آہ! نیلسن منڈیلا! ایک ناکام سیاست دان‘ ایک ناکام پارٹی ہیڈ‘ ایک ناکام صدر!
یہاں تک کہ بطور قیدی بھی ناکام!
آپ بطور سیاستدان اس کی ناکامی دیکھ لیجیے‘سفید فام اقلیت کے خلاف تحریک چلائی تو حالات کے مطابق زمینی حقائق کو خاطر میں نہ لایا۔ کامیابی تو یہ ہوتی کہ وہ رات کے اندھیرے میں سفید فام حکومت کے اعلیٰ عہدیداروں سے ملتا اور انہیں یقین دلاتا کہ میری قیمت ادا کر دیجیے اور جو خدمت چاہتے ہیں لے لیجیے۔ اُس کے بعد اپنی پارٹی کو اور اپنے پیروکاروں کو ایسا ناچ نچواتا کہ نسلی امتیاز تو کیا ختم ہوتا‘ اُسے ذاتی امتیاز ضرور حاصل ہو جاتا۔ پھر اس کا ڈیرہ ہوتا اور علاقے بھر کے جرائم پیشہ افراد! کوئی اس کا بال بیکا نہ کر سکتا۔ ’’آئین کے تناظر‘‘ کے حوالے سے ایسے ایسے نکات لاتا کہ سفید فام حکومت ایک نہیں کئی کمیٹیوں کی صدارت جھولی میں ڈال دیتی۔
یہ درست ہے کہ وہ جاگیردار تھا نہ صنعت کار لیکن آخر اور ماڈل بھی تو موجود ہیں۔ ایل پی جی کے لائسنس اپنے یا اپنی بیگم کے نام لیتا اور کروڑ پتی بن جاتا۔ بیٹی کو سفارت خانے میں اعلیٰ افسر لگوا لیتا۔ بھتیجے اور بھانجے کو تحصیل دار بنوا دیتا اور بیٹا اگر فوج میں تھا تو وہاں کے جنگی ماحول سے نکال کر سول سروس یا فارن سروس کے پُرامن ماحول میں براہ راست اعلیٰ منصب پر فائز کروا دیتا۔ بیٹے کی شادی پر جو کُنڈا بھی نہ لگا سکا‘ اُسے کامیاب سیاستدان کیسے تسلیم کیا جا سکتا ہے؟ ذرا اُس کے پس ماندگان سے اتنا ہی پوچھ لیجیے کہ اپوزیشن کے زمانے میں کتنے لوگوں کی سفارشیں کیں اور اہل امیدواروں کی حق تلفی کر کے کتنوں کو تعینات کرایا؟
رہی نیلسن منڈیلا کی کارکردگی بطور پارٹی ہیڈ‘ تو اس کی ناکامی میں کیا کلام ہے! یہ کیسا پارٹی ہیڈ تھا؟ کیا اس نے پارٹی اپنی بہنوں کے سپرد کی؟ کیا آج اس پارٹی کا سربراہ اس کا بیٹا یا بھائی ہے؟ کیا اس نے اپنے سمدھی‘ بھتیجے اور بھانجے کو پارٹی میں پُرکشش عہدے دلوائے؟ اپنے قبیلے ’’تھمبو‘‘ کے کتنے افراد کو پارٹی میں اعلیٰ مقام دلوایا؟ آج سیاست میں اس کی کسی بیٹی‘ پوتے‘ نواسے کا نام سننے میں نہیں آ رہا! اگر وہ پارٹی کا کامیاب سربراہ ہوتا تو آج حالات اس قدر حوصلہ شکن نہ ہوتے۔ اس کے خاندان کا پارٹی پر قبضہ ہوتا!
