بالآخر لال محمد سے معاملہ طے ہوا۔ ہم دونوں میں غیر تحریری معاہدہ ہوا کہ وہ میرے گھر کے کونے میں پانی بور کرے گا اور میں اسے اتنے روپے فی منٹ کے حساب سے ساتھ ساتھ ادائیگی کرتا جائوں گا۔ دارالحکومت کی جس آبادی میں، میں رہ رہا ہوں وہاں تو پانی کی کمی ہے ہی، اب تو آئی ایٹ جیسے وی آئی پی اور بیش بہا سیکٹروں میں بھی ہر شخص گھر میں پانی بور کرا رہا ہے۔
لال محمد شریف اور بھلے مانس شخص ہے۔ اس کے گیارہ بچے ہیں۔ خیبر پختونخوا سے اس کے والد مرحوم آ کر اسلام آباد کی اس بستی میں آباد ہوئے تھے۔ پانی بور کرانا پڑا تو یہ بھی معلوم ہوا کہ اس ’’گھریلو صنعت‘‘ میں کام کرنے والوں کی اکثریت ہمارے پختون بھائیوں کی ہے۔ لال محمد انہی میں سے ایک ماہر ہے۔ یہ لوگ گھر میں پشتو بولتے ہیں اور گھر سے باہر اردو۔ اردو ان کے روزگار کی زبان ہے۔ اسی کی مدد سے یہ محنت کش اپنے بچوں کا رزق حاصل کرتے ہیں اور صرف اسلام آباد ہی میں نہیں، کراچی سے لاہور تک اور گلگت سے ملتان تک ملک کی معیشت میں ہمارے پختون بھائی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ کل جب روزنامہ ’’دنیا‘‘ میں یہ اندوہناک خبر پڑھی کہ پشاور کے جلسے میں اے این پی کے کارکنوں نے اسفند یار ولی خان کا خطاب اردو زبان میں سننے سے انکار کر دیا اور کہا کہ اردو ہماری دشمن زبان ہے،اس میں بات کرنا حرام ہے اور اسفند یار کارکنوں کو سمجھاتے رہے کہ اردو میں بات نہ کی تو میڈیا کو سمجھ نہیں آئے گی جس پر انہیں صرف پانچ منٹ اردو میں بات کرنے کی اجازت دی گئی۔
تو میں سوچ رہا تھا کہ اگر جناب اسفند یار اپنی پارٹی کے کارکنوں کی تربیت کرتے اور انہیں تھوڑے سے جنرل نالج کی تعلیم بھی دیتے تو ہمارے ان عزیز بھائیوں کو معلوم ہوتا کہ چند ماہ پہلے ’’انجمن تحفظ حقوق پختوناں کلر کہار‘‘ کے عہدیداروں نے جو عرضداشت پنجاب کے وزیراعلیٰ کی خدمت میں پیش کی تھی اور جس کے جواب میں وزیراعلیٰ نے ’’انجمن‘‘ کو ایمبولنس کا تحفہ دیا تھا، وہ عرضداشت اردو زبان ہی میں تھی! یہ جو ایبٹ آباد کی جھُگیاں سے لے کر راولپنڈی میں فوارہ چوک تک اور لاہور میں لبرٹی کی بغل تک ہر شہر اور ہر قصبے میں ایک باڑہ کھلا ہوا ہے اور جس میں کپڑے سے لے کر کراکری تک اور کھلونوں سے لے کر الیکٹرانک اشیا تک دنیا کی ہر چیز بک رہی ہے تو ان کاروباری مراکز میں اردو بولے بغیر ایک دھیلے کا بزنس بھی نہیں ہو سکتا۔ آخر اے این پی کے ’’وسیع الظرف‘‘ اور ’’وسیع العلم‘‘ کارکن ان محنت کرنے والے دیانت دار اور سیدھے سادے پختونوں کے روزگار کے دشمن کیوں بننا چاہتے ہیں؟
