دونوں بھائی کم و بیش یکساں تعلیم یافتہ تھے۔ دنوں ایک ہی شہر میں رہتے تھے۔ دونوں کے گھر‘ گاڑیاں‘ سہولیات اور زندگی کے معیار مجموعی طور پر ایک جیسے تھے۔ دونوں کے عزیزو اقارب تقریباً وہی تھے۔ اس تمام ہم آہنگی کے باوجود دونوں کے بچوں میں زمین و آسمان کا فرق نکلا۔ ایک کی بیٹی نے اچھے نمبروں سے ایم اے کیا اور ان دنوں مقابلے کے امتحان میں قسمت آزمائی کا سوچ رہی ہے۔ ایک بیٹے نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور یورپ سے بھی ڈگری لی۔ دوسرا ملک کے اعلیٰ ترین تعلیمی ادارے میں داخلہ لینے کی تیاری کر رہا ہے۔ دوسرے بھائی کے بچوں میں سے صرف ایک بیٹی بی اے کر سکی۔ ایک بیٹا میٹرک سے آگے نہیں گیا۔ دوسرا دس جماعتیں بھی پاس نہ کر سکا۔ ایسے بچوں کا روزگار کے لیے پہلا چوائس موبائل فون کی دکان ہوتی ہے یا فوٹو سٹیٹ مشین والا ٹھِیا۔ ایک زمانے میں وڈیو کیسٹ کی دکان بھی اس سطح کے لڑکوں کی پسندیدہ منزل ہوا کرتی تھی۔
وہ کون سا عنصر تھا جو دونوں میں یکساں نہیں تھا۔ اسے کوئی اہمیت دے یا نہ دے‘ لیکن یہی عنصر ہے جو بہت بڑا عامل ہے۔ ایک کی بیوی نیم خواندہ تھی۔ قصباتی پس منظر اس پر مستزاد تھا۔ دوسرے کی بیوی اعلیٰ تعلیم یافتہ تھی اور شہر سے تھی۔ لیکن اگر اعلیٰ تعلیم یافتہ بیوی قصبے سے اور نیم خواندہ نیویارک سے بھی ہوتی تو بچوں کا مستقبل یہی رہتا! قصبے یا شہر سے ہونا اضافی عامل تو ہو سکتا ہے‘ بنیادی عامل نہیں ہو سکتا!
یہ ایک سو ایک فیصد سچا تذکرہ کرنے کی ضرورت آج کے اخبارات پڑھ کر محسوس ہوئی۔ تازہ ترین سروے کی رُو سے پاکستان میں شادی شدہ عورتوں میں سے ستاون فیصد ناخواندہ ہیں۔ مردوں میں یہ تناسب 29فیصد ہے۔ سروے نے اپنا طریق کار تاحال واضح نہیں کیا۔ چھٹی حِس بتاتی ہے کہ اس میں وزیرستان سمیت قبائلی علاقے شامل نہیں۔ غالباً شمالی علاقہ جات بھی سروے سے باہر ہی رہے ہوں گے۔ ایک مکمل اور ہر لحاظ سے درست سروے میں ناخواندہ (شادی شدہ) عورتوں کی تعداد ستر فیصد سے کم نہیں ہو سکتی۔ لیکن اس پہلو سے بحث کیے بغیر ہم ستاون فیصد ہی درست مان لیتے ہیں۔
یہ بات ذہن میں رکھیے کہ یہ ستاون فیصد شادی شدہ عورتیں نیم خواندہ نہیں‘ ناخواندہ ہیں یعنی مکمل طور پر ان پڑھ۔ دوسرے لفظوں میں ستاون فیصد مائیں ان پڑھ ہیں۔
مضمرات خوفناک ہیں۔ غور کیجیے‘ بات کہاں تک جاتی ہے۔ یہ لکھنے والا ایک ناخواندہ عورت کو جانتا ہے جو ایک بہت بڑے شہر میں اچھے خاصے بنگلے میں رہتی تھی۔ اس کا شوہر درمیانی درجے کا افسر تھا۔ اس نے اپنے بچے کو پیدائش کے بعد تین یا چار سال تک شوہر کی آمدنی سے خریدے ہوئے کپڑے نہ پہنائے۔ وہ اسے دوسرے گھروں سے مانگے تانگے کا لباس پہناتی تھی۔ اسے یقین تھا کہ بچے کی سلامتی کے لیے یہ ٹونا ضروری ہے۔ دنیا کی کوئی طاقت اسے اس یقین سے متزلزل نہیں کر سکتی تھی۔ ایک اور ناخواندہ بیوی کے میاں نے اپنا کیریئر چار مرلے کے گھر سے شروع کیا تھا۔ زمانے گزر گئے۔ میاں کی آمدنی کی سطح فلک کو چھونے لگی۔ بچے اپنے اپنے بزنس کے مالک ہو گئے لیکن وہ رہائش تبدیل نہیں کرنے دیتی تھی اس لیے کہ اسے یقین تھا یہ ساری ترقی چار مرلے کے اس گھر کی ’’برکت‘‘ سے تھی!