وہ 1994ء سے 1999ء تک پانچ سال جنوبی افریقہ کا صدر رہا۔ یہ عرصہ مکمل ناکامی کا عرصہ ہے۔ اس طوطا چشم شخص نے طویل قید کے دوران حقِ رفاقت ادا کرنے والوں کو یکسر بھلا دیا۔ جو ڈاکٹر علاج کرتا رہا‘ اسے وزیر بنایا نہ اس پولیس افسر کو تین ترقیاں اکٹھی دلوائیں جس نے گرمی کے موسم میں پولیس کی اس گاڑی میں ایئرکنڈیشنر لگوایا تھا جس میں سوار کرا کے اسے جیل سے عدالت لایا جاتا تھا۔ کسی مفرور ملزم کو بیرونِ ملک سے واپس منگوا کر اپنا سیکرٹری تک نہ لگایا۔ اپنے عہدۂ صدارت کے دوران ’’ریٹائرڈ صدر‘‘ کی مراعات تک میں اضافہ نہ کرایا۔ سب سے بڑی حماقت یہ کی کہ جب 1999ء میں صدارتی مدت پوری ہوئی تو دوسری ٹرم کے لیے صدارتی
الیکشن لڑنے ہی سے انکار کر دیا حالانکہ وہ چاہتا تو آسانی سے کم از کم تین بار اس عہدے کو کامیابی سے حاصل کر سکتا تھا۔ ہمیں تو یہ بھی شک بلکہ یقین ہے کہ سابق صدر کے طور پر اس نے جی او آر میں سرکاری رہائش کا مطالبہ بھی نہیں کیا ہو گا‘ نہ ہی ذاتی کوٹھی سے وہاں منتقل ہوا ہو گا؟
ایسے شخص کی معاشرے میں آخر کیا عزت ہو گی جو صدارت کے عہدے سے ریٹائر ہوا تو فارم ہائوس کا مالک تھا نہ لندن میں فلیٹ تھا‘ نہ ہی دبئی میں محل نہ نیویارک میں پینٹ ہائوس! پہننے کے لیے ایک دو پینٹیں تھیں تو اسی پر صابر و شاکر رہا! انا للّٰہ وانا الیہ راجعون!
سیاسی قیدی کے طور پر بھی اُس کا کردار متاثر نہیں کرتا! یہ کیسا سیاسی قیدی تھا جس کا اصل جرم لاتعداد افراد کو ناجائز طور پر ملازمتیں دینا نہیں تھا؟ کسی کی ٹانگ کے ساتھ بم بندھواتا‘ کچھ آف شور کمپنیاں کھول کر ’’فراہم کردہ‘‘ سرمایہ باہر بھجواتا‘ کچھ بڑے بڑے سودوں میں حصہ لیتا‘ کچھ سیاسی حریفوں کو غائب
کراتا‘ غرض کچھ کر کے جیل جاتا تو تب مانتے کہ ہاں سیاسی قیدی تھا! سیاسی قیدی اور وہ بھی صرف سیاسی جرم میں!! کم از کم ہم اہلِ پاکستان ایسی قید سے متاثر نہیں ہوتے۔
سنا ہے اس ناکام شخص کی آخری رسوم میں شرکت کے لیے پاکستان سے ایک اعلیٰ سطح کا وفد جنوبی افریقہ جائے گا۔ نہیں معلوم اس وفد کی سربراہی کس اعلیٰ شخصیت کے حصے میں آتی ہے۔ اس ضمن میں دو تجاویز معقول نظر آتی ہیں۔ ایک یہ کہ ا یسے افراد کو اس وفد میں شامل کیا جائے جنہیں ابھی تک جنوبی افریقہ دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا تاکہ وہ اس موقع پر وہاں کی سیر بھی کر لیں۔ دوسری تجویز یہ ہے کہ اخلاقی دیانت کو بروئے کار لاتے ہوئے وفد کا سربراہ وہاں اس حقیقت کی طرف ضرور اشارہ کرے کہ سیاست‘ لیڈر شپ‘ صدارت اور سیاسی قید کی جو اخلاقیات ہمارے ملک میں رائج ہیں‘ ان کی رُو سے آنجہانی مکمل طور پر ناکام رہے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو صریح منافقت ہو گی! اگر نیلسن منڈیلا کامیاب تھا تو ہمارے سیاسی رہنمائوں کی اکثریت اس قابل ہے کہ کم از کم ان کا منہ ضرور کالا کیا جائے۔ زیادہ سے زیادہ یہ رعایت دی جا سکتی ہے کہ منہ کالا کرنے کے بعد کے مراحل تکمیل تک نہ پہنچائے جائیں!