی بکثرت اپنی کتب اور رسائل وغیرہ میں استعمال کرنے لگے۔ اس کتاب میں الفریڈ نے کولمبس کی نئی دنیا پر آمد کا ماحولیاتی اثر کا جائزہ لیا تھااور اسکے اثرات کو احاطہ میں لیا تھا۔ پھر اسی کی وضع کردہ ٹرم کو چند دوسرے مصنفین جیسے چارلس سی مین Charles C Mannنے اپنی کتاب 1493 میں اپنا کر قبولیت عام بخشی، جسمیں چارلس نے الفریڈ ہی کے کام کی تجدید کی تھی۔
فصلوں پر اثرات:
سن 1500 ADسے پہلے آلو جنوبی امریکہ سے باہر نہیں اگایا جاتا تھا۔ 1840 ع کے عرصے تک، آئرلینڈ (Ireland) آلوؤں کی کاشت پر اتنا منحصر ہوچکا تھا کہ 1845 تا 1852 تک کے عرصے میں پڑنے والے عظیم قحط جو آئر لینڈ اور چند اور یورپی ممالک میں پھیل گیا تھا، اسکا قریب ترین سبب آلوؤں میں پیدا ہونے والی ایک بیماری تھی، جسکی وجہ سے پورے آئر لینڈ میں اسکی فصلیں تباہ ہوگئی تھیں۔ مکئی اور manioc جو پرتگالی تاجروں نے جنوبی امریکہ سے سولھویں صدی میں افریقہ میں متعارف کروایا تھا، اس نے سرغو (Sorghum)۔ برو ، بروا ، جنگلی جوار ایک اناجی پودا جِسے چارے ، غلے اور رس کے لیے کاشت کرتے ہیں اور باجرہ (millet) جو افریقہ میں کثرت سے کاشت ہوتی تھی، اس کو مکمل طور پر تبدیل کردیا تھا۔
ٹماٹر جو بذریعہ اسپین کے یورپ میں آئے، سب سے پہلے انکو صرف زیبائشی طور پر کھانوں میں استعمال کیا جاتا تھا۔ انیسویں صدی سے ٹماٹر کی چٹنی (کیچپ) Neapolitan(نیپلس۔ اٹلی کے باشندے سے متعلق یا اس کی خصو یت کا حامل) کچن بالخصوص اطالوی کھانوں کا لازمی جزو بن گئی تھی۔جنوبی امریکہ سے کافی اور اسپینی غرب الہند جزائر سے گنا (جو جنوبی ایشیا سے امریکا متعارف کروایا گیا تھا) لاطینی امریکا کی بڑے پیمانے کی فصلوں کی برآمد کا باعث بن گئے۔ لال ثابت مرچ ( chili) اور آلو جو پرتگالیوں نے جنوبی امریکہ سے ہندوستان میں متعارف کروائے تھے، ہندوستانی کھانوں کا تب سے جزو لاینفک بن گئے۔
کولمبئین تبادلہ سے پہلے فلوریڈا ، یو ایس اے میں کوئی نارنگی یا سنگترہ نہیں پایا تھا، ایکواڈور میں کوئی کیلا نہیں ہوتا تھا، ہنگری ، یورپ میں کوئی کالی سیاہ مرچ (Paprika, peeper ) نہیں پائی جاتی تھی۔ آئرلینڈ میں کوئی آلو نہیں پایا جاتا تھا۔ کولمبیا میں کافی نہیں پائی جاتی تھی۔ھوائی میں کوئی انناس نہیں پائے جاتے تھے۔ افریقہ میں کوئی ربڑ کے درخت نہں پائے جاتے تھے، تھائی لینڈ میں کوئی سیاہ لال مرچ نہیں پائی جاتی تھی اور سوئٹز لینڈ میں کوئی چاکلیٹ نہیں پائی جاتی تھی۔
مویشی:
