میں بھاگتا پھر رہا ہوں اور مجھ سے کوئی نہیں پوچھتا کہ کیا ہوا ہے؟
اس لئے کہ ہر کوئی بھاگتا پھر رہا ہے۔ میں انارکلی کی طرف دوڑتا ہوں کہ سعود عثمانی کا وہاں دفتر ہے لیکن ایک ہنگامہ ہے اور راستہ نہیں ملتا۔
ٹولنٹن مارکیٹ کے سامنے سے ہو کر میں یونیورسٹی میں داخل ہو جاتا ہوں، میرا رُخ اورینٹل کالج کی سمت ہے۔ فارسی کے شعبے میں معین نظامی کا کمرہ مجھے پناہ گاہ لگتا ہے، لیکن یہاں تو سب کمرے بند ہیں۔ اب میں نابھا روڈ کی طرف چل پڑتا ہوں، جمیل بھٹی ان دنوں اکاؤنٹنٹ جنرل لگا ہوا ہے اسکے پاس بیٹھوں گا لیکن قدم اٹھ ہی نہیں رہے۔ اس لئے کہ میرے اندر بھی عذر برپا ہے پھر ایک زوردار دھماکہ ہوتا ہے کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی یہ دھماکہ میرے اندر ہوا ہے۔ باہر بھی خون ہے، گوشت کے لوتھڑے ہیں، دست و بازو ہوا میں اُڑ رہے ہیں، سب دوڑ رہے ہیں سب چیخ رہے ہیں۔ میرے اندر بھی خون کی ندیاں بہہ رہی ہیں، گوشت کے ٹکڑے اُڑ رہے ہیں، ہاتھ اور بازو کٹ کٹ کر گر رہے ہیں جسم ہوا میں اُچھل رہے ہیں۔ میرے اندر بھی چیخیں ہیں، بھاگنے کی آوازیں ہیں۔میں جس کے پاس بھی جاتا ہوں، میری بات کوئی نہیں سنتا۔ میں پیاسا ہوں لیکن مجھے دودھ دیتے ہیں تو اس میں مینگنیاں ڈال دیتے ہیں، پانی دیتے ہیں تو صرف تنکا نہیں، کیڑے مکوڑے نظر آتے ہیں۔ میں بھوک سے نڈھال ہو کر گر پڑتا ہوں، لوگ آتے ہیں عبائیں اوڑھے، عمامے باندھے، عصا دردست، مجھے بخشش میں کھانا عنایت کرتے ہیں لیکن میں دستر خوان کھولتا ہوں تو روٹیوں کی جگہ ہڈیاں ہیں اور پنیر کے بجائے جما ہوا خون نظر آتا ہے۔
شور، ہنگامہ، چیخیں، خون، گوشت، ہڈیاں، لاشے، ماتم، نوحے باہر بھی اور میرے اندر بھی۔ داتا دربار سے انارکلی تک ٹولنٹن مارکیٹ سے نابھا روڈ تک، اورینٹل کالج سے چیف منسٹر ہاؤس تک، ہاں چیف منسٹر ہاؤس تک کہ وہاں بھی دودھ ہے لیکن مینگنیاں ہیں، پانی ہے لیکن اس میں کیڑے ہیں، روٹی ہے لیکن ہڈیوں سے پکائی ہوئی، پنیر ہے لیکن منجمد انسانی خون کی شکل میں۔ اندر بھی یہی کچھ ہے، دل سے لے کر رُوح تک، رُوح سے لے کر جان تک، دماغ سے لے کر کلیجے تک، ہر طرف ہُوک ہے اور کسک، کرب ہے اور شکست و ریخت۔ میں آنکھ بند کرتا ہوں تو مجھے اپنا کلیجہ اور دل اور دماغ اور جان اور سب کچھ ہوا میں اڑتا نظر آتا ہے! میں پبلک لائبریری میں داخل ہو جاتا ہوں اور فارسی شاعری کے گوشے میں دبک کر بیٹھ جاتا ہوں۔ سفید پوشاک میں ملبوس ایک سایہ نمودار ہوتا ہے۔ میرے کاندھے پر ہاتھ دھرتا ہے سبک، نرم ہاتھ، لمس اندر تک سرایت کر جاتا ہے پھر وہ میری گود میں کوئی شے رکھتا ہے اور ہوا میں اُسی نرماہٹ سے تحلیل ہو جاتا ہے جس طرح نمودار ہوا تھا۔ دیکھتا ہوں تو یہ دیوانِ حافظ ہے میں سمجھ جاتا ہوں کہ فال نکالنے کا حکم ہے۔ فال نکالتا ہوں تو سامنے یہ اشعار آ جاتے ہیں…؎
مشکلِ خویش برِ پیرِمغاں بردم دوش
کو بتائیدِ نظر حلِ معما می کرد
میں اپنی مشکل کل پیرِ مغاں کے پاس لے گیا اس لئے کہ وہ بصیرت کے ساتھ مشکلات حل کرتا تھا۔
دید مش خرم وخنداںِ، قدحِ بادہ بہ دست
واندر آن آئنہ صد گو نہ تماشا می کرد
میں نے دیکھا کہ وہ خوش و خرم، ہاتھ میں جاِم شراب لئے تھا اور اس آئینے میں سو طرح کے مناظر دیکھ رہا تھا…؎
گفتم این جامِ جہان بین بہ تو کی داد حکیم
گفت آن روز کہ این گنبدِ مینا می کرد
میں نے پوچھا کہ اے مردِ دانا! قسّامِ ازل نے یہ پیالہ جس میں دنیا نظر آتی ہے، تجھے کب عطا کیا؟ کہنے لگا اس روز جب وہ اس لاجوردی رنگ کے آسمانی گنبد کو بنا رہا تھا!
