تابستان ایسا نہیں ہوتا تھا جیسا اب ہے۔ سال کے وسطی مہینے مغربی پنجاب کے آخری ضلع کی اس بستی میں جو فتح جنگ سے پندرہ میل آگے ہے‘ آرام دہ نہیں ہوتے تھے۔ پنکھا کیا ہوتا کہ بجلی ہی نہ تھی۔ ہم اس حویلی کے صحن میں جو دراصل ہمارا مہمان خانہ تھا، کیکر کے درختوں کے نیچے چلتے سائے کے ساتھ ساتھ بان کی کھردری چارپائیاں گھسیٹتے۔ ہوا چلتی رہتی کبھی کھیل اور کبھی پڑھائی جاری رہتی۔ گائوں جانے اور رہنے کا شوق پاگل پن کی حد تک تھا۔اقبال نے جیسے یہ شعر اسی قریے کے بارے میں کہا تھا۔ ؎
میرے کہستاں! تجھے چھوڑ کے جائوں کہاں
تیری چٹانوں میں ہے میرے اب وجد کی خاک
لیکن اس شخص کی‘ جو اسلام آباد کے گورستان میں قرآن سینے میں ڈالے اور سر کی جانب سنگ مرمر کی وہ لوح ایستادہ کیے جو شاعرنغز گو معین نظامی نے لاہور کے خطاط سے لکھوائی تھی‘ شرط یہ ہوتی تھی کہ گرما کی تعطیلات میں تم اپنے دادا سے فارسی کی کلاسیکی شاعری پڑھو گے۔ ہر سال گرما کی تعطیلات وہاں گزرتیں۔ دو یا اڑھائی ماہ یہ سلسلہ چودہ سال چلا۔ پہلی جماعت سے چودھویں جماعت تک۔ یہاں تک کہ سعدیٔ ثانی کہلانے والا بابا اپنی لائبریری، گھوڑی، زینیں اور برچھیاں چھوڑ کر اس قبرستان میں جا سویا جہاں ایک پورا حصہ اس کے طلبا کی قبروں کے لیے مخصوص تھا‘ جہاں درختوں پر لوگ رنگین کپڑوں کے چیتھڑے لٹکا دیتے تھے اور دیے جلاتے تھے۔
چودہ سال‘ گرما کی تعطیلات‘ کلاسیکی شاعری، بوستان سعدی اور گلستان سعدی کے بعد جامی کی یوسف زلیخا جو اس کے خمسے کا نشان امتیاز ہے۔ پھر سکندر نامہ برّی جو اس گنجہ کے نظامی نے لکھا جس گنجہ میں مہستیؔ جیسی بے خوف اور جدید شاعرہ رہتی تھی۔ پھر نظامی کی مثنوی مخزن اسرار، پھر امیر خسرو کی مطلع انوار، پھر جامی کی تحفۃالاحرار اور پھر مثنوی رومی کے کچھ حصے۔ سبق سے پہلے پوری تیاری کرنا ہوتی جسے ’’مطالعہ‘‘ کہتے۔ متن کے تین طرف پھیلا ہوا حاشیہ اورکتاب کی شرح الگ۔ یہ ا ور بات کہ حاشیہ اور شرح سب فارسی ہی میں ہوتی۔ دادا سے پڑھنا تو آسان تھا، وہ کتاب دیکھے بغیر متن کا شعر بھی خود پڑھ دیتے اور ترجمہ بھی کر دیتے، لیکن والد گرامی سے پڑھنا جان جوکھوں کا کام ہوتا۔ شعر پڑھتے وقت اضافت اور بحر غلط نہ ہو۔ پھر ترجمہ بھی خود ہی کرنا ہوتا اور تشریح بھی _____ یوں بھی ہوتا کہ شعر قابو میں نہ آتا۔ انہوں نے نہ بتانے کی قسم کھائی ہوئی ہوتی، یہاں یہ حال کہ ڈر کے مارے شعر پر انگلی پھیر پھیر کر کاغذ پھٹنے کے قریب ہوجاتا!
جیسے ہی موقع ملتا، کھیلنے نکل جاتے۔ ہرارہ، آسام اور کابل تک سے آئے ہوئے طلبا، کتابیں بغل میں دابے، چادریں سروں پر رکھے دور میدان میں پہنچ جاتے۔ والی بال کھیلا جاتا، یا دوڑ کے مقابلے ہوتے، چلچلاتی دوپہروں میں جب سب سوئے ہوتے، ہم لڑکے درختوں کے اس جھنڈ کا رخ کرتے جس کی بغل کے مکانوں میں کبوتروں کے کچھ انڈوں اور نئے بچوں کا شہرہ ہوتا۔ بڑے حجم کے لمبی ٹانگوں والے چیونٹے سخت تپتے ہوئے صحن میں ساری دوپہر دوڑتے پھرتے۔ چھپر تلے رکھی گھڑونچی کے نیچے ٹھنڈی ریت پر پڑی دیگچی میں سے بالائی چُرا کر کھانے کا اپنا مزہ ہوتا۔ رنگ رنگ کے دیسی خربوزے‘ سیروں یا منوں کے حساب سے نہیں، گدھوں کے حساب سے آتے یعنی ایک گدھا جتنے اٹھا سکتا۔ اس پر کالے رنگ کی بوری یوں لادی جاتی کہ وزن دونوں طرف برابر ہوتا۔ پھر برسات آجاتی۔ نیم کوہستانی
ندیاں بپھر جاتیں اور انہیں پار کرنے کے لیے گھوڑوں سمیت کنارے پر انتظار کرنا پڑتا لیکن یہ سارا احوال طوالت چاہتا ہے اور زیر تکمیل خود نوشت میں آرہا ہے۔ اس وقت جو کیفیت پڑھنے والوں کے ساتھ بانٹنی ہے وہ اور ہے!
