میڈیکل کی اعلیٰ تعلیم برطانیہ سے حاصل کرنے کے بعد میں ستمبر 1989ء میں پاکستان واپس آ گیا۔ میرے والد کی خواہش تھی کہ میں اپنے ملک میں کام کروں۔
جن ڈاکٹروں کے ساتھ میرا مقابلہ تھا، انہیں ایک سیاسی جماعت کی تائید حاصل تھی۔ ایک کا پبلک سروس کمیشن سے بھی رابطہ تھا۔ 1989ء سے لے کر 1994ء تک کوشش کرتا رہا۔ کرتا رہا۔ کرتا رہا۔ لیکن ملازمت نہ ملی۔
نیفرآلوجی میں، اس صوبے میں میں پہلا ڈاکٹر تھا جو اس وقت ٹرانسپلانٹ یعنی پیوند کاری کی تربیت رکھتا تھا۔ تھک ہار کر برطانیہ واپس آ گیا۔ ان کافروں نے مجھے فوراً ملازمت دے دی۔ اب میں اس ’’دارالکفر‘‘ ہی میں ریٹائرمنٹ کے قریب ہوں۔ کیا پارلیمنٹ میں تقریریں کرنے والے بڑے لوگ بتائیں گے کہ میرٹ کو کیوں قتل کیا جا رہا ہے؟ اگر ہم نے پارلیمنٹ کے ساتھ وہ سلوک نہ کیا جو ایرانیوں نے کیا تھا تو یہ لوگ بار بار ایوان میں واپس آتے رہیں گے۔ اور میری طرح کے غریبوں کو مسافر بنا کر بیرون ملک دھکیلتے رہیں گے۔ آج میرے پاس ہر وہ چیز ہے جس کی ایک کامیاب انسان خواہش کرسکتا ہے۔ ایک ایک پائونڈ حلال کا ہے۔ ڈر خوف کوئی نہیں۔ پانچ منٹ کی ڈرائیوپر مسجد ہے۔ سکول کالج بہترین ہیں۔ لیکن میں ہر ویک اینڈ پر اپنے ملک‘ اپنی مٹی ‘اپنے لوگوں کی یاد میں بلک بلک کر روتا ہوں۔ میری طرح اس ہسپتال میں کچھ اور پاکستانی بھی ہیں۔ ہم کہاں جائیں؟ کس سے شکایت کریں؟
یہ خط اس کالم (اٹھو۔ خدا کیلئے اٹھو) کے ردعمل میں موصول ہوا جس میں ذکر کیا گیا تھا کہ بھارت میں لاکھوں تارکین وطن واپس آ رہے ہیں اور ملازمتیں حاصل کر رہے ہیں۔ ان ڈاکٹر صاحب نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ ان کا اصل نام نہ لکھا جائے۔ ان کے شہر کا نام بھی نہیں لکھا جا رہا۔ لیکن بہت سی ای میل ایسی موصول ہوئیں جنہوں نے اپنے نام اور مکمل ایڈریس ارسال کیے۔ اکثر نے کہا کہ ان کا احوال اہل وطن کو بتایا جائے۔
فرینکفرٹ (برلن سٹراس) سے عدنان اصغر بتاتے ہیں کہ وہ یورپین سنٹرل بینک میں برطانیہ کی نمائندگی کر رہے ہیں اور چار ہزار افراد میں واحد پاکستانی ہیں۔ پاکستانیوں نے برطانیہ میں ترقی کی ہے لیکن یہاں یورپ (مین لینڈ) میں ہر ادارے میں بھارتی تارکین وطن چھائے ہوئے ہیں۔ یہ بھارتی آہستہ آہستہ واپس بھارت جا رہے ہیں، لیکن کیا پاکستانی پارلیمنٹ میں بیٹھے ہوئے بڑے لوگوں کو معلوم ہے کہ پاکستانی وطن واپس جانے سے کترا رہے ہیں؟ بچوں کو کچھ دنوں کیلئے بھی بھیجنے میں تامل کرنے لگے ہیں۔ وطن میں اپنی زمینیں اور مکان فروخت کر رہے ہیں۔ قربانی اور زکوٰۃ کی رقم بھی نہیں بھیج رہے!