ابتدائی طور پر کولمبئین تبادلے میں جانوروں کا تبادلہ صرف ایک ہی راستے پر ہوتا تھا، جو کہ یورپ سے نئی دنیا کی طرف تھا، کیونکہ یوریشین (یورپ اور ایشیا) کے ممالک میں بہت سارے جانوروں کی پالتو کرلیا گیا تھا۔ گھوڑے، گدھے، خچر، گائے بھینس ، بھیڑ، بکری، مرغی، بڑےرکھوالی کے کتے، بلی اور شہد کی مکھیوں کو یوریشین ممالک کے لوگ آمد ورفت اور دیگر مقاصد کے لئے کثرت سے استعمال کیا کرتے تھے۔ گھوڑا جو سے سے پہلی امریکہ میں یورپی برآمد تھی، اس نے بہت سے امریکہ کے قدیم باشندوں کے قبیلوں کی زندگیوں پر اثر ڈالا، جو پہاڑوں میں رہا کرتے تھے۔ وہ خانہ بدوشی کی زندگی پر منتقل ہوگئے تھے ، جو ارنا بھینسے (bison) کے گھڑسوار شکار ی لوگ ہوا کرتے تھے جو زرعاتی زندگی کے برعکس ہے اور وسطی امریکہ کے عظیم چٹیل میدانی علاقے میں یہ لوگ پھر منتقل ہوگئے تھے۔ اب موجودہ میدانی علاقوں کے قبیلوں کوقلمرو اور عملداری بڑھانے کے لئے گھوڑوں کا استعمال کرنا پڑا اور جانور ان کے لئے اتنے قیمتی بن گئے کہ جس قبیلے کے پاس سب سے زیادہ گھوڑوں کا ریوڑ ہوتا تھا وہ اتنا ہی دولتمند اور طاقتور مانا جاتا تھا۔
بیماریاں:
نئی دنیا کی دریافت ، کونین (quinine۔ ایک ایسی ادویہ جو بخار کم کرنے اور درد کم کرنے کے لئے کام آتی ہے اور جسکو ملیریا کی روک تھام اور اسکے لئے پہلا موثر علاج مانا جاتا تھا)نے یورپی اقوام کی گرم مرطوب خطوں کی چھان بین ، تحقیق و جستجو بہت مدد دی۔ یورپی اقوام ملیریا میں مبتلا رہتی تھیں، لیکن قدیمی امریکن باشندوں میں کسی حد تک اس بیماری کے خلاف مزاحمت پیدا ہوگئی تھی۔ افریقہ میں ملیزیا کے خلاف مزاحمت کا تعلق دوسرے جینیاتی اثرات کی تبدیلی سے جڑا ہوا تھا جیسے داسی خلیاتی بھس (Sickle-cell Anaemia) کی بیماری جو سب صحارا افریقیوں کی نسلوںمیں منتقل ہوتی ہے۔
دونوں نصف کروں کے درمیان باقاعدہ رابطوں سے پہلے، پالتو جانوروں کی اقسام اور چھوت کی بیماریوں جو انسانوں میں منتقل ہوتی ہیں ، جیسے خسرہ وغیرہ، اسکی منتقلی نئی دنیا میں پرانی دنیا سے کئی گنا زیادہ تھی۔ بہت سی ایسی بیماریاں جو یوریشیا سے مغرب کی جانب لوگوں اور جانوروں کے ذریعے منتقل ہوئی یا ایشیا ئی تاجروں کے ذریعے وہاں منتقل ہوئیں۔ اسی طرح کچھ بیماریاں جو صرف نئی دنیا کے خطے سے منسلک تھیں، انکی منتقلی بھی اسی ذریعے سے یوریشیا اور افریقہ کےممالک میں ہوئی، اسطرح دونوں خطوں کے لوگ ان بیماریوں سے متاثر ہوئے۔ ان چھوت کی بیماریوں کے خلاف یوریشائی ممالک میں مقامی اثرات کی وجہ سے انکے خلاف مزاحمت بڑھ گئی جو صدیوں سے ان بیماریوں کو جھیلتے آئے تھے۔
