یہ کالم نگار اپنے اس موقف پر قائم ہے کہ ’’گلستانِ سعدی‘‘ ہر سکول اور ہر کالج میں‘ ہر نظامِ تعلیم کا‘ جزو لاینفک ہونی چاہیے۔ پرسوں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع کا اجلاس منعقد ہوا۔ روداد پڑھی تو سعدی یاد آ گئے ؎
تا مرد سخن نگفتہ باشد
عیب و ہنرش نہفتہ باشد
ہر بیشہ گماں مبر کہ خالی ست
شاید کہ پلنگ خفتہ باشد
انسان کے عیب و ہنر اس کے بات کرنے ہی سے کھلتے ہیں! جنگل میں دندناتے نہ پھریے‘ چیتا کسی بھی گوشے میں سویا ہوا مل سکتا ہے!
چیتے کو پلنگ کہتے ہیں۔ اب اگر کوئی اس کا مفہوم یہ سمجھے کہ پلنگ کے نیچے کوئی سویا ہوا ہے تو ایسی ہی باتیں کرے گا جیسی قائمہ کمیٹی کے معزز ارکان کر رہے تھے۔ جائے عبرت ہے!
کمیٹی کے چیئرمین جناب مشاہد حسین دفاعی بجٹ کی طرف اشارہ کر کے لاکھ کہتے رہیں کہ یہاں اب کوئی مقدس گائے نہیں‘ خلقِ خدا اسے تفنن طبع پر ہی محمول کرے گی! جناب مشاہد حسین آٹھ سال… پورے آٹھ سال مقدس گائے کی سرپرستی فرماتے رہے۔ ان کی جماعت آٹھ سالہ فوجی حکومت کی نقیب تھی اور نقیب کا کام ہی شاہی سواری کی آمد کی خبر دینا ہوتا ہے! لیکن تعجب جناب فرحت اللہ بابر کی گفتگو پر ہوا کہ بنیادی طور پر سول سروس سے ہیں اور ذاتی حوالے سے اس قدر نیک نام کہ پیپلز پارٹی کے مالکوں کے گفتنی اور ناگفتنی کارناموں کا جب بھی دفاع کرتے ہیں‘ عجیب سا لگتا ہے! فرماتے ہیں کہ دفاعی بجٹ اسٹیبلشمنٹ کے کہنے پر بنایا جاتا ہے جب کہ اس میں شفافیت کا فقدان ہے!!
دفاعی بجٹ کس کے کہنے پر بنایا جاتا ہے اور اس میں کتنی شفافیت ہے‘ اس پر بات ضرور ہونی چاہیے لیکن یہاں ماضی قریب کی ایک خبر یاد آ گئی ہے جو اتنی بے محل بھی نہیں! پہلے اسی کا ذکر ہو جائے!
تاریخ کے صفحات میں محفوظ اس حقیقت کا تعلق 1993-94ء سے ہے جب حکومت پیپلز پارٹی کی تھی اور وزارتِ عظمیٰ کا ہما بے نظیر بھٹو کے سر پر بیٹھا ہوا تھا! تیرہ گراں بہا قطعہ ہائے زمین چوٹی کے افسروں کو عطا کیے گئے۔ فیض رسانی کا یہ سلسلہ چیف جسٹس ریاض احمد خان تک گیا۔ صرف چیف جسٹس ریاض احمد خان تھے جنہوں نے پلاٹ واپس کردیا۔ بے نظیر بھٹو کے فوجی اے ڈی سی افسر بھی اس خوانِ یغما سے تمتع حاصل کرنے والوں میں تھے۔ اگست 2006ء کے آخری ہفتے میں پبلک اکائونٹس کمیٹی کا اجلاس ہوا۔ سب کمیٹی کی صدارت کرنل (ریٹائرڈ) غلام رسول ساہی کر رہے تھے۔ جب دارالحکومت کے ترقیاتی ادارہ نے ’’شفافیت‘‘ کی یہ پٹاری کھولی تو پبلک اکائونٹس کمیٹی کے اصحابِ قضا و قدر نے ترقیاتی ادارے کو حکم دیا کہ تفتیش کی جائے اور معاملہ نیب کو بھیجا جائے۔
معاملہ نیب کو گیا یا نہیں‘ یہ الگ بات ہے۔ 1997ء میں جناب نوازشریف وزیراعظم بنے تو انہوں نے اعلان کیا کہ ان پلاٹوں کی الاٹمنٹ منسوخ کردی جائے گی مگر عملاً ایسا نہ ہوا۔ قومی خزانے کو بے نظیر بھٹو کی اس فیاضی کی قیمت (اس زمانے کے) سولہ کروڑ روپے میں پڑی۔ یہ ہے اس ’’شفافیت‘‘ کی ایک ہلکی سی جھلک جس کے بارے میں پیپلز پارٹی کے نیک نام زعما‘ جو ہر عسکری معاملے میں آواز کی لہریں آسمان تک اٹھاتے ہیں‘ ایک لفظ نہیں کہتے۔
رہا یہ الزام کہ دفاعی بجٹ اسٹیبلشمنٹ کے کہنے پر بنایا جاتا ہے تو کیا ہی اچھا ہوتا اگر اس اجمال کی تفصیل بھی بتائی جاتی! اسٹیبلشمنٹ سے کیا مراد ہے؟ کیا یہ وہی اسٹیبلشمنٹ ہے جسے خوش کرنے کے لیے وزیراعظم بے نظیر بھٹو نے فیاضی کا مظاہرہ کیا تھا یا یہ کوئی اور پراسرار سلسلہ ہے؟
