چلچلاتی دھوپ تھی اور گرمی۔ ایسی گرمی کہ بقول ناصر کاظمی مٹکوں میں پانی جلتا تھا۔ دور دور تک فضا میں بدلی نہیں تھی۔ ہوا جیسے ناپید ہو گئی تھی۔ اردگرد چھوٹی چھوٹی جھاڑیاں تھیں اور بس۔ یا پتھر تھے سخت تپے ہوئے۔ جنازے میں دیر تھی۔ جیسا کہ ہمارے قصبوں اور قریوں میں ہوتا ہے، ان لوگوں کا انتظار تھا جو قریبی عزیز تھے اور منزلوں پہ منزلیں مارتے چلے آ رہے تھے۔ سب انتظار میں تھے۔ دھوپ کی شدت سے بچنے کے لیے لوگوں نے چادریں کندھوں سے ہٹا کر سروں پر رکھ لی تھیں اور گردنیں ڈھانپ لی تھیں۔
انتظار کرتے اس گروہ میں علاقے کا سرکردہ سردار بھی تھا اور دو بزرگ بھی جو عالم تھے اور اپنے تقویٰ کی وجہ سے دلوں میں عزت رکھتے تھے۔ جب تاخیر زیادہ ہو گئی تو سرکردہ سردار آگے بڑھا، لوگ اس کے احترام میں پیچھے ہٹے، اس نے اپنے سر سے چادر اتاری اور نسبتاً ایک ہموار پتھر پر بچھا کر دونوں بزرگوں سے کہ جو عالم تھے، درخواست کی کہ آپ یہاں بیٹھ جایئے، بہت دیر سے کھڑے ہیں، تھک گئے ہوں گے۔ دونوں بزرگوں نے اس کا شکریہ ادا کیا اور بیٹھ گئے۔ وقت گزاری کے لیے دونوں باہم محو گفتگو تھے۔ ایک نے دوسرے سے پوچھا، صاحبزادگان کیا کر رہے ہیں؟ دوسرے نے جواب دیا کہ تحصیلِ علم میں ہیں۔ پوچھنے والے نے تحسین کی۔ پھر گویا ہوئے کہ حصول علم بھی ضروری ہے لیکن ہم لوگوں نے دنیا کو کچھ زیادہ ہی چھوڑ دیا ہے۔ کوئی جاگیر بھی تو ہونی چاہیے، دوسرے بزرگ کو اس بات پر، جس میں تاسف تھا، حیرت بھی ہوئی اور تائو بھی آیا۔ انہوں نے دوسرے بزرگ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا… ’’حضرت! دونوں جہانوں میں علم اور تقویٰ ہی کام آئے گا۔ ہمیں اس راستے پر پچھتانا نہیں چاہیے جو ہم نے اپنے لیے اور اپنی اولاد کے لیے اپنی مرضی سے چُنا ہے۔ آخرت کو تو چھوڑیے، دنیا ہی کو دیکھ لیجیے اور ابھی اسی وقت دیکھ لیجیے، یہاں سینکڑوں لوگ کھڑے ہیں۔ علاقے کے سب سے بڑے سردار نے اپنے سر کی چادر اتار کر ہمیں بچھا دی ہے، کیا ہمارے جسموں کے وہ حصّے جو اس چادر پر آرام کر رہے ہیں، سونے کے بنے ہیں اور دوسروں کے پیتل کے ہیں؟ نہیں! حضرت! یہ صرف علم کی برکت ہے اور ہمارے اس تعلق کی وجہ سے ہے جو ہمیں دین سے ہے ورنہ یہاں دھوپ میں کھڑے ہوئے حضرات کی اکثریت جاگیر جائداد میں ہم سے کہیں بڑھ کر ہے۔‘‘