لیکن جہاں تک تقابلے کی بات کی جائے، پرانی دنیا (یوریشیا اور افریقہ) کی بیماریوں نے نئی دنیا (امریکہ) کی انسانی آبادیوں پر زیادہ تباہ کن اثرات مرتب کئے جب غیر ارادی طور پر انکو یورپی آبادکار اپنے ساتھ وہاں لے کر آئے کیونکہ قدیم امریکی باشندوں میں ان بیماریوں کے خلاف کوئی قدرتی قوت مدافعت نہیں تھی۔ صرف خسرہ کی وبائی بیماری نے اتنے قدیم امریکی باشندے مار دئے جو انکے کسی بھی جنگی نقصان سے بھی کئی گنا زیادہ تھے۔ اور یورپ میں مجموعی طور پر "بلیک ڈیتھ Black Death(1346 تا 1356 تک پھیلنے والے ایک وبائی طاعون کا نام، جسمیں تقریبا 75 سے 200 ملین جانیں ضائع ہوئی تھیں) کا شکار ہونے والے لوگوں کی جانوں سے بھی کئی گنا زیادہ نقصان تھا۔ایک تخمینی اندازے کے مطابق 1492 جب سے امریکہ دریافت ہوا ، 100-150 سال کے عرصے میں 80 سے 95 فیصد کی قدیم امریکی آبادی ان وبائی امراض کا شکار ہوکر اموات کا شکار ہوئیں۔ کئی علاقوں میں تو یہ شرح 100٪ رہی تھی۔ یعنی ان مقامات پر 100٪ مقامی آبادی کا صفایا ہوگیا تھا۔
اسی طرح پیلا بخار (yellow fever) جسکی منتقلی ایک خیال کے مطابق افریقہ سے نئی دنیا ،اٹلانٹک غلام تجارت سے زریعے ہوئی۔ اسکے اثرات یورپی اقوام پر زیادہ پڑے، کیونکہ یہ افریقہ خطے کی ایک مقامی بیماری مانی جاتی تھی اور افریقہ کی عوام اسکے خلاف مزاحمت رکھتی تھیں۔ یورپی اقوام کی آبادی میں پیلے بخار کے ذریعے اموات کی زیادہ شرح دیکھنے میں آئی بنسبت افریقی باشندوں اور انکی نسلوں کے، کیونکہ وہ انکے خلاف بہت کم مزاحمت رکھتی تھیں۔ اسی طرح بہت سے وبائی امراض نے ان یورپی کالونیوں میں آبادی کا صفایا کرنا شروع کردیا جو 17ویں صدی سے شروع ہوکر 19 ویں صدی تک جاری رہا۔
Syphilis
( آتشی سوزاک )کی بیماری کی ابتدا کے بارے میں کافی صدیوں سے بحث جاری رہی۔ نئی جینیاتی شہادت کے بعداس نظرئیے کی تصدیق ہوتی ہے کہ کرسٹوفر کولمبس اس بیماری کے اثرات، نئی دنیا سے یورپی دنیا میں لے کر آیا تھا جو بعد میں ایشیا اور افریقہ میں بھی منتقل ہوگئے۔ جنیاتی تجزیہ کے مطابق Syphilisکی بیماری کا اگرخاندانی شجرہ نسب اگر دیکھا جائے تو اسکا سب سے قریبی رشتہ دار جنوبی امریکی بیماری yaws،جو ایک ایسے بیکٹیریا کے سبب ہوتی ہے جو سوزاک کی بیماری والے بیکٹریا کےایک زیلی خاندان سے تعلق رکھتا ہے، پایا جاتا ہے۔
پرانی دنیا میں ٹماٹر:
ٹماٹر کو یورپ میں قبولیت کا درجہ حاصل ہونے میں تین صدیاں لگ گئیں۔جتنی بھی نئی دنیا کے جو پودے جو اٹلی میں متعارف کروائے گئے، ان میں سے صرف آلوؤں کو ٹماٹر جتنا قبولیت عام حاصل ہونے کا عرصہ لگا۔ ٹماٹروں کو اتنا عرصہ کھانوں میں مقبول ہونے میں کیوں لگا، اسکا جواب یہ ہےکہ سولھویں صدی میں یورپی طبیب اس آبائی میکسیکن پھل کو زہریلا متصور کرتے تھے اور خیال کیا کرتے تھے کہ یہ انسانی جسم میں "اداسی ، قنوطیت یا متلون مزاجی" کے دورے پڑنے کا سبب بنتی ہے۔ 1544ع میں، پیٹرو اینڈریا میٹوئیلی (Pietro Andrea Mattioli) جو ایک ٹسکن (وسطی اطالیہ کا ایک پہاڑی علاقہ) طبیب اور ماہر نباتیات تھا، اس نے یہ مشورہ دیا کہ ٹماٹر کھائے جاسکتے ہیں، لیکن اسکا کوئی ریکارڈ نہیں ملتا کہ ٹماٹر اس وقت تک دسترخوان کا حصہ بنے تھے۔ اکتوبر 31، 1548 ع میں ٹماٹروں کو یورپ میں پہلی دفعہ ایک نام دیا گیا جب ٹسکن کے ایک نواب سمیو ڈی میڈیسی (Cosimo de’ Medici) کےایک گھریلو خانساماں نے میڈیسی کے ایک معتمدی (secretary) کو ایک نجی خط لکھا جسمیں اس نے "پومیڈورو (Pomidoro) کی ایک ٹوکری کے محفوظ طور پر پہنچنے " کا ذکر کیا تھا۔ اس وقت اس لیبل "پومی ڈورو " کو کھجور، خربوزے اور سنگترہ کے پھلوں کے لئے بھی سائنسدان اپنے مقالات میں استعمال کرتے تھے۔
ابتدائی طور پر، ٹماٹر کی کاشت صرف باغیچہ کو خوبصورت اور زیبائشی بنانے کے لئے کی جاتی تھی۔ مثلا فلورینس کی اشرافیہ میں سے ایک نواب گیووینٹووریو سوڈیرانی (Giovanvetrrorio Soderini) نے لکھا کہ "کسطرح وہ صرف انکی (ٹماٹروں) کی خوبصورتی سے متاثر ہوئے ہیں" اور انکو صرف پھولوں کی سیج کے ساتھ ہی کاشت کیاجاتاتھا۔ ٹماٹر صرف اعلیٰ طبقے کے شہری آبادی اور باغات میں اپنی یورپ آمد سے لیکر پچاس سال تک کاشت کیا جاتا رہا اور صرف کبھی کبھی ہی آرٹ کے کسی کام میں نظر آتا تھا۔ لیکن پھر 1592 ع میں آرینجز (Aranjuez) میڈرڈ ،اسپین کے نزدیک ایک نباتاتی باغ، جو اس وقت کے اسپین ، پرتگال اور اطالیہ کے کچھ حصوں کے بادشاہ فلپ دوئم کی سرپرستی میں تھا، کے ہیڈ مالی نے اپنے ایک خط میں لکھا کہ "ٹماٹر چٹنی بنانے کےلئے اچھے ہوتے ہیں"۔ اس واحد مثال کے علاوہ ٹماٹروں کو اس وقت تک زیبائشی مقاصد کے علاوہ باورچی خانے میں استعمال نہیں کیاجاتا تھا۔ پاستا کے ساتھ ٹماٹر کی چٹنی (ٹماٹو کیچپ) کا استعمال صرف انیسویں صدی کے آخر میں ہی ممکن ہوا۔ آج قریبا 32000 ایکڑز رقبے پر پھیلی زمین پر ٹماٹروں کی کاشت صرف اٹلی میں ہوتی ہے، حالانکہ یہاں پھر بھی کچھ ایسے علاقے ہیں جہاں ٹماٹروں کی کم ہی مقدار میں کاشت و کھپت ہوتی ہے۔
غیرارادی متعارف کروائی جانے والی اشیاء:
جو پودے زمین یا سمندر سے 1492ع سے پہلے نئی دنیا پہنچے انکو آرچیو فائٹ(Acrheophytes) کہاجاتا ہے اور جو اس سال کے بعد نئی دنیا سے یورپ منتقل ہوئے تھے انکو نیوفائٹ (Neophyte) کہاجاتا ہے۔ ان بیماریوں اور امراض کے علاوہ، جو اوپر بیان کی گئی تھیں، کئی جانداروں کی انواع دنیا کی دونوں طرف غیر ارادی یا حادثاتی طور پر منتقل ہوئیں۔ان انواع میں جیسے جانوروں میں بھورے چوہے، کیچوے (جو کولمبس سے پہلے کے امریکہ میں بظاہر نہیں تھے) اور زیبرائی ۔ام الخول (Zebra Mussel) ایک دو دالوہ صدفیہ شامل تھے، جو کولمبس اور اسکے بعد آنے والے یورپی آبادکاروں کے جہازوں سے لگ کر نئی دنیا پہنچا تھے۔