ناخواندہ ماں تعویذ فروش پیروں‘ نجومیوں اور عاملوں کا آسان ترین ہدف ہوتی ہے۔ اس کا بچہ بیمار ہوتا ہے تو وہ اس کے بازو پر دھاگہ باندھتی ہے۔ بہت تیر مارے تو کسی نیم حکیم یا Materia Medica کا اردو ترجمہ پڑھ لینے والے ہومیوپیتھ کے پاس لے جاتی ہے۔ شوہر منع کرے تو اس کی غیر حاضری میں بابا جی کے پاس دم کروانے جاتی ہے۔ یہ سمجھانا اسے آسان نہیں کہ ڈاکٹر کی تجویز کردہ دوا پانچ دن یا سات دن ضرور دینی ہے۔ بخار ٹوٹتے ہی وہ دوا دینا بند کر دیتی ہے۔ ایک ان پڑھ ماں شاید ہی قائل ہو سکے کہ چھ ماہ کے بچے کو نرم اور پھر بتدریج ٹھوس غذا دینا ضروری ہے۔ اس کا بس چلے تو وہ بچے کو دس پندرہ سال تک فیڈر میں دودھ دیتی رہے۔ اسے یہ تو معلوم ہوتا ہے کہ دودھ سے بھرے فیڈر کو کپڑے میں لپیٹنا ہے تاکہ نظر نہ لگ جائے لیکن اسے یہ نہیں معلوم ہوتا کہ فیڈر کے اوپر لگی ربڑ کی چوسنی مشکل سے صاف ہوتی ہے۔ یہ اکثر و بیشتر انفیکشن کا باعث بنتی ہے اور جیسے ہی بچہ پیالی یا گلاس سے براہ راست پی سکے‘ فیڈر سے جان چھڑا لینی چاہیے۔
مِنی سوٹا کے چھوٹے سے قصبے راچسٹر میں واقع میو کلینک دنیا کے بہترین ہسپتالوں میں شمار ہوتا ہے۔ وہیں ایک بڑے ڈاکٹر نے بتایا تھا کہ پہلے دو سال میں بچہ جو سیکھتا ہے‘ دیکھتا ہے‘ سنتا ہے اور سمجھتا ہے‘ وہ ساری زندگی اُس کے ساتھ رہتا ہے۔ ایک ان پڑھ عورت اپنے میاں‘ اپنے رشتہ داروں اور اپنی سہیلیوں سے جو گفتگو کرتی ہے‘ وہ کس قسم کی ہوتی ہوگی! جیسی بھی ہے‘ وہی بچے کے لیے سنگِ میل ہے۔ اس سنگِ میل پر جس منزل کا نام لکھا ہے‘ وہی اس بچے کے بخت کا عنوان ہے! سکول داخل ہونے سے پہلے بچہ ان پڑھ ماں سے کیا پڑھتا ہے۔ یہ ایک الگ سوال ہے۔ پھر جب بچہ سکول جانے لگتا ہے تو وہ بچے کے مسائل کو سمجھ سکتی ہے نہ اسے اس بات کا ادراک ہوتا ہے کہ سکول کے تقاضے کیا ہیں۔ اگر بچہ ہر روز‘ سکول جاتے وقت پیٹ کے درد کی شکایت کرتا ہے تو وہ کبھی بھی یہ نہیں سوچ سکتی کہ وہ سکول جانے سے گھبرا رہا ہے۔ اسے پڑھانے والے استاد سے شکایت ہے یا اُسے کوئی ہم جماعت بچہ پریشان کر رہا ہے۔
طالب علم ایسی ماں کو کبھی نہیں سمجھا سکتا کہ وہ اتنا ’’زیادہ‘‘ کیوں پڑھنا چاہتا ہے۔ وہ کہتی ہے تم نے چودہ جماعتیں پڑھ لی ہیں۔ اب نوکری کرو اور میری بھتیجی سے شادی کرو۔ بیٹے کے لیے ماں کو یہ سمجھانا کہ اس نے چارٹرڈ اکائونٹنسی کرنی ہے یا مقابلے کا امتحان دینا ہے یا بیرون ملک سے ایم بی اے کرنا ہے‘ پہاڑ کی چوٹی سر کرنے سے زیادہ مشکل ہے۔ جو ماحول بیٹے کو تعلیم کے مراحل طے کرنے میں درکار ہے‘ وہ اسے گھر میں کبھی میسر نہیں آ سکتا۔
ہم اکثر یہ فقرہ سنتے ہیں ’’لڑکی کو اتنا کیوں پڑھا رہے ہیں؟ اس نے کون سا نوکری کرنی ہے؟‘‘۔ گویا تعلیم کا حصول نوکری کرنے یا نہ کرنے سے مشروط ہے۔ تعلیم یافتہ ماں اور ان پڑھ ماں کے گھروں کے ماحول میں ایک اور ہزار کا فرق ہوگا۔ اسے الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں‘ فضا‘ ماحول‘ بات چیت کا طریقہ‘ سونے جاگنے کا انداز‘ ہر چیز مختلف ہوگی!
فن لینڈ‘ ناروے اور کچھ دیگر ملکوں میں خواتین کی خواندگی کا تناسب سو فیصد ہے۔ ڈنمارک‘ روس‘ امریکہ‘ آسٹریلیا‘ جاپان‘ برطانیہ‘ جرمنی‘ کینیڈا‘ فرانس‘ جرمنی‘ نیوزی لینڈ‘ ہالینڈ وغیرہ میں ننانوے فی صد ہے۔ حیرت انگیز حقیقت یہ ہے کہ جو مسلم ریاستیں تاجکستان‘ ترکمانستان‘ قازقستان‘ ازبکستان‘ آذربائیجان روس کے زیرِنگیں رہیں‘ ان میں یہ تناسب ننانوے یا اٹھانوے فیصد ہے۔ ملائیشیا میں 85 فیصد اور ترکی میں 80 فیصد ہے۔ افغانستان میں تیرہ فیصد ہے۔
آیئے! اپنے آپ سے پوچھتے ہیں ستاون فیصد ناخواندہ مائیں اس ملک کو کس قسم کے شہری دیں گی؟