رانا نعیم اختر نے بہائوالدین زکریا یونیورسٹی سے ایم کام کیا۔ ملازمت نہ ملی۔ اب ریاض میں ہیں۔ ’’سپلائی چین مینجمنٹ‘‘ کے شعبے میں امریکہ سے تربیت حاصل کی۔ ارادہ تھا کہ وطن واپس جائیں گے لیکن پارلیمنٹ میں بیٹھے ہوئے اصحاب کی تقریروں میں مسائل کا ذکر ڈھونڈتے رہے۔ کسی نے کرپشن کا ذکر کیا نہ عام آدمی کی حالت زار کا۔ پوچھتے ہیں کس برتے پر واپس آئیں؟ ’’ ہمارے ماں باپ بہن بھائی احباب ہمیں وطن میں یاد کرتے رہیں گے۔ ہم یہاں پردیس میں تڑپتے رہیں گے اور آخر میں وہی کریں گے جس کا ذکر آپ نے کالم میں کیا۔ جا کر قبروں سے لپٹ کر روئیں گے اور پھر واپس ایئرپورٹ کی طرف چل پڑیں گے‘‘۔
77 سالہ راشد حسین ٹیکساس سے لکھتے ہیں کہ خون چوسنے والی جونکوں اور اپنے رشتہ داروں کو وسائل کے اوپر مارِسرِگنج بنا کر بٹھانے والوں کا کوئی علاج نہیں سوائے اس کے کہ کرپشن کے مجرموں کو سمری عدالتوں کے ذریعے سخت ترین سزائیں دی جائیں۔ میرٹ قتل کرکے نااہلوں کو ملازمت دینے والے شخص کو تیس سالہ قید کی سزا دی جائے۔ ذخیرہ اندوزی اور ملاوٹ کرنے والوں کو پھانسی پر لٹکایا جائے۔ ٹیکس چوروں، زمین ہڑپ کرنے والوں اور مافیا بنانے والوں کو بیس بیس سال کیلئے جیل میں پھینکا جائے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو نہ صرف یہ کہ بیرون ملک سے کوئی نہیں واپس آئے گا‘ ملک کے اندرکا ٹیلنٹ بھی باہر چلا جائے گا اور ملک میں صرف وہ کچرا رہ جائے گا جو یا تو مجرموں پر مشتمل ہوگا یا مجرموں کی پشت پناہی کرنے والے بڑے مجرموں پر!
سعودی عرب کے شہر حائل کے جنرل ہسپتال میں کام کرنے والے ڈاکٹر احسان کہتے ہیں کہ وہ اور ان کے کئی پروفیشنل ساتھی واپس آنا چاہتے ہیں اور ایک منظم طریق پر ملک کو ترقی کی شاہراہ پر ڈالنا چاہتے ہیں۔ لیکن میرٹ کشی، اقرباء پروری اور سفارش کے کلچر کی وجہ سے خوفزدہ ہیں اور واپسی کی ہمت دم توڑ جاتی ہے۔
سال کا اکثر حصہ برف تلے دبے رہنے والی امریکی ریاست وسکانسن سے حسان خان رونا روتے ہیں کہ اس دورافتادہ ویران دیار میں ہم وطن کو یاد کرکے آہیں بھرتے رہتے ہیں اور واپسی کے منصوبے باندھتے رہتے ہیںلیکن وہ ڈاکٹر اور انجینئر جو ملک کے اندر عجیب و غریب صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں ہمیں خبردار کرتے ہیں اور خود ملک چھوڑنا چاہتے ہیں۔
