جو لوگ اس خوش فہمی میں ہیں کہ آزادی مارچ اور انقلاب مارچ تبدیلی لانے کے لیے کیے جا رہے ہیں وہ اس کہانی کو یاد کریں جس میں ایک کمبل پوش دیہاتی میلہ دیکھنے گیا تھا۔ میلے میں کمبل چوری ہو گیا۔ واپس آ کر اُس نے دہائی دی کہ میلے کا یہ سارا کھڑاک اُس کا کمبل چرانے کے لیے برپا کیا گیا تھا۔
عمران خان کا آزادی مارچ اور ڈاکٹر طاہرالقادری کا انقلاب مارچ بھی چند مخلصین کو پراگندہ خاطر کرنے کے لیے برپا کیا جا رہا ہے۔ یہ مخلصین وہ سیاسی مسافر ہیں جو بستر سروں پر رکھے‘ پوٹلیاں بغل میں دبائے‘ بقچیاں ہاتھوں میں اٹھائے نون لیگ کے خیمے میں ابھی ابھی آئے تھے۔ انہیں جیسے ہی معلوم ہوا کہ نون لیگ قوم کی بقا کے لیے اشد ضروری ہے‘ وہ ایک لمحہ کی تاخیر گوارا کیے بغیر اس میں شامل ہو گئے۔ ہمارے ایک دوست شہاب ہاشمی نے سوشل میڈیا کی دیوار پر پانچ تصویریں آویزاں کی ہیں۔ پہلی تصویر میں محترمہ ماروی میمن جنرل پرویز مشرف کے ساتھ کھڑی ہیں۔ جنرل صاحب بادامی رنگ کی پتلون اور نیلی قمیض زیب تن کیے‘ جیبوں میں ہاتھ ڈالے کھڑے ہیں۔ دوسری تصویر میں محترمہ ہنزہ کی ٹوپی پہنے آسمانی رنگ کے دوپٹے میں ملبوس چودھری شجاعت کے ساتھ کھڑی ہیں۔ تیسری تصویر میں سیاہ رنگ کا دوپٹہ اوڑھے چودھری پرویزالٰہی کے ساتھ بیٹھی ہیں۔ چوتھی تصویر میں عمران خان تقریر کر رہے ہیں اور ماروی میمن ان کے بائیں طرف سرخ دوپٹہ اوڑھے تشریف فرما ہیں۔ پانچویں تصویر میں میاں نوازشریف گفتگو کر رہے ہیں یا شاید تقریر… اور یہی محترم خاتون ان کے ساتھ بیٹھی مسکرا رہی ہیں۔ اب آپ خود انصاف کیجیے‘ اتنے خیمے جھانکنے کے بعد جب انہیں تھوڑی دیر کے لیے قرار نصیب ہوا تو عمران خان اور طاہرالقادری نے انہیں پھر آمادۂ سفر کرنے کے لیے آزادی مارچ اور انقلاب مارچ کا تماشا کھڑا کردیا۔ یہ سازش صرف ماروی میمن کے خلاف نہیں‘ زاہد حامد‘ عمر ایوب خان اور طارق عظیم جیسے زعماء بھی اس سازش کا شکار ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ اللہ کے بندو! یہ مردانِ کار‘ یہ مخلصین‘ تلاشِ بسیار کے بعد نون لیگ کے قافلے میں پہنچے ہی تھے کہ تم لوگ پھر انہیں خانہ بدوش کرنے آ گئے ہو۔ ان میں صرف زاہد حامد وہ خوش بخت ہیں جو جنرل پرویز مشرف کے دستِ شفقت سے محروم ہونے کے چند ثانیے بعد ہی شریف خاندان کی آغوشِ محبت میں آ گئے تھے۔ بقیہ حضرات کو تو کافی دیر صحرائوں میں بھٹکنا پڑا۔ مرزا غالب کچھ دن قیام کرنے ایک نواب صاحب کے ہاں مہمان ہوئے۔ نواب صاحب کا کہیں جانے کا پروگرام پہلے سے طے شدہ تھا۔ وہ پالکی میں بیٹھے اور مرزا صاحب کو کہا خدا کے حوالے‘ مرزا صاحب بولے کہ خدا نے آپ کے حوالے کیا تھا‘ آپ پھر خدا کے حوالے کیے جا رہے ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ شاہی خاندان ان مخلصین کو خدا حافظ کہے تو یہ بھی آگے سے غالبؔ والا شکوہ کریں! اور پھر سامان اٹھا کر نئی منزلوں کی تلاش میں چل پڑیں اور حافظؔ کا یہ شعر رو رو کر پڑھیں ؎
ما آزمودہ ایم درین شہر بختِ خویش
بیرون کشید باید ازین ورطہ رختِ خویش
’’ہم اس شہر میں اپنی قسمت آزما چکے۔ اب اس بھنور سے کشتی نکال لینی چاہیے‘‘
پانی پُرسکون ہو تو قیام میں مزا آتا ہے۔ تلاطم برپا ہو جائے تو ڈوبتے ہوئوں کو چھوڑو اور نئے پانیوں کی تلاش میں نکل پڑو۔ آج جنرل پرویز مشرف بھنور کے بیچ میں ہیں۔ طارق عظیم نظر آ رہے ہیں نہ زاہد حامد نہ ماروی میمن‘ نہ عمر ایوب خان اور نہ ہی دس بار وردی میں منتخب کرانے والے چودھری پرویزالٰہی! جنرل صاحب ہاتھ ملتے ہیں اور گنگناتے ہیں ؎
ملی ہیں آخرِ شب خلعتیں جنہیں اظہارؔ
وہی تو چند قبیلے مرے موافق تھے!
