سیاست کے نقار خانے میں یہ جو کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی اور یہ جو ہڑبونگ مچی ہوئی ہے تو اس پر تعجب صرف وہ کر سکتا ہے جو برصغیر کے مسلمانوں کی تاریخ سے ناواقف ہے! یہ داستان آج کی نہیں، صدیوں پرانی ہے۔ مسلمانوں کی کون سی حکومت تھی جسے برصغیر میں خود مسلمان بھائیوں نے چین لینے دیا؟ تاریخ نہیں، یہ فلسفۂ تاریخ کا مسئلہ ہے اور اس قدر آسان کہ کسی ابن خلدون کی ضرورت نہیں! برصغیر کی تاریخ سے دو سبق ملتے ہیں۔ اول: مسلمان، مسلمان بھائی کا اقتدار نہیں برداشت کر سکتا۔ دوم: عوام کبھی بغاوت نہیں کرتے۔ 1857ء میں بغاوت ہوئی تو اکثریت نے ساتھ نہ دیا۔ اگر عوام میں بغاوت کا مزاج ہوتا تو جلیانوالہ باغ کی ٹریجڈی کے بعد قیامت کھڑی ہو جاتی۔ آج کا پاکستان دیکھ لیجیے، حکمران گزرتے ہیں اور خلق خدا کو گھنٹوں سڑکوں پر روک لیا جاتا ہے۔ اس لعنت کو ’’روٹ لگنا‘‘ کہتے ہیں۔ بیمار رکی ہوئی ٹریفک میں مر جاتے ہیں اور حاملہ عورتیں چوراہوں پر بچوں کو جنم دیتی ہیں۔ اگر دس فیصد امکان بھی بغاوت کا ہوتا تو لوگ حکمرانوں کے قافلوں کو نیست و نابود کر دیتے۔ گیس اور پٹرول کی مصنوعی قلّت پیدا کرکے چند ڈاکوئوں کو مزید ثروت مند بنایا جا رہا ہے اور میلوں لمبی قطاریں گاڑیوں کی پٹرول پمپوں کے سامنے پہروں انتظار کرتی ہیں۔ بغاوت کے آثار پھر بھی نہیں لیکن اس کالم میں ہم صرف تاریخ کے پہلے سبق پر بات کرنا چاہتے ہیں۔
آصف زرداری راوی کے کنارے خیمہ زن ہو گئے ہیں۔ نوازشریف نے سندھ کو مستقر بنا لیا ہے۔ طاہر القادری کے دائیں بائیں جاوید ہاشمی اور شاہ محمود قریشی کرسی نشین ہیں۔ غبار چھٹے تو کیا عجب قاف لیگ بھی منہاج القرآن کے گھوڑے پر سوار نظر آئے۔ شاہراہیں جو پیپلزپارٹی اور نون لیگ کی طرف جا رہی ہیں، مسافروں سے اٹی پڑی ہیں۔ کوئی اِدھر سے اُدھر جا رہا ہے اور کوئی بگٹٹ واپس چلا آتا ہے۔ جانے والے رات کی تاریکی میں پارٹی چھوڑ رہے ہیں اور آنے والوں کے ڈھول باجوں سے استقبال ہو رہے ہیں۔ تحریک انصاف کے اندر وہی سماں ہے جو سطح سمندر کے نیچے بحری روئوں کا ہوتا ہے۔ مختلف سمتوں میں چلتی، ایک دوسرے کو قطع کرتی روئیں! مولانا فضل الرحمن ایک محاذ کوئٹہ میں گورنر راج کے خلاف کھولے ہوئے ہیں تو دوسرا پڑائو ان کا قطر میں طالبان افغان مذاکرات کے دروازے پر ہے۔ اے این پی اپنے کئی سرداروں کی قربانی دے کر طالبان کے ساتھ مذاکرات کی بات کر رہی ہے۔ ایم کیو ایم حکومت کے اندر بھی ہے اور باہر بھی۔ برون در بھی ہے اور اندرون خانہ بھی ؎
بامن آویزشِ او‘ الفتِ موج است و کنار
دمبدم بامن و ہر لحظہ گریزاں از من
ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی کا رشتہ وہی ہے جو موج اور ساحل کا ہے۔ ابھی کنارے کے ساتھ لپٹتی ہوئی اور ابھی اسے بلکتا ہمکتا چھوڑ کر دور جاتی ہوئی۔ لیکن اس صورت حال پر کانوں کو صرف وہ ہاتھ لگاتا ہے جسے مسلم برصغیر کا ماضی نہیں معلوم ؎
مومنؔ اسی نے مجھ پر دی برتری کسی کو
جو پست فہم میرے اشعار تک نہ پہنچا
بلبن، خلجی، تغلق اور لودھی! اگر انگریزی کا محاورہ ’کٹ تھروٹ‘ کہیں صادق آتا ہے تو انہی حضرات کی باہمی قتل و غارت پر آتا ہے۔ بھتیجا چچا کا گلا کاٹ رہا ہے اور بھائی بھائی کی آنکھوں میں سلائی پھروا رہا ہے۔ صرف ہمایوں کا زمانہ ہی آج کے پاکستان کو سمجھنے کے لیے کافی ہے‘ اس لیے کہ جو مسلم برصغیر کے ماضی کو نہیں جانتا اور آج کی سیاست کو سمجھنے کا زعم رکھتا ہے اس کا حال وہی ہے کہ ؎