دو دن پیشتر ذات اقدسؐ کے حوالے سے جو عاجزانہ تحریر عرض گزاری‘ اس میں جامی کے خراج تحسین کا ذکر تھا۔ وہ ذات اقدسؐ کو سورج اور عام سورج کو صبح کہتے ہیں۔ جس طرح صبح روشنی سورج سے لیتی ہے اسی طرح سورج روشنی ذات اقدسؐ سے اخذ کرتا ہے۔ اچانک جامی کا ایک بھولا بسرا مصرع برسوں کیا عشروں کی گرد دھوتا‘ ذہن میں پلٹ آیا۔ ان دنوں جب یہ حصہ سبقاً پڑھا تو یہ مصرع ورد زبان رہتا۔ ع
برون آور سر از بردِ یمانی
کیفیت بدل گئی۔ جامی کی مثنوی کا وہ نسخہ تلاش کیا جو اُس وقت ایک لحاظ سے ٹیکسٹ بک کی حیثیت رکھتا تھا۔ مجلد نسخے پر 1961ء کے اخبار کا کاغذ چڑھا تھا جب طالب علم آٹھویں جماعت میں اور تیرہ برس کا تھا۔ وہ صفحہ نکالا جس پر یہ مصرع تھا۔ پھر پوری نعت پڑھی۔ پھر دوسری مرتبہ، پھر تیسری مرتبہ، پھر چوتھی مرتبہ، شام آئی اور گزر گئی، رات آ کھڑی ہوئی۔ جتنی بار پڑھی، یوں لگا، پہلی بار پڑھی۔ اپنی محرومی اور غیر سعادت مندی پر شرم آتی رہی اور جامی کے بخت پر رشک آتا رہا۔ نعت کیا ہے، فریاد ہے۔ منت اور زاری ہے۔ الفاظ ہیں کہ الہام ہیں۔ جس کے دل میں بھی یہ تمنا ہے کہ خاکِ پائے مقدس کو آنکھوں کا سرمہ بنائے، اس کے لیے یہ کیا ہی خوبصورت ارمغان ہے! دل تھامیے اور پڑھیے۔
ز مہجوری برآمد جانِ عالم
تَرحَّم یا نبیَ اﷲ! تَرحَّم
آپ کے ہجر میں پورے عالم کی جان نکلی جارہی ہے، رحم فرمایئے! اے اللہ کے نبی رحم!!
نہ آخر رحمۃُ للعالمینی
ز محرومان چرا غافل نشینی
آپ تو سارے جہانوں کے لیے رحمت ہیں۔ پھر اپنے محروموں سے یہ بے نیازی کیوں؟
برون آور سر از بردِ یمانی
کہ روئی تست صبح زندگانی
یمنی چادر سے سرِمبارک باہر نکالیے۔ آپ کا رخِ انور ہی تو زندگی کی صبح ہے۔
شبِ اندوہِ مارا روز گردان
ز رویت روزِ ما فیروز گردان
ہماری غم و درد کی رات کو دن میں ڈھال دیجیے اور چہرۂ مبارک سے ہمارے دن کو کامیاب فرما دیجیے۔
بہ تن درپوش عنبر بوئی جامہ
بسر بر بند کافوری عمامہ
جسم اطہر پر خوشبو دار پوشاک پہنئے اور سرِ مبارک پر سفید عمامہ باندھیے!
ز حجرہ پائی در صحنِ حرم نِہ
بفرقِ خاکِ رہ بوسان قدم نِہ
پھر حجرۂ مبارک سے صحنِ حرم میں پائوں رکھیے، جو غلام آپ کے راستے کی مٹی کو چومتے ہیں ان کے سروں پر قدم رکھیے۔
تو ابرِ رحمتی! آن بہ کہ گاہی
کُنی برحالِ لب خشکان نگاہی
آپ ابر رحمت ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کبھی ان پر نگاہ کرم فرمایئے جن کے ہونٹ سوکھ گئے ہیں۔
چو ہولِ روزِ رستاخیز خیزد
بآتش آبروئی ما نریزد
قیامت کے دن کا جب خوف شروع ہوگا تو کہیں ہماری آبرو جہنم کی آگ کی نذر نہ ہوجائے۔
ایک دن اور ایک رات یہ اشعار زبان پر رواں رہے۔ دنیا کی آلائشوں اور تکاثر کی دوڑ میں کب سوچنے کی توفیق ہوئی کہ آپ ؐ کے احکام کیا ہیں اور آپ کی رضا کیا چاہتی ہے؟ فلپائن کے جزائر سے لے کر کشمیر کے پہاڑوں تک۔ بصرہ و بغداد کے تاریخی کوچوں سے لے کر فلسطین کے غلام آباد تک۔ سب خائب و خاسر ہیں اور پھر بھی ذاتِ والاؐ کے احکام سے مکمل روگردانی!! کاش صرف جھوٹ بولنا ہی چھوٹ جائے، کاش صرف وعدہ خلافی ہی سے تائب ہوجائیں! ؎
ہر اک محاذ پر لشکر تباہ اُمت کے
حضورؐ! ختم ہوں یہ دن سیاہ‘ اُمت کے
حضورؐ! آپ پہ قربان ہوں مرے ماں باپ
بدل بھی دیجیے شام و پگاہ اُمت کے
غلام جمع ہیں، میدان حشر ہے اظہارؔ
چھپے ہوئے ہیں کہاں کجکلاہ اُمت کے