یہ صرف آج کی بات نہیں، پختون ہمیشہ سے متحرک اور سفر کے دلدادہ رہے ہیں۔ انیسویں صدی کے آخری تیس سالوں میں یہ پختون شتربان ہی تھے جنہوں نے آسٹریلیا کے لق و دق صحرائوں میں ٹیلی گراف کی لائنیں اور ریلوے کی پٹری بچھائی۔ برطانوی آباد کاروں کے بس کی یہ بات ہی نہیں تھی۔ ان لوگوں نے، جو کراچی اور بمبئی کی بندرگاہوں سے جہازوں میں اپنے اونٹوں سمیت آئے تھے، آسٹریلیا کے دور افتادہ گوشوں میں مسجدیں بنائیں۔ انتہائی شمال سے لے کر انتہائی جنوبی کنارے تک جو ریل چلتی ہے اسے افغان ایکسپریس کہا جاتا تھا۔ آج بھی آسٹریلوی اسے ’’غان‘‘ ایکسپریس کہتے ہیں۔ معروف آسٹریلوی ادیبہ حنیفہ دین نے، جو انہی شتربانوں کی اولاد میں سے ہیں، اپنی مشہور کتابوں ’’کاروان سرائے‘‘ اور ’’علی، عبدل، ورسز دی کنگ‘‘ میں ان لوگوں کے حالات جمع کیے ہیں۔ معروف امریکی محقق پروفیسر
Robert Nichols
نے ’’ہسٹری آف پشتون مائگریشن‘‘ میں بتایا ہے کہ کس طرح 1775ء سے لے کر 2006ء تک پختون پورے برصغیر اور پھر پاکستان کے طول و عرض میں آباد کاری کرتے رہے۔ اٹھارہویں صدی میں شمالی ہند کی روہیل کھنڈ ریاست پختونوں ہی کی تھی۔ رام پور ریاست بھی، بریلی جس کا دارالحکومت تھا، پٹھانوں ہی کی تھی۔ حافظ رحمت خان پختون تھے۔ پانی پت کی تیسری لڑائی میں حافظ رحمت خان مرہٹوں کے خلاف احمد شاہ ابدالی کے شانہ بشانہ لڑے۔ پھر جب 1764ء میں ہندو جاٹوں نے سورج مل کی قیادت میں مغل فوج کا تیا پانچہ کر دیا اور تاج محل کے چاندی کے دروازے تک اکھاڑ کر لے گئے، تو بہادر پٹھان حافظ رحمت خان ہی تھے جنہوں نے بدلہ لینے کی قسم کھائی اور سورج مل کو شکست دے کر جہنم رسید کیا۔ اودھ کے نواب شجاع الدولہ نے ایسٹ انڈیا کمپنی کی اطاعت قبول کرکے خراج دینا شروع کر دیا۔ جب اس نے روہیلوں سے رقم مانگی تو حافظ رحمت خان نے انکار کر دیا۔ نواب نے انگریزوں کے ساتھ مل کر روہیل کھنڈ پر حملہ کر دیا۔ حافظ صاحب لڑتے ہوئے شہید ہو گئے۔ انگریزوں نے غارت گری کی انتہا کر دی۔ روہیلے پٹھان گنگا کے کنارے جنگلوں میں روپوش ہو گئے اور کئی سال تک انگریزوں کے خلاف گوریلا جنگ لڑی لیکن ہتھیار نہ ڈالے۔ بہت سے پختون ہجرت کرکے حیدر آباد دکن چلے گئے جہاں نظام کے دم سے مسلمانوں کی ایک سلطنت باقی تھی!
حضرت مولانا احمد رضا خان بریلوی پٹھان تھے۔ محمد علی جوہر اور ان کے بھائی یوسف زئی تھے۔ جنرل اختر عبدالرحمن روہیلے پٹھان تھے۔ جنرل رحیم الدین (اعجاز الحق کے سسر) آفریدی پٹھان تھے اور بھارت کے تیسرے صدر ڈاکٹر ذاکر حسین ان کے چچا تھے۔ ان حضرات کے جدِّامجد کوہاٹ سے ہجرت کرکے یوپی گئے تھے۔ معروف شاعر پرتو روہیلہ جو سول سروس کے دوران پشاور ایک عرصہ رہے اور اپنی پسند سے رہے، پٹھان ہیں۔ معروف شاعر، ڈرامہ نگار اور فنکار جیدی (اطہر شاہ خان) خالص پختون ہیں۔ روزنامہ کوہستان کے چیف ایڈیٹر عبدالوحید خان بریلی کے پٹھان تھے۔ انہوں نے سید ابو الاعلیٰ مودودی کے ہمراہ کئی سال جیل میں گزارے۔ وہ معروف صحافی جناب سلمان غنی کے سسر تھے۔ عبدالوحید خان کے صاحبزادے ڈاکٹر عمار حمید خان لاہور کے معروف ہارٹ سرجن ہیں اور گنتی کے اُن چند ڈاکٹروں میں سے ہیں جو بچوں کے دل میں پڑنے والے پیدائشی سوراخ کے علاج کے ماہر ہیں۔ عمار حمید نے امریکہ اور سعودی عرب کے ہسپتالوں سے بھاری بھرکم تنخواہوں کی پیشکشیں ٹھکرا کر وطن واپس آنے کو ترجیح دی۔ پاکستان کے یہ سارے قابلِ فخر سپوت پختون ہیں۔
