گاڑی روک دیجیے۔ کیا آپ دیکھ نہیں رہے کہ سامنے بھیڑوں اور بکریوں کا ریوڑ چلا آ رہا ہے۔ کچھ بھیڑ بکریاں سڑک کے اوپر چل رہی ہیں۔ کچھ سڑک کے دونوں طرف کچے پر پھیلی ہوئی ہیں۔ کچھ اِردگرد کے کھیتوں میں ہیں۔
آپ نے گاڑی روک دی۔ اب آپ کی نظریں ڈھونڈ رہی ہیں کہ ان کا گڈریا کہاں ہے؟ آپ سامنے‘ دائیں بائیں‘ ہر طرف دیکھتے ہیں‘ لیکن کوئی آدم‘ آدم زاد اس ریوڑ کے ساتھ نہیں دکھائی دے رہا۔ آپ زیر لب بڑبڑاتے ہیں اور لاوارث بھیڑ بکریوں کے درمیان سے گاڑی گزارتے‘ بچتے بچاتے اپنی منزل کی طرف چل پڑتے ہیں۔
کرۂ ارض پر بکھرے ہوئے پونے دو ارب مسلمانوں کی حیثیت بھیڑ بکریوں کے اِس لاوارث گلّے سے زیادہ نہیں! ان کا کوئی نمائندہ ہے نہ رہنما!
اب یہ طے ہے کہ مغرب سے مکالمہ کرنا ہوگا۔ بندوق کی گولی‘ تلوار کی دھار‘ خودکش جیٹ‘ بم کا دھماکہ‘ اسلام اور پیغمبرِ اسلامؐ کی توہین نہیں روک سکتے۔ دو مسلمانوں نے فرانس میں گولی چلا کر دیکھ لی۔ اس کے بعد زیادہ سے زیادہ جریدے گستاخانہ خاکہ شائع کر رہے ہیں۔ جو اخبار ساٹھ ہزار کی تعداد میں چھپتا تھا‘ تیس لاکھ چھپ رہا ہے۔ جو ایک زبان میں نکلتا تھا‘ چھ زبانوں میں نکل رہا ہے۔ اگر اس پر بھی کوئی مسلمان یہ سمجھتا ہے کہ بندوق کی گولی توہینِ رسالت کو روک دے گی تو وہ حشر کے دن رسالت مآبﷺ کے سامنے اپنا انجام سوچ لے۔
مکالمہ‘ مذاکرات‘ گفت و شنید‘ ترغیب‘ بحث… اس کے علاوہ کوئی حل ہے نہ چارہ۔ مغرب کے حکمرانوں سے گفت و شنید۔ مغرب کے دانشوروں سے مکالمہ‘ مغرب کے میڈیا سے بات چیت۔ اعتماد کے ساتھ۔ علم کے ساتھ۔ متانت کے ساتھ!