دفاعی بجٹ اسی طرح بنتا ہے جیسے سول بجٹ بنتا ہے۔ تمام متعلقہ ادارے اور شعبے اپنے اپنے تخمینے وزارتِ دفاع کو بھیجتے ہیں۔ پوری مسلح افواج میں اور افواج سے متعلقہ ہر ادارے میں وزارتِ خزانہ کے سینئر افسر ہمہ وقت بیٹھے ہوئے ہیں جو بجٹ کے تخمینوں کی کانٹ چھانٹ کرتے ہیں اور ضروری تکنیکی ترامیم کے بعد انہیں آگے روانہ کرتے ہیں۔ وزارتِ خزانہ کا ایک انتہائی سینئر نمائندہ وزارتِ دفاع کے اندر بیٹھا ہوا ہے۔ اس کے دس نمائندے جو سینئر سطح کے جوائنٹ سیکرٹری ہیں اور ’’مالی مشیر‘‘ (فنانشیل ایڈوائزر) کہلاتے ہیں‘ دفاع کے ہر گوشے میں چوکس بیٹھے ہیں۔ سول کے کسی بھی شعبے میں اتنا تفصیلی اور ہمہ گیر انتظام موجود نہیں۔ دفاع کا ایک بھی شعبہ ایسا نہیں جو وزارتِ خزانہ کے نمائندے کی منظوری کے بغیر تخمینہ منظور کرا سکتا ہے لیکن دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ بجٹ منظور ہونے کے بعد بھی کوئی پیسہ ان نمائندوں کی تحریری منظوری کے بغیر خرچ نہیں کیا جا سکتا! اب جو لوگ کہہ رہے ہیں کہ دفاعی بجٹ اسٹیبلشمنٹ کے کہنے پر بنایا جاتا ہے تو اگر اسٹیبلشمنٹ سے ان کی مراد وفاقی وزارتِ خزانہ ہے تو وزارتِ خزانہ کا تو فرضِ منصبی ہی یہی ہے! اور ا گر ان کی مراد کوئی اور ادارہ ہے تو الفاظ چبانے کے بجائے کھل کر بات کرنی چاہیے اور یہ بھی قوم کو بتا دینا چاہیے کہ بجٹ کی تیاری کے کس موقع پر یہ ’’اسٹیبلشمنٹ‘‘ مداخلت کرتی ہے؟ لفاظی اور حقیقت میں بُعد تو ہوتا ہی ہے لیکن بُعد المشرقین کی مثال پہلی بار دیکھنے میں آئی ہے۔
رہا دفاعی بجٹ کی شفافیت کا بکھیڑا تو یہاں بھی صورتِ حال اُس سے مکمل مختلف ہے جس کا رونا رویا جا رہا ہے۔ مسلح افواج اور مسلح افواج کے ذیلی اداروں میں اندرونی محاسبے (انٹرنل آڈٹ ’’Internal Audit‘‘) کا جو تفصیلی نظام کام کر رہا ہے‘ اس کا عشر عشیر بھی سول کے اداروں میں نہیں پایا جاتا۔ ایک سینئر اہلکار ’’کنٹرولر لوکل آڈٹ‘‘ کے نام سے کام کر رہا ہے۔ اس کے ایک صد سے زیادہ افسر رات دن دفاع کے شعبوں کے حساب کتاب کی جانچ پڑتال میں لگے ہوئے ہیں۔ ان سو یعنی ایک صد افسروں میں سے ہر ایک کے پاس کئی کئی آزمودہ کار اہلکاروں کی ٹیم ہے جو ساری زندگی یہی کام کرتے ہیں اور ان کی مہارت کا یہ عالم ہے کہ دفاع کے اخراجات کی ایک پائی بھی ان کی عقابی نظروں سے چھپانی مشکل ہے۔ اس نظام کا نتیجہ یہ ہے کہ اندرونی (انٹرنل) آڈٹ کے کہنے پر کروڑوں روپے قومی خزانے میں واپس جمع کرائے جاتے ہیں۔ صرف گزشتہ چار سال کے اعدادو شمار دیکھیے۔ 2010-11ء کے مالی سال کے دوران دفاع کے محکمے نے انچاس کروڑ روپے قومی خزانے میں واپس جمع کرائے۔ اس کے ایک سال بعد ستائیس کروڑ روپے جمع ہوئے۔ 2012-13ء میں ستر کروڑ روپے محکمہ دفاع نے خزانے میں جمع کرائے۔ موجودہ مالی سال کے دوران مارچ 2014ء تک ایک سو بارہ کروڑ روپے جمع کرائے جا چکے ہیں۔ انٹر آڈٹ کے اس شعبے کو محکمہ دفاع کا ہر حصہ از حد اہمیت دیتا ہے اور یہ شعبہ اپنی رپورٹس براہ راست سیکرٹری دفاع کو پیش کرتا ہے۔ یہاں یہ بتانا ازحد ضروری ہے کہ اس محاسبے اور وصولیوں کے اس سارے عمل کا آڈیٹر جنرل اور پبلک اکائونٹس کمیٹی سے کوئی سروکار نہیں۔ یہ سارا نظام محکمۂ دفاع کا اپنا اندرونی نظام ہے!!
قومی اسمبلی میں نیا بجٹ پیش ہوتا ہے تو وزیر خزانہ کی طرف سے بجٹ کی کتابوں کا ایک ایک ضخیم بھاری بھر کم گٹھڑ ہر معزز رکن کو دیا جاتا ہے۔ کتنے ارکان ان دستاویزات کو پڑھتے ہیں یا پڑھ سکتے ہیں؟ تقریر کی روانی میں اعتراض کرنے سے پہلے یہ تو سوچنا چاہیے کہ بات کرنے سے عیب و ہنر عیاں ہو جاتے ہیں!!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