یہ سچّا واقعہ قاضی حسین احمد کے جنازے کا احوال پڑھ کر یاد آیا۔ خلقِ خدا منزلیں مارتی پہنچی۔ گروہوں کے گروہ موجود تھے۔ پھر ہزاروں سوگواروں کی ان کی رہائش گاہ پر آمد کا سلسلہ جاری ہے۔ حرم مکہ‘ استانبول، برطانیہ اور کئی دیگر مقامات پر غائبانہ نماز جنازہ ادا کی گئی۔ ترک وزیراعظم نے تعزیتی پیغام بھیجا۔ مرشد عام اخوان المسلمون، حماس کے رہنما، فلسطین اور سوڈان کے سربراہان مملکت، ایران، مالدیپ اور اردن کے علماء اور سیاسی رہنما، غرض ایک دنیا ہے جو سوگوار ہے، تعزیت کر رہی ہے اور محوِ دعا ہے۔ یہ سب اس تعلق کی وجہ سے ہے جو قاضی صاحب کو خدا اور اس کے رسولؐ سے اور دین سے تھا۔ ورنہ ان کے پاس جاگیر تھی نہ جائداد، کارخانے نہ محلات، سرکاری مناصب تھے نہ ریاست کا مہیا کردہ پروٹوکول! دنیاوی اعتبار سے وہ کسی شمار قطار میں نہ تھے۔ لیکن ایک دنیا نے ان کی رحلت پر اپنے دل میں کُسک محسوس کی۔
حیرت اور افسوس آسودگی کے ان قیدیوں پر ہوتا ہے جو محلات، کارخانوں، ناقابل یقین بنک بیلنس، ان گنت سواریوں اور خلق خدا کو آزار دینے والے پروٹوکول میں اس درجہ غرق ہیں کہ سر پر کھڑی موت کا سوچتے ہی نہیں۔ ان کے دلدادگان کی اکثریت، ان کے آنکھ بند ہوتے ہی غائب ہو جائے گی۔ قصیدے پڑھنے والے حواری نئے مسیحائوں کی تلاش میں نکل کھڑے ہوں گے۔ ورثاء جائیداد، کارخانوں اور بنک بیلنس کے بٹوارے کی فکر میں ہوں گے۔ جنازے میں زیادہ تر وہ حضرات ہوں گے جو تصویر میں نظر آنے یا خبر میں مذکور ہونے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ بس ان کی قسمت میں زیادہ سے زیادہ ’’کرائے‘‘ کے وہ غریب طالب علم ہوں گے جنہیں کسی مدرسہ سے پکڑ کر لایا جائے گا۔ خلق خدا نے محاورہ ویسے ہی نہیں تراش لیا کہ جج کی ماں مری تھی تو جنازے میں پورا شہر اُمڈ آیا تھا اور جج خود مرا تو کوئی بھی نہ آیا!
