بس چل رہی تھی۔ شکاری اپنی بہادری کے واقعات سنا رہا تھا۔ سننے والے دم بخود تھے۔ ’’میں رات بھر مچان پر بیٹھا رہا۔ جنگل سائیں سائیں کر رہا تھا۔ خوف نام کی کسی شے کو میں جانتا ہی نہیں‘ جیسے ہی شیر سامنے آیا‘ میں نے گولی چلا دی۔ ایک بار میں چیتے سے بھِڑ گیا۔ ایک دفعہ آدم خور بھیڑیے کے نزدیک پہنچ کر‘ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں اور تلوار سونت لی‘‘۔ بس کے مسافروں کو اس کی بہادری میں کوئی شک نہ رہا۔ اتنے میں شکاری کے ساتھ بیٹھے ہوئے مسافر نے خربوزہ کاٹنے کے لیے چاقو نکال کر کھولا۔ شکاری کا رنگ پیلا پڑ گیا۔ اس نے چاقو والے بھائی سے کہا‘ یار‘ ذرا اِسے دور ہی رکھنا‘ مجھے ڈر لگ رہا ہے‘‘۔
یہ کہانی شفیق الرحمن نے لکھی ہے جسے اس وقت لکھنے والے نے اپنے الفاظ میں دہرایا ہے۔
بھارت‘ امریکہ اور اسرائیل کو چھوڑ دیجیے‘ کشمیر کو بھی تھوڑی دیر کے لیے ایک طرف رکھ دیجیے‘ دہشت گردی کو بھی بھول جایئے‘ طالبان کیا کرتے ہیں‘ کیا نہیں کرتے‘ فوج اور سیاسی رہنما کس نتیجے پر پہنچتے ہیں‘ ایک صفحے پر ہیں یا ورق پر‘ درآمدات زیادہ ہیں یا برآمدات‘ ڈالر کدھر کا رُخ کر رہا ہے‘ یونیورسٹیاں کتنی ہیں‘ پی ایچ ڈی ہر سال کتنے پیدا ہو رہے ہیں۔ سرکاری سکولوں کی حالتِ زار کیا ہے‘ میٹرو کیسے بن رہی ہے؟ زیر زمین ریلوے کب بنے گی؟ حکومت کیا کر رہی ہے‘ ریاست کس حال میں ہے‘ سب باتیں‘ سارے خیال‘ ذہن سے جھٹک دیجیے۔ یہ سب دور کی باتیں ہیں۔
بے شرمی‘ بے غیرتی‘ غلاظت‘ بے حسی اور ذہنی کینسر کا جو مظاہرہ دو دن پیشتر اس بدقسمت لکھنے والے نے دیکھا‘ اسے سامنے رکھا جائے تو اس حقیقت کا ادراک ہوتا ہے کہ یہ قوم عزتِ نفس مکمل طور پر کھو چکی ہے۔ اسلام کے نام پر پاکستانی قوم ایک ایسا بدنما داغ ہے جس کی مثال پورے عالمِ اسلام میں مشکل سے ملے گی۔ اس لکھنے والے نے بیسیوں مسلمان ملک دیکھے ہیں۔ ترکی اور ملائیشیا کی کیا بات ہے۔ لیکن بخدا یہ منظر صومالیہ کے دارالحکومت موگادیشو میں بھی جو غربت اور پس ماندگی کے لحاظ سے ضرب المثل بن چکا ہے‘ نہیں دیکھا۔ پہلے دلوں پر مُہر لگتی ہے پھر قسمت پر مُہر ثبت ہوتی ہے۔ پاکستانیوں کے دلوں پر مُہر لگ چکی ہے۔ ان کے بخت کا ستارہ غروب ہو چکا ہے۔ ان کے مقدر کی پیشانی سکڑ گئی ہے۔ ان کی صورتیں بدل چکی ہیں۔ آسمان کا جو ٹکڑا ان کے سر پر تھا‘ سیاہ ہو چکا ہے۔ جس گڑھے میں یہ گر چکے ہیں وہاں سے دنیا کی کوئی طاقت انہیں نہیں نکال سکتی اس لیے کہ کائنات کی کوئی قوت اللہ کی سنت کو تبدیل نہیں کر سکتی۔