میں اشارہ سمجھ گیا، لائبریری سے نکلا اور پیر مغاں کا پتہ پوچھا جس سے بھی پوچھتا تھا ایک ہی بات بتاتا تھا کہ اس شہر میں ایک ہی پیرِ مغاں ہے، سید علی ہجویریؒ جسے داتا گنج بخشؒ کا عوامی لقب ملا ہوا ہے اور وہ استراحت میں ہے۔ گلیوں میں بہتے خون سے گزرتا اور لاشوں میں راستہ بناتا میں وہاں پہنچا جہاں پیرِ مغاں محوِ استراحت تھا۔ ایک سایہ پھر نمودار ہوا اور ایک اور کتاب میری گود میں رکھ کر غائب ہو گیا۔ دیکھا تو کشف المحجوب تھی۔ سید علی ہجویریؒ کی تصنیف کھولی تو اس میں سے سوال نکلے۔ سایہ پھر نمودار ہوا، وہی نرم ہاتھ، وہی خون میں اتر جانے والا لمس، ان سوالوں کا جواب حاصل کرو یہی کلید ہے۔
میں اب ان سوالوں کی پوٹلی سر پر اٹھائے پھر رہا ہوں، دھکے کھا رہا ہوں، جن لوگوں کے بارے میں معلوم ہوتا ہے کہ ان سوالوں کے جواب جانتے ہیں، انکے پاس جاتا ہوں تو وہ منہ دوسری طرف کر لیتے ہیں۔ میں گلی گلی پھر رہا ہوں، دروازے کھٹکھٹا رہا ہوں آوازے لگا رہا ہوں۔ کوئی ہے جو ان سوالوں کے جواب دے۔
1۔ جو حضرات دھماکہ ہونے کے بعد ایک گھنٹے کے اندر اندر اعلان کرتے ہیں کہ یہ دھماکے بلیک واٹر نے یا ’’را‘‘ نے کرائے ہیں انہیں پکڑا کیوں نہیں جاتا؟ آخر انہیں اطلاع کیسے ہو گئی؟ ان حضرات کا ان تنظیموں سے کیا تعلق ہے؟ اور کب سے ہے؟
2۔ پوری دنیا کو معلوم ہے کہ دھماکوں کے بعد بہت سے مظلوم پکڑے جاتے رہے ہیں۔ ان کا تعلق کن تنظیموں سے ہے؟
3۔ یہ تنظیمیں ایک خاص مکتبِ فکر سے وابستگی کا دعویٰ بھی کرتی ہیں اور اعلان بھی۔ اس مکتب فکر کے سرکردہ اصحاب ان ہلاکت آفریں تنظیموں سے لاتعلقی کا اعلان کیوں نہیں کرتے؟
4۔ دسمبر 2009ء میں کراچی کی ہلاکتوں کی ذمہ داری ایک تنظیم نے قبول کی اگر کچھ لوگوں کے بقول یہ کارروائی اس تنظیم کی نہیں تھی، تو تنظیم نے یہ اعلان کیوں نہیں کیا کہ ذمہ داری قبول کرنے والے کا ہم سے کوئی تعلق نہیں؟
5۔ کیا دھماکوں میں شہید ہونے والے لوگ ڈرون حملوں کے ذمہ دار ہیں؟ اگر نہیں تو ایک سیاسی مذہبی جماعت کے رہنما ان دھماکوں کو ڈرون حملوں سے کیوں جوڑتے ہیں؟
6۔ ٹیلی ویژن پر وزیر اطلاعات قمر زمان کائرہ نے ایک مذہبی سیاسی جماعت کے (بظاہر) ریٹائرڈ لیڈر سے بار بار پوچھا کہ دھماکوں میں پکڑے جانے والے ملزمان کون ہیں؟ اور ان کا کن تنظیموں سے تعلق ہے؟ ریٹائرڈ لیڈر ہر بار ایک ہی جواب دیتے تھے کہ یہ جنگ ہماری نہیں۔ کیا یہ بزرگ اونچا سنتے ہیں؟
7۔ خودکش حملوں میں مارے جانیوالے پاکستانیوں سے امریکہ کو کیا نقصان پہنچ رہا ہے؟
8۔ اگر غیر مسلم، مسلمانوں کے بچوں اور عورتوں کو قتل کر رہے ہوں تو کیا مسلمانوں کیلئے غیر مسلم بچوں اور عورتوں کا قتل جائز ہو جاتا ہے؟
9۔ اگر مسلمانوں کیلئے غیر مسلموں کے بچوں اور عورتوں کا قتل بھی جائز نہیں تو مسلمان عورتوں اور بچوں کا قتل کس طرح جائز ہو جاتا ہے؟
10۔ اور سب سے بڑا سوال امریکہ کے یہ ’’دشمن‘‘ نہتے پاکستانی شہریوں کو قتل کرنے کے بجائے امریکیوں پر کیوں نہیں حملے کرتے؟
میں ان سوالات کی پوٹلی سر پر اٹھائے پھر رہا ہوں کوئی ہے جو جواب دے؟