وقاص حسین نے 1998ء میں ’’ٹریول اینڈ ٹور آپریٹر‘‘ کا کاروبار شروع کیا۔ لیکن یہ ناکامی کا آغاز تھا۔ لائسنس لینے کیلئے ٹورازم ڈیپارٹمنٹ (محکمہ سیاحت) کو رشوت دینا پڑی۔ اپنے کلائنٹس کو جہاز میںعمرے کی نشستیں دلوانے کیلئے پی آئی اے کو رشوت دینا پڑتی تھی۔ پھر بزنس ختم کرنے کا فیصلہ کیا تو ختم کرنے کیلئے بھی پاپڑ بیلنے پڑے۔ ان کا خیال ہے کہ پاکستانی معاشرے میں وہی کامیاب ہوسکتا ہے جو کرپشن کا ایجنٹ بن جائے۔ میرٹ کے قتل کو قبول کرلے اور بدعنوانی کے ساتھ سمجھوتہ کرلے۔ محمد علی بخاری کا موقف ہے کہ جس ملک میں منتخب نمائندے پولٹری، چینی اور گندم کے نرخ طے کریں، وہاں کس طرح رہا جا سکتا ہے؟ بیگم منعم بتاتی ہیں کہ ان کے شوہر اور ان کے دوستوں نے جو سب بیرون ملک انجینئر ہیں اور تیس سال ایئرپورٹوں اور پانی، بجلی اور ٹیلی کمیونی کیشنز کے شعبوں میں کام کر رہے ہیں، کوشش کی کہ اپنے ملک میں رضاکارانہ بنیادوں پر ترقیاتی منصوبے چلائیں۔ صرف ویسٹ مینجمنٹ کے میدان میں ملک کروڑوںکما سکتا ہے لیکن ان لوگوں کی تجاویز رد کردی گئیں۔ دیانت کسی کو مطلوب ہی نہیں۔
یہ ہیں ردعمل کے چند نمونے۔ کیا ہمارے ارکان پارلیمنٹ ان لوگوں کا سامنا کرسکتے ہیں؟ یہ سیاستدان جب بیرون ملک جاتے ہیں تو صرف ان گنے چنے تارکین وطن سے ملتے ہیں جو نام نہاد سیاسی پارٹیوں کے عہدیدار بنے پھرتے ہیں اور ملک میں بیٹھے ہوئے رشتہ داروں کی سفارشیں کرتے ہیں۔ ان سیاستدانوں کی فکر میں اتنی گہرائی ہی نہیں کہ پروفیشنل پاکستانیوں سے ان کے درددل کی داستانیں سن سکیں۔ ان کے وژن کی انتہا یہ ہے کہ خورشید شاہ صاحب کو میاں نواز شریف کا پی اے کیوں کہا گیا؟ ان کے عزائم میں ملک کی ترقی کا واحد منصوبہ یہ ہے کہ یہ اتنے لاکھ آدمی دھرنے والوں کو شکست دینے کیلئے جمع کر سکتے ہیں۔ ٹیلی ویژن پر دیکھ کر ہنسی آتی ہے کہ عوامی نمائندوںکی اکثریت وزیراعظم سے ہاتھ ملاتے وقت کس طرح مجسم فدوی بن جاتی ہے۔ ان میں ایک بھی ایسا بہادر نہیں جو اٹھ کر کہہ سکے کہ چوراسی رشتہ داروں کو کلیدی مناصب سے ہٹائیے ورنہ جس نے یہ الزام لگایا ہے اس کے خلاف عدالت میں جائیے۔
رہا مسئلہ زرعی اصلاحات کا ، نظام تعلیم میں تبدیلی کا، ٹیکس پورا دینے کا اور کرپشن‘ اقرباء پروری اور سفارش کے خاتمے کا، تو معزز ارکان پارلیمنٹ اتنے سادہ لوح بھی نہیں کہ اپنے پیروں پرخود کلہاڑی ماریں۔ چنانچہ وطن کی یاد میں سلگتے تڑپتے تارکین وطن کو مشورہ ہے کہ فی الحال اپنے باقی اعزہ و اقارب کو بھی باہر بلالیں!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