میری قاضی صاحب سے کوئی ملاقات نہ تھی۔ سید ابو الاعلیٰ مودودی کو پہلی بار اس وقت دیکھا تھا جب ڈھاکہ یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھا۔ ڈھاکہ ہی میں ایک سیاسی جلسے میں موت کو اس قدر قریب سے دیکھا کہ جلسوں جلوسوں میں شرکت کو خودکشی کے لیے ناموزوں قرار دیتے ہوئے اس کے بعد احتراز ہی کیا۔ اس پر
مستزاد سرکاری مزدوری کی وہ مکروہات تھیں جو درپے رہیں اور سب سے بڑھ کر گوشہ نشینی کی عادت جو ضمیر میں ہے۔ قاضی صاحب کے سامنے میری کوئی حیثیت تھی نہ ہے، کیا پدّی اور کیا پدّی کا شوربہ، لیکن ایک حقیر طالب علم کی حیثیت میں، اور ایسے طالب علم کی حیثیت میں جو مراکش سے لے کر انڈونیشیا تک برپا ہونے والی اسلامی تحریکوں کا مطالعہ کرتا رہا ہو، مجھے قاضی صاحب پر کئی اعتراضات تھے اور میں نے کئی مضامین میں ان اعتراضات کو سپردِ قلم بھی کیا۔ اوّل یہ کہ انہوں نے اپنی صاحبزادی کو قومی اسمبلی کے لیے نامزد کیا یا نامزد ہونے دیا۔ یہ نامزدگی پاکستان کے سیاسی کلچر میں کوئی اچنبھے کی بات نہ تھی بلکہ ہماری سیاسی پارٹیوں کے آمر رہنما ایسا نہ کریں تب باعثِ تعجب ہے۔ لیکن قاضی صاحب کی شخصیت، ان کے انداز فکر اور ان کی جماعت کے دعاوی سے ایسی نامزدگی مطابقت نہ رکھتی تھی۔ دوم، ان کی ساری توجہ خارج پر تھی اور ملک کو درپیش اندرونی مسائل پر وہ کوئی توجہ دیتے تھے نہ قلم اٹھاتے تھے۔ سوم، طالبان کے حوالے سے ان کا رویہ قطعاً غیر حقیقت پسندانہ تھا۔
قاضی صاحب کو ان کے پیدا کرنے والے نے جو زندگی بخشی وہ قابلِ رشک تھی اور جو موت دی، وہ بھی کم ہی لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔ انہوں نے دنیا کے کیچڑ سے اپنے آپ کو بچا کر رکھا۔ مال و منصب کو کبھی اپنا مقصد حیات نہ بنایا۔ اسلام کی جس تعبیر کو وہ درست سمجھتے تھے، اسے کسی خوف اور لالچ کے بغیر عام کرنے کی جدوجہد کی۔ ان کا یہی کارنامہ کیا کم ہے کہ انہوں نے جماعتِ اسلامی کو ضیاء الحق کے آسیب سے دور کرنے کی سعی کی اور فرقہ واریت کے خلاف مسلسل انتھک محنت کی۔ خدا ان کی لغزشوں سے درگزر کرے۔ ان کے ساتھ نرم معاملہ کرے ، ان کی قبر کو جنت کے باغوں میں سے ایک باغ میں تبدیل کر دے اور ان کی نیکیوں کا اچھا بدلہ دے۔ رومی نے سنائی کی وفات پر غضب کا نوحہ لکھا۔ اس فقیر نے اپنا دوسری شعری مجموعہ غدر اپنے دادا جان کے نام معنون کیا اور ساتھ یہ نوحہ نقل کیا تھا۔ قاضی صاحب کی رحلت پر یہ اشعار بے اختیار یاد آ رہے ہیں ؎
گفت کسی خواجہ سنائی بُمرد
مرگِ چنین خواجہ نہ کاریست خرد
کاہ نبود او کہ ببادی ربود
آب نبود او کہ بہ سرما فسرد
شانہ نبود او کہ بموئی شکست
دانہ نبود او کہ زمینش فشرد
گنجِ زری بود درین خاکدان
کو دو جہان را بجوی می شمرد
قالبِ خاکی سوئی خاک او فگند
جان و خِرد سوئی سماوات بُرد
کسی نے بتایا کہ خواجہ سنائی چل بسے۔ ایسے خواجہ کی موت معمولی واقعہ نہیں۔ وہ کوئی تنکا نہ تھا جسے ہوا اڑا لے گئی، نہ ہی وہ پانی تھا کہ سرما میں جم گیا۔ وہ کنگھی بھی نہ تھا جو بال سنوارنے سے ٹوٹ جائے اور دانہ بھی نہ تھا جسے زمین کھا جائے۔ وہ تو اس خاکدان میں سونے کا ایسا خزانہ تھا جو دونوں جہانوں کو جَو کے برابر سمجھتا تھا۔ اس نے خاکی بدن کو خاک کے سپرد کیا اور روح کو آسمانوں کی طرف لے گیا۔