تم ایک علامت ہو
تم صدیوں کی غلامی کی علامت ہو
تم علامت ہو اس حقیقت کی کہ جرم ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات کے سوا کچھ نہیں ہو سکتی
تم اگر خودکشی نہ کرتیں تو کیا کرتیں؟
تمہارے ہم وطنوں کے پاس کوئی ایسی فوج نہیں تھی جو امریکہ پر حملہ کر سکتی‘انکے پاس ایئر کرافٹ کیریر تھے‘ نہ ڈرون‘ ڈیزی کٹر بم تھے‘ نہ کیمیائی ہتھیار۔
یہ سب تو دور کی باتیں ہیں‘ تمہارے ہم وطنوں کے پاس تو کچھ بھی نہیں‘ کھاد سے لے کر چینی تک‘ گندم سے لے کر دودھ تک‘ دواﺅں سے لے کر ہر قسم کی مشینری تک‘ کار سے لے کر ریفریجریٹر تک‘ جہاز سے لے کر آبدوز تک‘ ہر شے کیلئے وہ دوسروں کے دست نگر ہیں‘ جو قوم کبھی ڈالروں کیلئے جھولی پھیلاتی ہے اور کبھی یورو کیلئے‘ وہ تمہارے لئے کیا کر سکتی تھی! اچھا ہوا تم نے خودکشی کرلی۔
تم اگر خودکشی نہ کرتیں اور زندہ رہتیں تو یقین کرو تم ایسے ایسے دکھ اٹھاتیں کہ تمہارے چاہنے والے تمہیں دیکھ کر انگاروں پر لوٹتے‘ تم اس قوم کی بیٹی ہو جس کے رہنماءچھینک اور زکام کیلئے انگریزوں کے وطن میں جاتے ہیں‘ انکے کارخانے‘ انکے محلات‘ انکی اولاد‘ سب کچھ انہی گوروں کے پاس ہے‘ جن کے ظلم اور دھاندلی کیخلاف احتجاج کرتے ہوئے تم نے اپنی جان اپنے ہاتھوں سے لے لی۔ تم نے اچھا کیا‘ تمہارے رہنماءجن کے سامنے دست بستہ کھڑے ہیں‘ ان سے وہ تمہارے شوہر کے خون کا بدلہ کس طرح لیتے؟
آج جو لوگ تمہاری خون آلود قمیضکا پرچم‘ شاہراہوں پر لہرا کر ہڑتالوں اور جلوسوں میں مصروف ہیں‘ یہ وہی لوگ ہیں جو اس قوم کو ہر وعظ‘ ہر نصیحت کرتے ہیں‘ سوائے ایک بات کے کہ علوم و فنون میں ترقی کرو‘ سائنس اور ٹیکنالوجی میں آگے بڑھو تاکہ تم بھی ڈرون کے مقابلے میں ڈرون اڑا سکو‘ تمہارے پاس بھی ہوائی جہازوں سے بھرے ہوئے بحری بیڑے ہوں اور تم بھی خلا میں تیرتے سیاروں سے امریکیوں کی ایک ایک نقل و حرکت کو دیکھ سکو اور ریکارڈ کر سکو۔
جہاں تم ہماری بے بسی‘ ضعف‘ پسماندگی اور شکست کی علامت ہو‘ وہاں ریمنڈ ڈیوس ایک قوم کی برتری‘ طاقت اور ترقی کی علامت ہے‘ یہ برتری‘ یہ طاقت کئی صدیوں کی محنت شاقہ کا لازمی اور منطقی نتیجہ ہے۔ ریمنڈ ڈیوس اس حقیقت کی علامت ہے کہ جو قوم رات دن محنت کرے‘ اپنے ہاں انصاف کا نظام قائم کرے‘ ایسا انصاف کہ صدر کلنٹن کو بھی کٹہرے میں کھڑا کر دے‘ وہ قوم جو چاہتی ہے کر دکھاتی ہے۔