آں کس کہ نداند و نداند کہ نداند
در جہلِ مرکب ابد الدہر بماند
جو شخص کہ نہیں جانتا اور نہیں سمجھتا ہے کہ وہ نہیں جانتا‘ وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سخت جہالت میں مبتلا رہے گا۔ ہمایوں آگرہ میں تھا۔ معلوم ہوا کہ جنوب میں گجرات کا حاکم سلطان بہادر پرتگالیوں کی مدد سے اس کے علاقے ہتھیانے کی فکر میں ہے۔ ہمایوں مارچ کرتا ہوا گیا اور ایک مہینے کے اندر گجرات کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ لیکن خبر ملی کہ شیرشاہ سوری آگرہ کی طرف بڑھ رہا ہے۔ واپس ہوا تو سلطان بہادر نے گجرات پر دوبارہ اپنی حکومت قائم کر لی۔ دوسری طرف آگرہ بچ گیا لیکن بنگال چھن گیا۔ پھر اس کے چھوٹے بھائی ہندال نے مسجدوں میں اپنے نام کا خطبہ پڑھوانا شروع کر دیا۔ دوسرے بھائی کامران نے ہندال سے معاہدہ کر لیا کہ ہمایوں بجھتا ہوا چراغ ہے، سلطنت آپس میں ہم بانٹ لیں گے۔ بنارس کے قریب گنگا کے کنارے شیرشاہ سوری اور ہمایوں کے لشکر آمنے سامنے خیمہ زن تھے۔ رات کے وقت کچھ سائے ہمایوں کے لشکر سے نکلے اور چھپتے چھپاتے شیر شاہ سوری کے شاہی خیمے میں داخل ہوئے اور پو پھٹے خاموشی سے واپس اپنے کیمپ میں آئے ؎
ملی تھیں آخر شب خلعتیں جنہیں اظہارؔ
وہی تو چند قبیلے مرے موافق تھے!!
یہی رات تھی جس کے اگلے روز نظام سقہ ہماری تاریخ کا مستقل حصہ بنا اور پھر آج تک نظام سقوں سے جان نہیں چھوٹی! شیرشاہ نے آگرہ بھی چھین لیا۔ ہمایوں لاہور بھاگ گیا۔ شیرشاہ تعاقب میں تھا یہاں تک کہ سرہند پہنچ گیا۔ ہمایوں نے سفارت بھیجی اور کہا کہ خدا کے بندے، سارا ہندوستان تم نے لے لیا‘ لاہور تو میرے پاس رہنے دو، سرہند کو تمہارے اور میرے درمیان سرحد بنا لیتے ہیں۔ لیکن طاقت نہ ہو تو درخواستوں سے ڈرون حملے کبھی نہیں رکتے۔ شیرشاہ سوری نے جواب بھیجا کہ میں نے کابل تمہارے لیے چھوڑ دیا ہے، وہیں جائو۔ کابل ہمایوں کے بھائی کامران کے پاس تھا۔
اس نے اپنی سلطنت کا ایک انچ بھی بھائی کو دینے سے انکار کر دیا۔ صرف یہی نہیں، اس نے شیرشاہ کو پیغام بھیجا کہ میں بھائی کے خلاف بغاوت کرتا ہوں‘ تم مجھے پنجاب سے حصہ دو، شیرشاہ اپنی پوزیشن مستحکم کر چکا تھا۔ اس نے کامران کی پیشکش حقارت سے ٹھکرا دی۔
یہ ایک جھلک ہے برصغیر کے مسلمان حکمرانوں کے ایک دوسرے کے گلے کاٹنے کی اور پیٹھ میں چُھرا گھونپنے کی! ساری تاریخ اسی نفسانفسی سے بھری پڑی ہے اور اس کا نقطۂ عروج وہ ہولناک جنگ ہے جو شاہجہان کے چار فرزندانِ ارجمند کے درمیان پانچ سال جاری رہی۔ قبریں تین تھیں اور جسم چار! تین نے ہر حال میں مارا جانا تھا۔ معاملہ تین ہی کا نہ تھا، دارا شکوہ کا بیٹا سلیمان شکوہ بھی پوست پیتے پیتے چچا کی سلطنت پر قربان ہو گیا۔
نہیں! جو کچھ پاکستان میں ہو رہا ہے، یہ الیکشن کی تیاریاں نہیں! یہ تخت نشینی کی جنگ ہے۔ یہ نوازشریف اور زرداری نہیں، یہ عمران خان اور الطاف حسین نہیں، یہ فضل الرحمن اور رئیسانی نہیں، یہ بابر اور ابراہیم لودھی ہیں، یہ شیرشاہ اور ہمایوں ہیں، یہ شاہ جہان کے شمشیر بکف بیٹے ہیں۔ ’’ہم پرویز مشرف کو دس بار وردی میں منتخب کرائیں گے۔‘‘ اور پھر پرویز مشرف کو یوں چھوڑ دیا جاتا ہے جیسے اس سے کبھی رابطہ ہی نہ تھا، یہی کچھ تو ہمایوں کے بھائی کر رہے تھے، جیسے وہ کبھی ہمایوں کے بھائی ہی نہ تھے۔ کیا برصغیر کے مسلمان اپنے ماضی سے کچھ نہیں سیکھ سکتے؟ کیا ان کا مستقبل ایسا ہی رہے گا جیسا ان کا حال ہے؟ گلے پینسٹھ سال سے نہیں، صدیوں سے کاٹے جا رہے ہیں!