نہیں! بندہ پرور نہیں! اب عوام کو محض اس نعرے پر زندہ نہیں رکھا جا سکتا کہ پاکستان ستائیس رمضان کو وجود میں آیا تھا۔ دیوار پر کچھ اور لکھا ہے۔ غور سے پڑھیے
بھرا نہ اطلس و مرمر سے پیٹ خلقت کا
یہ بدنہاد اب آب و گیاہ مانگتی ہے
اللہ کی سُنت کسی کےلئے نہیں تبدیل ہوتی۔ پیغمبروں کا سلسلہ آمنہ کے لال پر ختم ہو گیا اور ساتھ ہی معجزوں کا بھی۔ بہت سی مقدس ریاستیں ، میسور کی سلطنتِ خداداد — کچھ بھی نہ رہا‘ اس لئے کہ خالقِ کائنات حسب نسب نہیں دیکھتا۔ یومِ تاسیس نہیں دیکھتا، تریسٹھ سال کے سیاہ کارناموں کو دیکھتا ہے۔
اس ملک کے مظلوم عوام نے کون سی قربانی نہیں دی؟ ابھی تو سیاچن کی برف کے نیچے سے سارے شہیدوں کی میتیں بھی نہیں نکلیں۔ اب یہ عوام، شہیدوں کے یہ وارث، اگر افیونی نعروں اور تقدیس کے دعووں کو نہیں مانتے تو شکوہ کیسا؟ صوفیا کے استاد حضرت شیخ ابو سعید ابوالخیر — جن کو پڑھے بغیر تصوّف کا دعویٰ کرنے والا حاطب اللیل ہی کہلا سکتا ہے فرما گئے ہیں
گفتی کہ فلان ز یادِ ما خاموش است
از بادہء عشقِ دیگران مدہوش است
شرمت بادا، ہنوز خاکِ درِ تو
از گرمئی خونِ دل من در جوش است
تو تم نے یہ شکوہ کیا کہ فلاں میری یاد سے غافل ہے اور کسی اور کے عشق میں پڑ گیا ہے! تمہیں شرم آنی چاہیے۔ ابھی تو تمہاری دہلیز کی مٹی میرے دل کے خون کی گرمی میں رقص کر رہی ہے!
سچی بات کڑوی ہے لیکن پھر بھی سچی ہے۔ طفل تسلیاں دینے والے سالہا سال سے سبزی گوشت اور آٹا لینے بازار گئے ہی نہیں، نہ دوا لینے کےلئے کسی ہسپتال کی قطار میں کھڑے ہوئے ہیں، انہیں کیا خبر کہ پچانوے فیصد لوگوں کے سامنے یہ خوفناک حقیقت منہ پھاڑے کھڑی ہے کہ غربت اور بھوک ایمان کو کھا جاتی ہے!
نہیں! بندہ پرور نہیں! زمینی حقائق کچھ اور کہہ رہے ہیں۔ معروف غیر جانبدار معیشت دان ڈاکٹر فرخ سلیم نے دو دن پہلے تازہ ترین اعداد و شمار پیش کئے ہیں۔ ناکام ریاستوں کے انڈیکس میں روانڈا، برونڈی، حبشہ (ایتھوپیا) اور برما بھی پاکستان سے بہتر شمار کئے گئے ہیں۔ چار سال پہلے پونے پانچ کروڑ پاکستانی غربت کی لکیر کے نیچے رہ رہے تھے آج یہ تعداد آٹھ کروڑ ہو چکی ہے۔ ایک کروڑ بچے سکولوں سے باہر جوتیاں چٹخا رہے ہیں۔ امریکن ایکسپریس بنک بستر باندھ کر چلا گیا ہے۔ ہانگ کانگ شنگھائی بنک (HSBC) رخصت ہونے کےلئے پَر تول رہا ہے۔ سٹی بنک نے اپنے اثاثے فروخت کر دیے ہیں۔
کیا کسی ملک کی قیادت اس سے زیادہ سفاک اور خود غرض ہو سکتی ہے کہ ایوان صدر اور وزیراعظم ہائوس کو معلوم ہی نہیں کہ لوڈشیڈنگ کیا ہوتی ہے؟ حالات کا اندازہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے سربراہ ذکا اشرف کے اس بیان سے لگائیے جو انہوں نے حال ہی میں ملائیشیا سے واپسی پر دیا ہے۔ ملائیشیا میں بین الاقوامی کرکٹ کونسل کا سالانہ اجلاس تھا۔ ذکا اشرف نے ایک ایک ملک کی منت کی کہ پاکستان میں آ کر کھیلیں لیکن کسی ایک ملک نے بھی دعوت قبول نہیں کی۔ ذکا اشرف نے کہنے کو صرف ایک فقرہ کہا ہے لیکن اس میں ملک کی پوری صورت حال صاف دکھائی دے رہی ہے — ”کسی کو ہمارے ہاں آنے میں دلچسپی نہیں ہے! سارے ملک امن و امان کے فقدان کی شکایت کرتے ہیں!“ اسی امن و امان کی ایک اور جھلک دیکھئے کہ کراچی سے پانچ ہزار چھ سو پاسپورٹ چوری ہوئے اور اب وہ نہ جانے کس کس کے پاس ہیں!