پیش منظر پر آزادی مارچ اور انقلاب مارچ یوں چھائے ہیں کہ ’’سائڈ شو‘‘ پر لوگ توجہ ہی نہیں دے رہے حالانکہ سائڈ شو ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔ جنرل ضیاء الحق کی 26 ویں برسی پر منعقد ہونے والی دعائیہ تقریب میں ان کے صاحبزادے نے کمال کا نکتہ بیان کیا ہے… ’’اگر عوام کی منتخب کردہ حکومت کو ختم اور وزیراعظم کو برطرف کیا گیا تو پھر آئندہ سیاسی جماعتیں الیکشن کی تیاریاں نہیں بلکہ عوامی جتھے تیار کیا کریں گی‘‘۔
انگریز ایسے موقع پر ایک خوبصورت فقرہ کہتے ہیں: Look! who is talking!۔ یعنی سبحان اللہ! یہ کہہ کون رہا ہے؟ جیسے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت تو منتخب کردہ تھی ہی نہیں! ہائے! سیاسی مسافرت! ہائے سیاسی غربت! یاد رہے کہ غریب‘ بے وطن کو کہتے ہیں۔ اس سے مراد مالی غربت نہیں۔ اسی لیے مسافر کو غریبِ شہر بھی کہتے ہیں۔ یہ بھی کہتے ہیں کہ ع ہائے کیا چیز غریب الوطنی ہوتی ہے! یوں بھی کہا گیا ہے کہ ؎
دور تک یادِ وطن آئی تھی سمجھانے کو
ہم نے جب وادیٔ غربت میں قدم رکھا تھا
یہ وضاحت اس لیے کی کہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ ہمارے منہ میں خاک! ہم جنرل صاحب کے صاحبزادے کو غریب‘ مالی حوالے سے کہہ رہے ہیں۔ ہماری مراد تو سیاسی مسافرت ہے! شریف برادران کو جنرل پرویز مشرف نے عہدِ حاضر کا شہنشاہِ ہمایوں بنایا تو ضیاء الحق کے صاحبزادے بیرم خان نہ بنے۔ انہوں نے اُن تورانی سرداروں کی پیروی کی جو شیر شاہ سوری سے آ ملے تھے۔ تقریباً ایک عشرہ جنرل پرویز مشرف کی مصاحبت میں گزرا۔ بیچ میں پیپلز پارٹی کا زمانہ آن پڑا۔ اب خدا خدا کر کے یاد آیا کہ بڑے میاں صاحب کو تو والدِ محترم نے اپنی زندگی لگ جانے کی دعا دی تھی۔ مراجعت ہوگئی۔ ابھی دم بھی نہ لیا تھا کہ یہ مارچ شروع ہو گئے۔ اب ’’عوام کی منتخب کردہ حکومت‘‘ کی حفاظت پر کمر نہ کسیں تو اور چارہ بھی کیا ہے! ع
جانا پڑا رقیب کے در پر ہزار بار
محمد حسین آزاد نے غالباً ذوق کے بارے میں آبِ حیات میں لکھا ہے کہ جس ڈیوڑھی کے سامنے ہاتھی جھومتے تھے‘ وہاں خاک اُڑ رہی تھی!
یہاں نوبت بجتی تھی‘ یہاں ہاتھی جھومتے تھے
دل ہے اب اُجڑا دروازہ‘ یہاں کوئی نہیں
جنرل ضیاء الحق مرحوم کی برسی زمانے نے وہ بھی دیکھی ہے کہ سینکڑوں بسوں کے قافلے منزلوں پر منزلیں مارتے آتے تھے۔ فیصل مسجد کے اردگرد انسانی سروں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر ہوتا تھا۔ میاں نوازشریف موجود ہوتے تھے۔ وہ صحافی بھی‘ بلکہ صحافیوں کا وہ گروہ بھی اشکبار آنکھوں کے ساتھ حاضر ہوتا تھا جس نے ضیائی دور میں آنکھوں کو خوب خوب ٹھنڈا کیا تھا۔ اب وہ دن آ گیا ہے کہ پریس لکھتا ہے… ’’اس موقع پر مختلف سیکٹروں سے آئے ہوئے مسلم لیگ (ض) اور ضیا فائونڈیشن کے عہدیداران کی بھی بڑی تعداد موجود تھی‘‘۔
کیا بے ثباتی ہے اور گردشِ زمانہ کی کیا بے رحمی ہے۔ وقت کی چکی پیستی جاتی ہے۔ کسی کو چھوڑتی نہیں۔ بھٹو صاحب نے کہا تھا میری کرسی بہت مضبوط ہے اور کرسی الٹ گئی۔ پھر وزارتِ خزانہ میں ایک اجلاس میں ضیاء الحق صاحب نے کہا میرا ابھی جانے کا کوئی ارادہ نہیں! اور چلے گئے۔ کاش! یہ نکتہ وہ شاہی خاندان بھی سمجھ جائے جس کے بارے میں ڈاکٹر بابر اعوان نے روزنامہ دنیا کے مطابق‘ کل پارلیمنٹ ہائوس کے باہر پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ… ’’ایک ہی خاندان کے 84 افراد سرکاری عہدوں پر فائز ہیں!‘‘۔ حبیب جالب کی انقلابی شاعری کے ساتھ اگر خواجہ حیدر علی آتش کے عبرت آموز اشعار بھی انگلی لہرا کر ترنم سے پڑھ لیے جائیں تو کیا حرج ہے ؎
زمینِ چمن گُل کھلاتی ہے کیا کیا
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے
نہ گورِ سکندر نہ ہے قبرِ دارا
مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