گاڑی نیشنل بینک آف پاکستان کی بڑی بلڈنگ کے سامنے کھڑی کی اور میلوڈی مارکیٹ کے اندر ایک کام سے گیا۔ اسلام کے نام پر وجود میں آنے والے اس ملک کے دارالحکومت سے جو لوگ واقف نہیں‘ ان کی اطلاع کے لیے یہ بتانا مناسب ہوگا کہ یہ جگہ اسلام آباد کا دل ہے۔ ایوان صدر‘ سپریم کورٹ‘ پارلیمنٹ‘ یہاں سے چند فرلانگ کے فاصلے پر ہیں۔ ایک طرف ہوٹل ہالی ڈے اِن ہے۔ دوسری طرف مشہور و معروف فوڈ پارک ہے‘ تیسری طرف مسجد ہے۔ فوڈ پارک کے درمیان کھڑے ہو کر مغرب کا رُخ کریں تو بائیں ہاتھ پر نیشنل بینک کی قوی ہیکل عمارت ہے۔ آپ مغرب کی طرف چلنا شروع کریں‘ جہاں نیشنل بینک کی عمارت ختم ہوتی ہے‘ بائیں طرف مڑ جائیں‘ اب آپ ایک وسیع و عریض احاطے میں ہیں‘ عرفِ عام میں اسے ہی میلوڈی مارکیٹ کہتے ہیں۔ اس احاطے کے تقریباً تین طرف ریستوران اور دکانیں ہیں۔
اس احاطے کو اگر دنیا کی غلیظ ترین جگہ قرار دیا جائے تو کوئی بڑے سے بڑا کھڑپینچ بھی اس اعلان کی تردید کرنے کا حوصلہ نہیں رکھے گا ہاں‘ بے شرمی کی اور بات ہے۔ ریستورانوں کے آگے کرسیاں اور میز دھرے ہیں۔ ہر کرسی اور ہر میز پر مٹی کی تہیں جمی ہیں۔ ہر دکان کے سامنے کوڑے کرکٹ کا ڈھیر ہے اور پانی کھڑا ہے۔ درختوں کے نیچے اور دیواروں کے ساتھ ساتھ‘ گلے سڑے پتوں کے انبار پڑے ہیں۔ ہر طرف ہڈیاں ہیں اور بچے کھچے کھانوں کے آثار‘ یہ دیکھیے‘ یہاں پلازے کی چھت سے پانی گر رہا ہے‘ یہ پانی بارش کا نہیں‘ گٹر سے یا غسل خانوں سے آ رہا ہے‘ جہاں غلیظ پانی گر رہا ہے‘ اس سے چند فٹ کے فاصلے پر مٹھائی‘ سموسے اور جلیبیاں بِک رہی ہیں۔ دکاندار اپنی اپنی دکانوں میں جہاں سارا دن بیٹھتے ہیں‘ یہ پانی اس کے مرکز میں ہے اور سب کے سامنے ہے‘ اس احاطے میں آپ کو ہر وہ شے افراط سے نظر آ رہی ہے جسے گند کہا جاتا ہے‘ اڑتے ہوئے شاپنگ بیگ‘ ردی کاغذ‘ پھلوں کے چھلکے‘ سوکھی روٹیوں کے ٹکڑے‘ بدبودار پتے اور ہر قسم کا کوڑا! گائوں سے باہر کھیت میں ایک ڈھیر ہوتا ہے۔ گائوں کے لوگ گھر کا کوڑا کرکٹ‘ باہر جا کر‘ اس ڈھیر پر پھینکتے ہیں۔ یہ ڈھیر پہاڑی کی طرح اونچا ہوتا جاتا ہے‘ غلاظت کھانے والے کیڑے یہیں پیدا ہوتے‘ یہیں زندگی گزارتے اور یہیں مرتے ہیں‘ یہ ڈھیر‘ آخر کار فصل کے لیے کھاد بن جاتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ اس مارکیٹ سے‘ جو واحد اسلامی ایٹمی طاقت کے دارالحکومت کے قلب میں واقع ہے‘ درجنوں ایسے ڈھیر نکل سکتے ہیں تو رمق بھر مبالغہ نہ ہوگا۔
