دوماہ پہلے کا واقعہ ہے۔ میں شام کی ریل کار سے لاہور سے اسلام آباد جارہا تھا۔ اچانک ملک مقصود (اصل نام مصلحتاً نہیں لکھا جارہا ) نظر آئے۔ ان کی نشست میری نشست کے بالکل پیچھے تھی۔ گاڑی چلی تو میں کچھ دیر کے لئے ان کے پاس جا کر بیٹھ گیا۔ وہ امریکہ سے دوسال پہلے واپس آئے تھے۔ وہ وہاں کئی سال سے مقیم تھے اور کاروبار خوب چل رہا تھا۔ پھر انہوں نے واپس آنے کا فیصلہ کیا۔ میں نے پوچھا کہ اپنے ملک میں واپس آکر وہ کیسا محسوس کررہے ہیںاور کاروبار کیسا چل رہا ہے۔ ان کی داستان الم ناک تھی اور عبرت ناک بھی۔ انہوں نے مناسب سائز کی ایک فیکٹری لگائی تھی۔ کام چل پڑا تھا۔ ایک دن انہیں ٹیلی فون کال موصول ہوئی۔ انہیں ان کے بنک اکائونٹس کے بارے میں وہ معلومات دی گئیں جو یا تو خود ان کے پاس تھیں یا بنک کے پاس ہوسکتی تھیں۔ پھر ایک مخصوص رقم کا مطالبہ کیا گیا۔ چند روز کے بعد ان کے ملازموں نے فیکٹری کے گیٹ پر گرنیڈ بندھا ہوا دیکھا۔
میں نے ان سے اظہار ہمدردی کیا لیکن شک کی ایک لہر اٹھی اور میرے دماغ سے دل کی طرف سفر کرنے لگی۔ کہیں ملک صاحب مبالغہ آرائی تو نہیں کررہے؟ کہیں یہ داستان طرازی تو نہیں؟یہ توکراچی کی صورت حال ہے۔ پنجاب میں تو اس طرح نہیں ہوسکتا۔
لیکن دودن پہلے اخبار میں ایک رپورٹ کا تذکرہ پڑھ کر ملک صاحب یاد آئے اور ان کی داستان خوف بھی! یہ رپورٹ حکومت پنجاب کی اپنی ترتیب دی ہوئی رپورٹ ہے جو صوبائی محکمۂ داخلہ نے ڈویژنوں اور شہروں کے انچارج پولیس افسروں کو ارسال کی ہے۔ رونگٹے کھڑے کردینے والی یہ سرکاری رپورٹ بتارہی ہے کہ پنجاب کراچی کے نقش قدم پر چل پڑا ہے اور اب منزلوں پر منزلیں مارتا مسلسل ’’آگے‘‘ بڑھ رہا ہے۔ اس رپورٹ میں دہشت گردوں کے ان گروہوں کا ذکر ہے جو پنجاب میں دولت مند لوگوں سے مال بٹوررہے ہیں۔ وہ صاحب ثروت پاکستانی جو قبائلی علاقوں سے ہجرت کرکے پنجاب کے شہروں میں آن بسے ہیں، ان گروہوں کا خاص نشانہ ہیں۔ راولپنڈی کی صورت حال کا اس رپورٹ میں خصوصی تذکرہ ہے۔ یہاں ماضی قریب میں تقریباً ایک سو افراد سے بیس لاکھ سے لے کر ستر لاکھ روپے تک کی رقوم دھمکیاں دے کر لی گئی ہیں۔ ان سو افراد میں پختونوں کی تعداد زیادہ تھی خاص کروہ جو سپیئر پارٹس کا کاروبار کرتے ہیں یا فیکٹریوں کے مالک ہیں۔ کچھ پر قاتلانہ حملے بھی ہوئے ہیں۔ رپورٹ میں اس امر پرتشویش کا اظہار کیا گیا ہے کہ طالبان کے حمایتی دن بدن زیادہ ہورہے ہیں اور رقمیں بٹورنے والے کچھ گروہ مری میں ٹھکانے بنائے بیٹھے ہیں۔ چند ماہ پہلے دو اشخاص گوجر خان کے نواح میں قتل کیے گئے۔ ان دونوں نے رقم ادا کرنے سے انکار کیا تھا یا ادا نہیں کرسکے تھے۔
رپورٹ بتاتی ہے کہ لاہور کی تاجر برادری بھی متاثر ہورہی ہے بالخصوص وہ تاجر جوفرنیچر، گارمنٹس اور لوہے کا کام کررہے ہیں۔ لاہور ہی میں چار پختون تاجر مطالبات پورے نہ کرنے کی وجہ سے قتل کردیئے گئے۔ ایک تاجر راوی روڈ پر اور دوسرا سمن آباد میں ہلاک کیا گیا۔ یہ بدقسمت پانچ کروڑ روپے کی رقم کا انتظام نہ کرسکے۔ رپورٹ کے مطابق لاہور میں کام کرنے والے زیرزمین گروہوں کا افغانستان اور وزیرستان کے جہادی گروپوں سے قریبی تعلق ہے۔ تقریباً ایک سو ثروت مند پختونوں کے نام پیسے وصول کرنے والے گروہوں کو پہنچائے گئے ہیں۔ یہ ثروت مند پختون افغانستان اور قبائلی علاقوں سے ہجرت کرکے لاہور میں پناہ گزین ہوئے تھے۔ کچھ مجرم جیل سے بھی یہ سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ رپورٹ میں متعلقہ افسروں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وفاقی وزارت داخلہ کو صورت حال کی نزاکت سے آگاہ کیاجائے اور مشترکہ حکمت عملی تیار کی جائے۔
اس رپورٹ کے چیدہ نکات ایک معروف انگریزی معاصرنے شائع کیے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جدیدترین مواصلاتی سہولیات ہونے کے باوجود ابھی تک صورت حال کو قابو میں نہیں کیا جاسکا۔ آج کے دور میں ٹیلی فون کالوں کی مددسے ملزموں تک پہنچنا مشکل نہیں۔ جوپختون سرمایہ کار صوبے میں سرمایہ لائے ہیں،ان کی حفاظت صوبائی حکومت کے فرائض میں شامل ہے اور اگر معاملہ یہاں تک پہنچ گیا ہے کہ تاجر دھمکیوں سے خوف زدہ ہوکر گھٹنے ٹیک رہے ہیں اور مطالبات پورے نہ کرنے والے موت کے گھاٹ اتارے جارہے ہیں اور اس کا اعتراف محکمۂ داخلہ کی اپنی رپورٹ میں کیا جارہا ہے تو اس میں کوئی شائبہ نہیں کہ حالات قابو سے باہر ہیں اور پنجاب کراچی کے نقش قدم پر بگٹٹ بھاگا جارہا ہے!