ریمنڈ ڈیوس ایک علامت ہے اس حقیقت کی کہ امریکیوں نے طاقت اور برتری سائنس اور ٹیکنالوجی کی وساطت سے حاصل کی ہے۔ ریمنڈ ڈیوس کی قوم کے تھیلے میں بہت کچھ ہے۔ عینک کا بائی فوکل شیشہ (1760ئ)‘ آٹا پیسنے کی خودمختار مشین (1787ئ)‘ ریفریجریٹر (1841ئ)‘ برقی گھنٹی (1831ئ)‘ گندم کاٹنے والی مشین (1834ئ)‘ سلائی مشین (1833ئ)‘ سرکٹ بریکر (1836ئ)‘ ٹائلٹ پیپر (1857ئ)‘ متحرک برقی سیڑھی (1859ئ)‘ ڈاک میں بھیجا جانیوالا پوسٹ کارڈ (1861ئ)‘ مشین گن (1861ئ)‘ موٹر سائیکل (1867ئ)‘ کپڑے لٹکانے والا ہینگر (1969ئ)‘ برقی پنکھا (1882ئ)‘ تھرموسٹیٹ (1883ئ)‘ ٹریکٹر (1892ئ)‘ ریڈیو (1893ئ)‘ آلہ سماعت (1902ئ)‘ ایئرکنڈیشنر (1902ئ)‘ ہوائی جہاز (1903ئ)‘ کپڑے دھونے والی برقی مشین (1908ئ)‘ ٹریفک کے برقی اشارے (1912ئ)‘ ایئر ٹریفک کنٹرول (1929ئ)‘ دھوپ کا چشمہ (1929ئ)‘ چیئر لفٹ (1936ئ)‘ نائلن (1938ئ)‘ کینسر کے علاج کیلئے کیموتھراپی (1946ئ)‘ آواز سے زیادہ تیز رفتار طیارہ (1947ئ)‘ پولیو کا انجکشن (1952ئ)‘ ایٹمی آبدوز (1955ئ)‘ صنعتی روبوٹ (1956ئ)‘ ہڈی کے اندر گودے کا ٹرانسپلانٹ (1956ئ)‘ مواصلاتی سیارہ (1962ئ)‘ پھیپھڑوں کی پیوند کاری (1963ئ)‘ انسانی دل کی پیوند کاری (1964ئ)‘ لیزر پرنٹر (1969ئ)‘ ای میل (1971ئ)‘ موبائل فون (1973ئ)‘ انٹرنیٹ (1983ئ)‘ مصنوعی جگر (2001ئ)۔
یہ ان چند ایجادات میں سے ہیں‘ جو امریکیوں نے کیں اور جن سے آج دنیا بھر میں فائدہ اٹھایا جا رہا ہے۔ ریمنڈ ڈیوس کو ہم قاتل کہیں‘ یا جاسوس‘ وہ بہرحال ایک قوم کی برتری کی علامت ہے اور یہ برتری قرن ہا قرن کی محنت سے حاصل ہوئی۔ تمہاری ضعیف قوم سمندروں‘ فضاﺅں اور خلاﺅں سے امڈتے ہتھیاروں کا مقابلہ کس طرح کرتی؟ ریمنڈ ڈیوس کے ملک میں ہزاروں یونیورسٹیاں دن رات‘ بارہ مہینے‘ چوبیس گھنٹے تحقیق میں مصروف ہیں‘ ریسرچ اور ریسرچ اور ریسرچ…. اسی کے نتیجہ میں سینکڑوں ایجادات اور سینکڑوں دریافتیں ریمنڈ ڈیوس کی قوم کے ماتھے پر سجی ہیں۔ اس قوم کا مقابلہ وہ ملک کس طرح کرتا جس کے مریض تعویذوں اور مزاروں کی مٹی سے علاج کرتے ہیں‘ جس کے ہاریوں کی عورتیں جاگیرداروں کی ملکیت ہیں۔ جس کے طالب علم بغیر چھت کے سکولوں میں ”زیر تعلیم“ ہیں‘ جس کے بیروزگار نوجوان خودکش جیکٹیں پہن کر گھر والوں کو رقم بھیجتے ہیں اور جس کے وزیرستان‘ سوات اور بلوچستان میں یونیورسٹیاں ہیں‘نہ کارخانے‘ ہسپتال ہیں‘ نہ دواخانے‘ لائبریریاں ہیں‘ نہ عدالتیں‘ ہاں سردار اور خان ہیں‘ ملک اور قبائلی سربراہ ہیں۔
شمائلہ! ایک قوم کے ضعف کی علامت تم ہو…. اور ایک قوم کی طاقت کی علامت ریمنڈ ڈیوس ہے۔