مان لیا کہ حکومت نااہل ہے‘ ترقیاتی ادارے کا میونسپلٹی کا محکمہ ہڈحرام اور رشوت خور ہے‘ پبلک سیکٹر قبرستان بن چکا ہے‘ سرکاری ادارے وہ لاشے ہیں جو تدفین کے بغیر پڑے ہیں۔ مان لیا کہ ریاست کا وجود بے معنی ہو کر رہ گیا ہے‘ لیکن گوشت پوست کے بنے ہوئے وہ زندہ انسان جو اس مارکیٹ میں ہفتے کے چھ دن‘ دن کے چودہ گھنٹے گزارتے ہیں؟ اس احاطے میں دن بھر چلتے پھرتے ہیں؟ یہاں کھاتے پیتے ہیں؟ کیا یہ اس قدر بے حس ہیں کہ چند روپے فی کس جمع کر کے صفائی نہیں کرا سکتے؟ یہ سب مسلمان ہیں۔ نمازی ہیں۔ کچھ کی وضع قطع بھی متشرع ہے۔ ساتھ مسجد ہے۔ کیا انہیں معلوم نہیں کہ یہ لوگ نمازیں آدھے ایمان کے ساتھ ادا کر رہے ہیں؟ کیا انہیں معلوم نہیں کہ جس رسولؐ کے یہ نام لیوا ہیں‘ وہ اس قدر حساس تھے کہ پیاز کی بُو بھی برداشت نہیں فرماتے تھے؟
یہ لوگ قلاش بھی نہیں‘ یہ دن رات تجوریاں بھر رہے ہیں‘ زکوٰۃ دیتے ہیں‘ خیراتیں کرتے ہیں‘ دیگیں چڑھاتے ہیں لیکن یہ رہتے غلاظت میں ہیں‘ غلاظت میں کھاتے پیتے ہیں اور غلاظت میں وضو کرتے ہیں۔
یہ لوگ پوری قوم میں انوکھے اور اجنبی نہیں۔ یہ جس قوم کا حصہ ہیں‘ وہ ساری ہی ایسی ہے۔ یہ کس طرح ممکن ہے کہ اسلام آباد میں غلاظت ہے اور باقی ملک ’’صفائی نصف ایمان ہے‘‘ کا مکمل نمونہ ہے! اگر دارالحکومت کا یہ حال ہے تو دوسرے شہروں‘ قصبوں‘ قریوں‘ بستیوں کی حالت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ محاورہ ہے کہ کُتا بھی بیٹھنے سے پہلے دُم سے جگہ صاف کر لیتا ہے۔ ہائے افسوس! ہم اس سے بھی بدتر ہو چکے ہیں۔
یہ ہے اس قوم کا اصل چہرہ جو تکبر اور نخوت سے دنیا بھر کو کافر قرار دیتی ہے۔ جو ہر مذہبی مسئلے پر ایک دوسرے کا گلا گھونٹنے کے لیے تیار ہے۔ جو اپنے ملک کو اسلام کا قلعہ اور اپنے آپ کو اسلام کا ٹھیکیدار سمجھتی ہے۔
عمان میں گزرا ہوا ایک ہفتہ نہیں بھولتا۔ پورے شہر میں کاغذ کا ٹکڑا اور گھاس کا تنکا کسی گلی میں نظر نہیں آیا۔ طنجہ رباط اور فاس شیشے کی طرح صاف ہیں۔ دوحہ ہر وقت دُھلا دُھلایا لگتا ہے۔ کوالالمپور کی گئی گزری پچھواڑے کی گلیاں بھی اچھی بھلی ہیں۔
ہم پاکستانی اس شکاری کی طرح ہیں جو ہر وقت اپنی بہادری کے قصے سناتا ہے لیکن پھل کاٹنے والا چاقو دیکھ کر کانپنے لگتا ہے۔ ہم پوری دنیا پر فتوئوں کے آرے چلاتے ہیں لیکن اپنے ایمان کا ہوش نہیں۔ ہم اس عجیب و غریب شخص کی طرح ہیں جو سڑک کے کنارے زمین پر دراز تھا۔ اس کی چھاتی پر بیر پڑا تھا۔ سڑک سے گھڑ سوار گزرا تو اس نے اسے کہا ذرا گھوڑے سے اتر کر یہ بیر تو میرے منہ میں ڈالتے جائو‘ گھڑ سوار نے اُسے تعجب سے دیکھا اور آگے گزر گیا۔ لیٹے ہوئے شخص نے نفرت سے کہا:
’’کس قدر سست الوجود ہیں یہ بدبخت‘‘۔
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