مگر یہ کام کون کرے گا؟ او آئی سی؟ او آئی سی (OIC) کس چڑیا کا نام ہے؟ یہ کس سیارے میں رہتی ہے؟ مہینوں پر مہینے‘ سالوں پر سال گزر جاتے ہیں‘ اس کا نام ہی سننے میں نہیں آتا۔ گزشتہ ایک برس کے اخبارات نکال کر دیکھ لیجیے‘ گزشتہ پانچ برس کے اخبارات خوردبین سے دیکھ لیجیے‘ کہیں اس کے کسی کارنامے کا کوئی ذکر ہے؟ 1969ء میں اس کی تشکیل ہوئی۔ 1990ء میں قاہرہ میں اس نے ’’اسلام میں انسانی حقوق کا اعلامیہ‘‘ جاری کیا۔ ہاہاہا! انسانی حقوق! او آئی سی کے ہیڈ کوارٹر سے کچھ فاصلے پر رائف بدوی کو ایک ہزار کوڑے مارے جا رہے ہیں۔ ہر ہفتے پچاس کوڑے! او آئی سی چُوں بھی نہیں کر سکتی نہ کرے گی! او آئی سی کی حیثیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ جو صاحب پاکستان سے اس کے سیکرٹری جنرل رہے‘ ان کی اپنے ملک میں کیا شہرت ہے اور خلقِ خدا ان کے بارے میں کیا رائے رکھتی ہے؟ تشکیل سے لے کر اب تک او آئی سی کا واحد قابلِ ذکر کارنامہ یہ ہے کہ 2011ء میں اس نے اپنا نام ’’آرگنائزیشن آف اسلامک کانفرنس‘‘ سے تبدیل کر کے ’’آرگنائزیشن آف اسلامک کوآپریشن‘‘ رکھ دیا! 2005ء میں جب ڈنمارک میں گستاخانہ خاکے چھپے تو او آئی سی ممیائی۔ اس میں اتنی ہمت نہ تھی کہ مغربی ملکوں کے حکمرانوں سے بات کرتی‘ پوپ کو درمیان میں ڈالتی یا مغربی میڈیا میں اپنا نقطہ نظر نمایاں انداز میں نشر کراتی! عراق نے کویت پر حملہ کیا۔ ایران عراق میں جنگ رہی‘ افغانستان اور پاکستان پر قیامت گزر گئی‘ دہشت گردی نے شام سے لے کر پاکستان تک امن و سلامتی کی جڑیں اکھیڑ کر رکھ دی ہیں‘ او آئی سی کا اس سارے منظرنامے میں کوئی نام ہے نہ کام! یہ بے جان تنظیم مغرب سے کیا گفت و شنید کرے گی!
تو پھر کیا مسلمانوں کے حکمران مغرب سے گفت و شنید کریں گے؟ کون سے حکمران؟ یہ حکمران اگر کچھ کر سکتے تو مسلمان گروہوں کی صورت میں پوٹلیاں سر پر رکھے‘ بستر کاندھوں پر اٹھائے‘ اپنے ملکوں سے نکل کر مغربی ملکوں میں نہ جا رہے ہوتے۔ یہ حکمران تو اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کو اپنے ملک میں دیکھ ہی نہیں سکتے اس لیے کہ ان کے اپنے لخت ہائے جگر اقتدار کی ٹیک نہ ہو تو دھڑام سے نیچے گر جائیں۔ چنانچہ حسد اور انتقام کی آگ جو ہر قابل کو ملک سے باہر دھکیل دیتی ہے۔ آپ مسلم حکمرانوں کی ذہنیت اور آئی کیو کا اندازہ اس سے لگایئے کہ عالمِ اسلام کی واحد ایٹمی طاقت کا حکمران اپنے دورِ اقتدار کے محض ایک برس میں اپنی دولت ساٹھ کروڑ روپے بڑھا لیتا ہے اور اس پر اسے کچھ جھجک یا ندامت بھی نہیں۔ جو حکمران ڈبلیو ٹی او (ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن) جیسے حساس عالمی ادارے میں ایک ایسے شخص کو سفیر بنا کر بھیج سکتے ہیں جو اس شعبے کی الف بے تک نہیں جانتا اور جس کی واحد کوالی فکیشن شاہی خاندان کے ساتھ ذاتی تابعداری ہے‘ وہ حکمران مغرب کے ساتھ کیا مکالمہ کریں گے۔ جس رسولؐ کا حکم ہے کہ امانتیں فقط ان کے سپرد کرو جو ان کے اہل ہوں‘ اُس رسولؐ کے حکم کی نافرمانی کر کے وہ توہینِ رسالت کے آگے بند کیسے باندھ سکتے ہیں؟
اٹلانٹک سے لے کر جزائر شرق الہند تک۔ مسلمان حکمرانوں میں کوئی ایسی شخصیت نہیں جو اپنے ہم منصبوں کو ساتھ لے اور مغربی طاقتوں کو کانفرنس ٹیبل پر اپنے سامنے بٹھائے۔ ان کی آنکھوں میں حرص اور خودغرضی کا ایسا موتیا اترا ہوا ہے کہ یہ اپنے محلات‘ اپنے کارخانوں اور اپنے خاندانوں سے آگے کچھ دیکھنے سے معذور ہیں۔
تو پھر کیا ہمارے مذہبی رہنما یہ کام کریں گے؟ کون سے مذہبی رہنما؟ جنہوں نے اپنا ایک ایک صاحبزادہ امریکہ میں چندہ جمع کرنے کے لیے بٹھایا ہوا ہے؟ جو امریکی سفیر کے سامنے ہاتھ پھیلاتے ہیں کہ اس پر وزارتِ عظمیٰ کا سکہ رکھ دو! جو ایک دن ماتم کرتے ہیں کہ ’’اسلام پسندوں‘‘ کو پھانسیاں دی جا رہی ہیں اور دوسرے دن اس تعلیمی ادارے کا دورہ کرنے چل پڑتے ہیں جہاں ’’اسلام پسندوں‘‘ نے ڈیڑھ سو بچوں کو بھون کر رکھ دیا اور اساتذہ کو زندہ جلا دیا!
