آخرایک سرکاری ملازم اور سیاست دان میں کیا فرق ہوتا ہے؟
اول یہ کہ سرکاری ملازم صرف ایک فرد کو جواب دہ ہوتا ہے۔ جس کا وہ ماتحت ہے۔ سیاست دان پوری قوم کو جواب دہ ہے۔ بالخصوص ان لاکھوں افراد کو جن کے حلقے سے وہ منتخب ہو کر آیا ہے اور جن کی وہ نمائندگی کر رہا ہے۔ سرکاری ملازم کا باس کہیں اور چلا جائے تو ماتحت فورا نئے افسر کا وفادار ہو جائے گا لیکن سیاستدان مرغِ باد نما نہیں بن سکتا۔ اسے تو موت تک اپنے حلقۂ انتخاب کے سامنے پیش ہوتے رہنا ہے۔
دوم …یہ کہ سرکاری ملازم کے سامنے بے جان فائلیں اور مسلیں ہوتی ہیں۔ رقعے، توقیعات اور نوٹنگ ہوتی ہے‘ اور بس۔ لیکن سیاستدان کے سامنے انسان ہوتے ہیں۔جیتے جاگتے انسان، جن کے درمیان اس نے چلنا پھرنا ہے، انکی سننی ہے اور اپنی کہنی ہے۔
سوم …اور یہ اصل فرق ہے۔ سیاست دان نے پالیسی بنانا ہے اور سرکاری ملازم نے اس پالیسی کی پیروی کرنا ہے۔
دنیا کی مشہور کتابیں سیاست دانوں کی تربیت کیلئے لکھی گئی ہیں۔ نہ کہ سرکاری ملازموں کیلئے میکیاولی کی پرنس سے لیکر سیاست نامہ طوسی تک اور قابوس نامہ سے لیکر اخلاقِ جلالی تک‘ اس لئے کہ اہل سیاست نے لاکھوں افراد کیلئے پالیسیاں طے کرنا ہوتی ہیں۔ سرکاری ملازم تو ایک اوزار ہے جو سیاست دان کے ہاتھ میں ہے۔ سیاست دان جیسے چاہے اسے استعمال کرے۔
افسوس! کبھی کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ کردار باہم بدلنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ سرکاری ملازم وہ کام کرنے کی کوشش کرتا ہے جو سیاستدان کے کرنے کا ہوتا ہے اور منہ کی کھاتا ہے۔ آپ ایوب خان سے لیکر غلام اسحاق تک اور ضیاء الحق سے لیکر پرویز مشرف تک سب کا مطالعہ کر لیں۔ آپکو ایک بات معلوم ہو جائیگی کہ عوامی امنگوں سے کسی کو سروکار نہ تھا۔ کیوں؟ اس لئے کہ ان کی تربیت اس انداز سے ہوئی تھی کہ وہ تو ایک فرد کو جواب دہ رہے تھے۔ سیاستدان کبھی سیکشن افسر، ڈپٹی کمشنر، جوائنٹ سیکرٹری اور سیکرٹری نہیں رہا ہوتا، اس کا وژن وسیع ہوتا ہے اور اگر نہیں ہے تو وہ سیاست کیلئے موزوں نہیں ہے۔ میاں نواز شریف ایک سیاستدان ہیں اور جناب سعید مہدی ایک سرکاری ملازم تھے اور ہیں۔ میاں صاحب نے دفتروں میں فائل فائل نہیں کھیلی۔ وہ وزیر خزانہ بنے، پھر وزیراعلیٰ ، پھر وزیراعظم، جیل گئے، جلاوطن رہے، پرویز مشرف کی آمریت کا ہدف رہے وہ کروڑوں عوام کے سامنے جواب دہ ہیں۔ ان کا ہاتھ عوام کی نبض پر ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ عوام کے جذبات کیا ہیں؟ اگر انہوں نے نوشیرواں عادل کا یہ قول نہیں بھی سن رکھا تو اسکے باوجود اس پر ضرور عمل پیرا ہو نے کی کوشش کرتے ہونگے کہ ’’اگر دانا بننا چاہتے ہو تو اپنے بارے میں لوگوں کے تاثرات سے سبق سیکھو‘‘ لیکن سعید مہدی صاحب کو عوام کے جذبات کا علم ہے نہ پرواہ اور نہ ہی انہیں یہ فکر ہے کہ لوگوں کے تاثرات کیا ہیں؟ لوگوں کے تاثرات یہ ہیں کہ میاں محمد نواز شریف نے پرویز مشرف کو پاکستان کی بری فوج کی سربراہی پر فائز کر کے غلطی کی تھی۔ سعید مہدی صاحب نے اپنے حالیہ انٹرویو میں یہ ثابت کرنے کی سرتوڑ کوشش کی ہے کہ اس ضمن میں کوئی غلطی نہیں ہوئی تھی۔ مسئلہ وہی ہے وژن کا۔ سیاستدان کا وژن اور سرکاری ملازم کا وژن اس سے ملتی جلتی ہی بات تو اقبال نے کی تھی کہ ملا کی اذاں اور مجاہد کی اذاں اور نادان دوست کی طرح سعید مہدی صاحب نے میاں صاحب کی پوزیشن کمزور کرنے کی کوشش کی ہے۔ وہ انٹرویو میں عوام کے جذبات کو مجروح کرنے کیساتھ ساتھ خود اپنے بیان کو بھی تناقص (Contradiction)
کی نذر کرتے گئے۔ وہ کہتے ہیں کہ نواز
شریف کے دور میں آرمی چیف کے عہدے کیلئے پرویز مشرف کے علاوہ جنرل علی قلی خان اور جنرل ضیاء الدین بٹ کے نام بھی زیر غور تھے اور فیصلہ یہ ہوا تھا کہ ان سینئر جرنیلوں میں سے ایک کا تقرر کیا جائیگا۔ یہاں تک تو بات صحیح ہے لیکن اسکے بعد سعیدی مہدی کہتے ہیں کہ’’ضروری نہیں کہ اس میں سینیارٹی ہی کو مدنظر رکھا جائے‘‘ یہاں انہیں قوم کو بتانا چاہئے کہ سینیارٹی کے علاوہ اور کیا کیا پہلو مدنظر رکھنے چاہئیں یا رکھے گئے تھے؟ پھر وہ اقرار کرتے ہیں کہ ’’اس میں شک نہیں کہ جنرل علی قلی خان پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے حامل تھے اور ’’ہرطرح‘‘ سے اس عہدے کے مستحق تھے لیکن پرویز مشرف کی سلیکشن کی بڑی وجہ یہ تھی کہ چونکہ علی قلی خان سیاسی خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور خدشہ تھا کہ انکی سیاسی سوچ ہو یا سیاسی مقصد جبکہ پرویز مشرف حکومتی ملازم کے بیٹے تھے‘‘۔ یہاں مہدی صاحب نے دو سوال پیدا کر دیئے۔ ایک یہ کہ سیاسی خاندان سے ہونا اتنا بڑا جرم ہے کہ باصلاحیت ہونے کے باوجود ایسے جرنیل کو سربراہ نہیں بنایا جا سکتا؟ اگر آپکو اس پر اعتماد نہیں اور اتنا شک ہے تو پھر اسے تھری سٹار جرنیل بنا کر کور کمانڈر بنانا بھی غلط ہے۔ دوسرا یہ کہ یہاں وہ یہ تو بتاتے ہیں کہ علی قلی خان کا کیا جرم تھا لیکن یہ نہیں بتاتے کہ جنرل ضیاء الدین بٹ کا کیا جرم تھا؟ اگر وہ تین سینئر جرنیلوں میں شامل تھے تو ’’نیک نام‘‘ پرویز مشرف کو جنرل ضیاء الدین بٹ پر کیوں ترجیح دی گئی۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر علی قلی خان سے کچھ لوگوں کو ’’خوف‘‘ تھا تو جنرل بٹ مشرف سے کہیں بہتر تھے۔ عالم اسلام کی سب سے بڑی فوج پر ایک ایسے شخص کو مسلط کرنا جس کے شب و روز کے مشاغل کسی سے چھپے ہوئے نہیں تھے۔ بہت بڑا ظلم تھا اس فوج میں بے شمار افسر اور جوان ایسے تھے جو راتوں کو سر بہ سجدہ رہتے تھے۔ ہر وقت باوضو ہوتے تھے، دن کو اللہ سے ڈرتے تھے اور فوج کی ملازمت کو کارثواب اور شہادت کو اپنی منزل مراد سمجھتے تھے۔ ان غازیوں اور مجاہدوں پر ایک بلا نوش اور طبلہ نواز شخص کو مسلط کرنا اور پھر عذر گناہ بد تر از گناہ کیمطابق اب اصرار کرنا کہ اس میں کوئی غلطی نہیں کی تھی۔ یہ رویہ ایک محدود وژن رکھنے والے سرکاری ملازم کا ہی ہو سکتا ہے۔
پھر سعید مہدی صاحب مکھی اڑانے کیلئے دوست کے سر پر پتھر مارتے ہیں اور کہتے ہیں کہ…’’جو لوگ وزیر اعظم کے نزدیک تھے انکے ساتھ جنرل علی قلی خان کے کچھ ذاتی مسائل تھے‘ جسکے باعث انکی تقرری نہ ہو سکی‘‘ دوسرے لفظوں میں مہدی صاحب یہ کہہ رہے ہیں کہ کچھ لوگوں کے ذاتی مسائل کی وجہ سے وزیراعظم نے میرٹ کا قتل کیا کیوں کہ علی قلی خان کے باصلاحیت ہونے کا تو مہدی صاحب اعتراف کر ہی چکے ہیں! پھر اسی پر بس نہیں کرتے، وہ میاں نواز شریف پر ایک اور الزام لگاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ’’جنرل پرویز مشرف کا بھی پیشہ ورانہ لحاظ سے ریکارڈ ٹھیک تھا تاہم وزیراعظم نے ان کے پروفیشنلزم سے ہٹ کر دوسرا ریکارڈ نہیں دیکھا‘‘۔ یہ ایک ایسا الزام ہے جس کا جواب میاں صاحب کو خود ہی دینا چاہئے لیکن ایک بات طے ہے کہ اگر میاں صاحب کے اردگرد عقل مند لوگ اور وژن رکھنے والے بیوروکریٹ ہوتے تو انہیں مشورہ دیتے کہ ’’دوسرا‘‘ ریکارڈ ضرور دیکھنا چاہئے۔ پھر مہدی صاحب ایک تیر جنرل ضیاء الدین بٹ کی طرف بھی پھینکتے ہیں کہ ’’اختلاف اس وقت شروع ہوا جب وزیراعظم کو پتہ چلا کہ کارگل میں جنرل پرویز مشرف نے مہم جوئی کی جو ان کو بغیر بتائے کی گئی۔ اس وقت کے آئی ایس آئی کے چیف جنرل ضیاء الدین بٹ کی جانب سے اس بارے میں حکومت کو آگاہ نہ کرنا ان کی ناکامی ہے‘‘۔ گویا سعید مہدی صاحب یہ ثابت کر رہے ہیں کہ جو شخص آئی ایس آئی کے سربراہ کے طور پر ناکام رہا اسے وزیراعظم نے پوری فوج کا سربراہ بنا دیا!! ظفراقبال نے شاید کسی ایسے ہی موقع کیلئے کہا ہے …؎
دیکھ رہ جائے نہ حسرت کوئی دل میں تیرے
شور کر اور بہت خاک اڑا اور بہت