برِّصغیر کا ایک ایک گوشہ پختونوں کی محنت، بہادری اور دیانت داری کا مرہونِ احسان ہے۔ یوپی کا قصبہ فرح آباد بنگش قبیلے سے آباد ہے۔ پٹھان کوٹ پختونوں نے آباد کیا۔ اعظم گڑھ، بھوپال اورنگ آباد (حیدر آباد دکن، موجودہ مہاراشٹر) میں مروَت آج بھی موجود ہیں۔ گجرات (بھارت) کے قصبے بڑودہ میں یوسف زئیوں کا راج ہے۔ لودھی اور خلجی پٹھان تھے۔ ہندوستان کا نامور ترین حکمران جو پانچ سال میں پورے برِّصغیر کو سو سال آگے لے گیا، شیر شاہ سوری پٹھان تھا اور بہار کا قصبہ سہسرام اُس کی جنم بھومی تھی۔ دلیپ کمار، شاہ رخ خان، عامر خان، منصور علی خان پٹودی، ظہیر خان سب پختون ہیں۔ ’’برکی‘‘ 1617ء میں جنوبی وزیرستان سے نکلے اور جالندھر آ بسے۔ ہوشیار پور، لدھیانہ، ملیر کوٹلہ، امرتسر پختونوں کا گڑھ تھے۔ قصور اور لاہور آج بھی پختونوں کے دم سے رونق پزیر ہیں۔ عمران خان، مصباح الحق، ماجد خان، جاوید برکی، انتخاب عالم کون پٹھان نہیں ہے؟ سابق سیکرٹری خارجہ اور کرکٹ بورڈ کے سابق سربراہ شہریار خان جو بھوپال سے ہیں، اورک زئی پختون ہیں۔ اگر آج اردو ’’حرام‘‘ ہے تو کیا یہ تمام پختون صرف پشتو بولتے تھے؟
پورے برِّصغیر میں اردو کی زلف سنوارنے والے اور اردو زبان و ادب کو چار چاند لگانے والے پختونوں کو اے این پی کے مٹھی بھر ’’کشادہ نظر‘‘ کنوئیں کا مینڈک بنا دینا چاہتے ہیں۔ اللہ کے بندو! شبیر حسن خان جوش ملیح آبادی، منیر نیازی، کوثر نیازی سب پٹھان تھے۔ صرف جوش ہی نے، جو خالص آفریدی پٹھان تھے، تیس سے زیادہ کتابیں لکھی ہیں اور سب کی سب ’’حرام‘‘ اردو میں ہیں، احمد فراز اور محسن احسان کون تھے اور کس زبان کے شاعر تھے؟ غلام محمد قاصر کے دو شعر آج پوری دنیا میں لاکھوں لوگوں کی زبان پر ہیں ؎
کروں گا کیا جو محبت میں ہو گیا ناکام
مجھے تو اور کوئی کام ہی نہیں آتا
تم یوں ہی ناراض ہوئے ہو ورنہ میخانے کا پتہ
ہم نے ہر اس شخص سے پوچھا جس کے نین نشیلے تھے!
اس فہرست کی انتہا کوئی نہیں۔ سارے نامور ناموں کا احاطہ کرنا اس ناقص العلم قلم کار کے بس سے باہر ہے!
اور یہ جو ہم نے آغاز میں اے این پی کے ساتھ ’’مٹُھی بھر‘‘کا لفظ لگایا ہے تو اس گستاخی کی بنیاد اعداد و شمار پر ہے۔ 2008ء کے انتخابات میں قومی اسمبلی کے لیے خیبر پختونخوا سے 35 نشستیں تھیں (اس میں خواتین کی آٹھ مخصوص نشستیں شامل نہیں)۔ 35 میں سے اے این پی کی نشستیں صرف دس ہیں۔ یعنی اٹھائیس فیصد۔ صوبے سے کل ووٹ 34,85,725 پڑے۔ ان میں سے اے این پی کو چھ لاکھ نو ہزار چھ سو بتیس ووٹ ملے یعنی سترہ اعشاریہ پانچ فیصد۔ باقی بیاسی اعشاریہ پانچ فیصد (82.5) ووٹ ایم ایم اے، مسلم لیگ نون، مسلم لیگ قاف، پی پی پی اور پیپلزپارٹی (شیرپائو گروپ) میں تقسیم ہو گئے۔ سو، اردو کے بارے میں اِس ’’خوش کلامی‘‘ کا خیبر پختونخوا کے تراسی فیصد عوام سے کوئی تعلق نہیں۔ اور کسے معلوم ہے کہ اے این پی کے سارے ارکان بھی اس ’’گُل افشانی‘‘ سے اتفاق کرتے ہیں یا نہیں؟