کیا یہ مذہبی رہنما اور سکالر اہلِ مغرب سے مکالمہ کریں گے جو گاڑی ڈرائیور کرنے کے ’’جرم‘‘ میں خواتین کے لیے کوڑوں کی سزا تجویز کرتے ہیں؟ جو ابھی ان مخمصوں میں ہیں کہ نیل پالش لگانے والی کی اور ننگے سر والے کی نماز ہوتی ہے یا نہیں؟ جو اپنے گھروں کے اخراجات اُس رقم سے پورے کرتے ہیں جو کسی اور مقصد کے لیے اکٹھی کی جاتی ہے۔ جن کی اکثریت انگریزی‘ فرانسیسی‘ ہسپانوی تو کیا‘ عربی میں بھی مافی الضمیر ادا کرنے سے قاصر ہے؟
آج اگر کوئی شاہ فیصل زندہ ہوتا‘ کوئی مہاتیر حکومت میں ہوتا تو صورت حال مختلف ہوتی۔ اگر کوئی سرسید ہوتا تو اپنا گھر بار بیچ کر لندن یا نیویارک جا بیٹھتا اور اس وقت تک نہ اٹھتا جب تک کہ اپنی بات منوا نہ لیتا۔ آج اگر کوئی اقبال ہوتا تو ایک بار پھر مشرق اور مغرب کے درمیان مکالمہ کا آغاز کرتا۔ مگر افسوس! صد افسوس! ہمارے حکمران کوتاہ نظر‘ ہمارے مذہبی رہنما جاہ طلب اور ہمارے دانش ور کھوکھلے اور اُتھلے ہیں! اس اندھیرے میں روشنی کی صرف ایک مدھم لکیر نظر آ رہی ہے۔ صرف ایک چراغ جل رہا ہے جو لَو دے رہا ہے۔ مغرب سے مکالمہ صرف وہ مسلمان اہلِ علم کر سکتے ہیں جو مغربی ممالک کی یونیورسٹیوں میں پڑھا رہے ہیں۔ یہ مغرب کی نفسیات کو سمجھتے ہیں اور اس اندازِ گفتگو سے آگاہ ہیں جو وہاں نتیجہ خیز ثابت ہو سکتا ہے۔ یہ سکالر‘ یہ پروفیسر مغربی حکمرانوں سے بھی بات کرنے کا ہنر جانتے ہیں اور مغربی دانشوروں سے بھی! ؎
کامل اس فرقۂ زہّاد سے اٹھا نہ کوئی
کچھ ہوئے تو یہی رندانِ قدح خوار ہوئے
آج نہیں تو کل‘ کل نہیں تو پرسوں‘ جلد یا بدیر‘ یہی لوگ ا ٹھیں گے اور اپنا فرض ادا کریں گے۔ دنیا رسالتؐ کا یہ معجزہ بھی دیکھے گی!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