سزائیں صرف پٹواریوں، کانسٹیبلوں اور کلرکوں کےلئے رہ گئی ہیں جہاں کوئی بڑی مچھلی ”پریشانی“ کا شکار ہوئی، ادارے کے ادارے اُسے بچانے کےلئے میدان میں کود پڑے۔ این ایل سی اسکی صرف ایک مثال ہے۔ جو جرنیل اسے چلا رہے تھے انہوں نے اُس وقت کے وزیراعظم کی واضح ہدایت کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ببانگِ دہل اربوں روپے سٹاک ایکسچینج کی سرمایہ کاری میں جھونک دیے۔ ملازمین کی پنشن کی رقم بھی لگا دی۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ دو ارب روپے بنکوں سے قرضہ لیا اور یہ بھی ”سرمایہ کاری“ میں لگا دیا۔ تقریباً دو ارب روپے کا نقصان ہوا۔ بنکوں کو سود الگ دیا جا رہا ہے۔ لیکن دو سال پہلے جب پبلک اکائونٹس کمیٹی نے اس سارے معاملے کو ہاتھ میں لیا تو جی ایچ کیو نے کہا کہ ہم خود تفتیش کرینگے۔ یہ تفتیش آج تک سامنے نہیں آئی! ایک انگریزی معاصر نے اس پر تفصیلی رپورٹ شائع کی ہے لیکن یوں لگتا ہے کہ اب پریس ہو یا عوام، ”بڑوں“ کا بال بیکا کوئی نہیں کر سکتا۔ ہاں ”چھوٹے“ جتنے بھی ہیں بے شک کڑکی میں پھنستے جائیں اور ان کے تڑپنے کا تماشا دیکھا جاتا رہے!
تو پھر کیا ہم مایوس ہو جائیں؟
کیا ہم جاں بلب مریض کی طرح آخری ہچکی کا انتظار کرتے رہیں
تو کیا ان اندھیرے مکانوں میں ہم
یونہی دن گذارے چلے جائیں گے؟
نہیں! بندہ پرور نہیں! اقدامات! صاف اور واضح اقدامات اٹھانے ہونگے۔ اس ملک کی بقا اس میں ہے کہ پالیسیاں تبدیل کی جائیں اور نئی پالیسیوں پر عمل کیا جائے۔ اب محض یہ راگ الاپنے سے کام نہیں چلے گا کہ ہم ستائیس رمضان کو معرض وجود میں آئے تھے، اس لئے گند اور غلاظت کے باوجود صاف ستھرے رہیں گے‘ بھلا گند اور غلاظت کا صفائی کے ساتھ کیا تعلق ہے!
زرعی اصلاحات اور احتساب! تریسٹھ سالوں میں کس کس نے لوٹا؟ قوم جاننا چاہتی ہے۔ آج اگر ہمارا قبائلی بندوق پکڑ کر بیت اللہ محسود کے ساتھ کھڑا ہو گیا ہے تو اس لئے کہ تریسٹھ سالوں کے دوران پولیٹیکل ایجنٹ اُن مَلکوں اور خانوں میں سرکاری رقوم بانٹتے رہے جن کا عام قبائلی سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ اس سوال کا جواب کون دےگا کہ وزیرستان میں‘ خیبر‘ مہمند‘ باجوڑ اور دوسرے قبائلی علاقوں میں کالج اور یونیورسٹیاں کیوں نہیں بنیں اور کارخانے کیوں نہ لگے؟ احتساب کیجئے، خواہ قبریں کیوں نہ اکھاڑنی پڑیں!
ہمیں اُن خاندانوں سے بھی نجات حاصل کرنا ہو گی جو نسل در نسل پارلیمنٹ میں گھسے ہوئے ہیں اور خدا کا خوف نہ رکھنے والی اُن ریش ہائے دراز سے بھی جان چھڑانا ہو گی جو اسمبلیوں میں اپنی بیٹیوں کو بھیجتے ہیں اور دعویٰ دنیا میں خلافت قائم کرنے کا کرتے ہیں اور حال یہ ہے کہ اپنی زندگیوں ہی میں اپنے فرزندوں کو اپنا جانشین مقرر کرا جاتے ہیں
براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے
ہوس سینوں میں چُھپ چُھپ کر بنا لیتی ہے تصویریں