دوسری طرف پنجاب حکومت کی ترجیحات کیا ہیں؟ پنجاب حکومت کے پسندیدہ اخبار نے لکھا ہے کہ بارانی یونیورسٹی راولپنڈی میں جن طلبہ وطالبات کو انٹرن شپ خطوط دیئے گئے وہ وزیراعلیٰ کے نام کے نعرے لگاتے رہے۔ لیکن زیادہ دلچسپ یہ خبر ہے کہ ۔’’وزیراعلیٰ کی تقریر کے بعد محمد حنیف عباسی نے حاضرین سے سوال کیا کہ کیا آپ کو پتہ ہے کہ زیرتعمیر فلائی اوور کا نام کیا رکھا گیا ہے؟ تو تمام طلبا نے بیک زبان کہا کہ میاں شہباز شریف فلائی اوور‘‘
خودنمائی کے اس طوفان میں یہ کون مشورہ دیتا کہ اگر قائداعظم، فاطمہ جناح، لیاقت علی خان، اقبال یا عبدالرب نشتر کا نام نہیں پسند تو چلو’’مسلم لیگ نون فلائی اوور‘‘ ہی نام رکھ دو۔ اقبال نے خوب کہا تھا ؎
فلک نے ان کو عطا کی ہے خواجگی کہ جنہیں
خبر نہیں روشِ بندہ پروری کیا ہے!
صوبائی حکومت کا اولین فرض یہ ہے کہ جو تعلیمی ادارے برسوں سے ناکافی بجٹ کی وجہ سے مفلوک الحال ہورہے ہیں، انہیں سنبھالا جائے۔ ان تعلیمی اداروں کے ساتھ کیا سلوک ہورہا ہے؟ صرف ایک مثال ملاحظہ کیجئے:گورنمنٹ کالج برائے خواتین کلرسیداں کی پرنسپل اپنے کالج کے بارے میں بتاتی ہیں کہ
1
۔ ایک ہزار طالبات کے لیے صرف دولیکچرار اور پرنسپل میسر ہیں۔ باقی اسامیاں سالہا سال سے خالی چلی آرہی ہیں۔
2۔ کالج میں لیبارٹری کا کوئی تصور نہیں۔
3۔ خواتین کے اس کالج کی حفاظتی دیوار ٹوٹی ہوئی ہے جس کی وجہ سے جانور کالج کے اندر آزادانہ داخل ہوکر گھومتے پھرتے ہیں۔
4۔ اساتذہ اور طالبات کے لیے فرنیچر تک موجود نہیں۔
5۔ پینے کے پانی کا کوئی بندوبست نہیں۔
یہ اس صوبے کے سرکاری کالج کی حالت ہے جس میں دانش سکولوں پر اور لیپ ٹاپ تقسیم کرنے پر کروڑوں اربوں روپے خرچ کیے جارہے ہیں اور وزیراعلیٰ اور ان کے خاندان کے افراد کی تشہیر پر کروڑوں روپے کے اشتہار شائع ہورہے ہیں۔ لوک محاورہ ہے کہ ماں بھیک مانگ رہی ہے اور بیٹا گھوڑوں کی خریداری میں مصروف ہے۔ اس سے بھی زیادہ عبرت ناک خبر یہ ہے کہ اس کالج کے فرنیچر کے لیے دو افراد نے ذاتی طورپر پچاس پچاس ہزار عطیہ کے طورپر دیے ہیں اور اسمبلی کے رکن نے پانی پینے کا کولر بخشش میں دیا ہے۔ یعنی جوسرکاری ادارے پنجاب حکومت کی اولین اور بنیادی ذمہ داری ہیں وہ خیرات صدقات اور عطیات پر چل رہے ہیں، خواتین کے کالج چاردیواری تک سے محروم ہیں۔ جن لیبارٹریوں میں کمپیوٹر ہونے چاہیں وہ بھائیں بھائیں کررہی ہیں لیکن سرکاری خزانے سے لیپ ٹاپ
ملکیتی بنیادوں پر افراد میں بانٹے جارہے ہیں ؎
وہ شاخ گل پہ زمزموں کی دھن تراشتے رہے
نشیمنوں سے بجلیوں کا کارواں گزرگیا