ایک حملہ آور نوع (جو کسی آبادی کے لحاظ سے مقامی نہ ہو اور اسمیں اس علاقے میں نشونما پانے کی صلاحیت ہو جسکی وجہ سے وہاں کا ماحولیاتی توازن بگڑ جائے اور انسانی آبادی کی صحت یا معیشت متاثر ہو) بھی حادثاتی طور پر دونوں خطوں میں متعارف ہوئیں، جسمیں گھانس پھونس جیسے ٹمبل ویڈ (Tumbleweeds ) جو ایک ایشیائی نوع کی جھاڑ جھنکار کے قبیلے سے تعلق رکھتی ہے اور وائلڈ اوٹ (Wild Oats) جسکا آبائی تعلق یوریشیا سے تھا، شامل ہیں۔ کچھ پودوں کو ارادی طور پر متعارف کروایا گیا جیسے کڈزو وائن (Kudzu vine) جو 1894ع میں جاپان سے یو ایس میں مٹی کی کاٹ پیٹ سے بچنے اور اسکی روک تھام کے لئے یہاں متعارف کروایا گیا ، لیکن یہ مقامی گھانس پھونس کی انواع کے لئے ایک حملہ آور آفت ثابت ہوا۔ فنجائی بھی منتقل ہوئیں جو پودوں کی ایک بیماری (Dutch elm disease) پھیلانے کا باعث بنیں جس نے American elm(شمالی امریکا اور یورپ میں پایا جانے والا ایک سایہ دار درخت از قسم دیودار جس سے قیمتی عمارتی لکڑی حاصل ہوتی ہے ) کا جنگلوں اور شہروں سے صفایا کرنا شروع کردیا، شہروں میں ایلم کے درخت کو زیادہ تر سڑکوں کے کنارے گرین بیلٹ کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔ کچھ حملہ آور انواع (جانور اور پودے دونوں) نے چاہے ارادی طور پر یا غیر ارادی طور پر ماحولیاتی توازن اور معیشت کو بری طرح متاثر کیا جب انکو نئی دنیا کے ماحول میں رچایا بسایا گیا ۔
ان میں کچھ انواع شائد غیر ارادی طور پر فائدہ مند بھی ثابت ہوئیں، جیسے ایک خمیر (yeast) کے خاندان سے تعلق رکھنے والی نوع Sachcharomyces eubayanus جو پیٹا گونیا (Patagonia) وسطی اور جنوبی امریکہ میں ارجنٹائن اور چلی جیسے ممالک سے اسکا تعلق تھا۔ یہ کافی مددگار ثابت ہوئی اور یوایس میں لیگر بئیر (Lager Beer) بنانے میں استعمال ہوتی ہے۔
ارادتا متعارف کروئے ہوئے وحشی حیوانی آبادی:
غیر مقامی ایسے وحشی جانور جو نئی اور پرانی دنیا دونوں میں یا تو جان بوجھ کر چھوڑے گئے یا وہ اپنے مقام سے فرار ہوگئے تھے، انہوں نے مقامی انواع کو اپنے ماحول سے ہٹا دیا۔جیسے بھوری گلہریوں اور ریکونز (Raccoons۔ خرسک ۔ پاٴوں کے بل چلنے والا گوشت خور میمل جانور ( نے برطانیہ اور جرمنی کے کچھ علاقوں، قفقاز اور جاپان کے علاقوں میں اپنی کالونیاں بنائیں۔ فر کے حصول کے لئے فر فارم کے لئے جو جانور پالے جاتے تھے، جن میں اودبلاؤ (Coypu/کوپُو ۔ جنوبی امریکا کا ایک میمل ۔ کُترنے والا جانور جو پانی اور خشکی پر رہتا ہے) اور American Mink آبی نیولا ۔ نیولے جیسا نیم آبی حیوان ۔ شمالی امریکہ میں پایا جاتا ہے۔ انکی پرانی دنیا ۤۤ(یوریشیا اور افریقہ) میں بہت دور دور تک پھیلی ہوئی آبادیاں ہیں۔
نئی دنیا میں یورپی جنگلی بلیوں، سورؤں، گھوڑوں اور مویشیوں کے آبادیاں اب بہت عام ملتی ہیں۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...