درس کا حلقہ جاری تھا۔ طلبہ بیٹھے تھے۔ استاد پڑھا رہا تھا۔ ساتھ بازار تھا۔ ایک آدمی وہاں سےگزر رہا تھا۔ استاد نے اسے دیکھا اور شاگردوں سے کہا یہ شخص اس شہر میں اجنبی ہے۔ اس کےبائیں ہاتھ میں کوئی میٹھی شے ہے اور اس کا پیشہ بچوں کو پڑھانے سے متعلق ہے۔
شاگرد اس زمانے میں آنکھیں بند کر کے آمنا و صدقنا نہیں کہتے تھے۔ ان میں سے ایک اٹھا اوراس شخص کو وہیں لے آیا جہاں استاد اور شاگرد سب بیٹھے تھے۔ اس سے تینوں سوال پوچھےگئے۔ استاد کے تینوں اندازے درست تھے۔ وہ شہر میں اجنبی تھا۔ اس کے بائیں ہاتھ میں مٹھائی تھیاور وہ پیشے کے لحاظ سے بچوں کا استاد تھا۔
یہ استاد‘ امام ابو حنیفہؒ تھے۔ حلقۂ درس کوفے کی مسجد میں تھا۔ امام سے تفصیل پوچھی گئی توانہوں نے بتایا کہ یہ بازار کے کوچے سے گزرتے وقت مسلسل اِدھر اُدھر دیکھ رہا تھا۔ کبھی دائیں‘کبھی بائیں‘ تجسس نمایاں تھا۔ ایسا اجنبی ہی کرتے ہیں۔ ہر روز گزرنے والا نہیں کرتا۔ اس کی بائیںکلائی پر مکھیاں بیٹھی تھیں اور کچھ کلائی کے اردگرد اڑ رہی تھیں۔ اس سے اندازہ لگایا کہ بائیںمٹھی میں مٹھائی ہوگی۔ رہی یہ بات کہ وہ بچوں کو پڑھانے کے پیشے سے منسلک ہے تو مسجدکے جس حصے میں بچے پڑھ رہے تھے اور گھوم پھر رہے تھے‘ یہ اسے خوب غور سے دیکھتارہا‘ اس سے اس کی دلچسپی اور اس پیشے میں انہماک ظاہر ہو رہا تھا۔
امام ابوحنیفہؒ کی ذہانت کا یہ واقعہ مناظر احسن گیلانی نے اپنی معروف کتاب ’’امام ابو حنیفہؒ کیسیاسی زندگی‘‘ میں لکھا ہے۔ امام کو گزرے صدیاں ہو چکی ہیں‘ اب تو ایسی ذہانت‘ ایسی فطانت کویاد ہی کیا جا سکتا ہے۔ ذہانت کا وہ قحط پڑا ہے کہ حیرت ہوتی ہے اور گر یہ الگ آتا ہے۔ سابقگورنر جناب چودھری سرور ہی کو دیکھیے۔ انسانوں کو شناخت کرنے سے قاصر۔ لوگوں کودیکھتے ہیں اور ان کی دلچسپیوں کو‘ پھر بھی یہ اندازہ نہیں لگا سکتے کہ ان کی مہارت کس شعبےمیں ہے اور کس کام کی ان سے توقع نہیں کی جا سکتی۔ یہ جو استعفیٰ دیتے وقت انہوں نے نوحہخوانی کی ہے کہ ملک میں انصاف کا قحط ہے۔ قبضہ گروپ اداروں سے اور منصب داروں سے کہیںزیادہ طاقتور ہے۔ بچے اغوا ہو رہے ہیں اور پوچھنے والا کوئی نہیں۔ ظلم‘ ناانصافی‘ خواتین کےساتھ زیادتی اور ان کے قتل کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ قاتل دندناتے پھرتے ہیں‘ مدعیانصاف کے لیے دربدر ہیں‘ وفاقی اور پنجاب حکومت کی کارکردگی سب کے سامنے ہے۔ پاکستانمیں سچ بولنا گناہ ہے۔ 23 ملین بچے سکولوں میں نہیں جا رہے بلکہ بااثر لوگوں کے گھروں میںمزدوریاں کر رہے ہیں۔ 68 برس گزر چکے اور ابھی تک نصف آبادی پینے کے صاف پانی سےمحروم ہے۔ تو چودھری صاحب ذہین ہوتے تو اس بات پر غور کرتے کہ وہ کن کاموں کی توقع کنحضرات سے کر رہے ہیں؟
عدلیہ ہی کو لے لیجیے۔ ذہانت میں تو ہماری عدلیہ کسی سے پیچھے نہیں مگر اسلام آباد ہائی کورٹکا یہ بیان پڑھ کر تعجب ہوا کہ وزیراعظم سی ڈی اے کے معاملات پر فوری نوٹس لیں اور خدارا سیڈی اے کو تباہی سے بچائیں۔ وفاقی دارالحکومت کے ترقیاتی ادارے کے بارے میں یہ آواز پہلی بارنہیں اٹھی۔ روزنامہ دنیا میں کئی کالم اعدادو شمار کے ساتھ شائع ہوئے ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہدارالحکومت‘ جو کبھی قابلِ دید شہر تھا‘ اب لاقانونیت کا ایسا مرکز بن چکا ہے جس میں Slums ہیںاور غلاظت اور کوڑے کے ڈھیر اور غیر ملکیوں کی بستیاں جن میں دہشت گرد ہیں اور اسلحہ کیبھرمار۔ ایک ہفتہ پہلے پبلک اکائونٹس کمیٹی نے الگ رونا رویا۔ اور اب عدلیہ! مگر یہ کوئی نہیںدیکھ رہا کہ ہمارے حکمرانوں کی دلچسپی جن امور میں ہے ان کا رموزِ مملکت سے‘ انصاف کےقیام سے‘ قتل و غارت گری کے انسداد سے اور قانون کی عملداری سے کوئی تعلق نہیں۔
آپ ذوق و شوق کا انداز اور مہارت کی سمت دیکھیے۔ ہمارے حکمرانِ اعلیٰ نے کراچی کے ایکادارے کا دورہ کیا۔ کھانے کا وقت آیا تو میزبانوں نے اپنے طور پر خاطر تواضع کا بھرپور اہتمام کیا۔مبینہ طور پر ظہرانے میں باربی کیو‘ فنگر فش‘ ملائی تکہ‘ خصوصی دال چاول اور فروٹ ٹرائفلپیش کیا گیا؛ تاہم حکمران نے برملا اپنی رائے کا اظہار کیا کہ کھانا کمزور پیش کیا گیا ہے۔ امام ابوحنیفہؒ جیسی ذہانت کے لوگ آج ہوتے تو کمیٹی کی صدارت‘ پروٹوکول‘ غیر ملکی دورے اورمخصوص وزارتوں کا تقاضا کرنے کے بجائے یہ مشورہ دیتے کہ فلاں صاحب کو فلاں پیشے سےدلچسپی ہے‘ اس لیے اسے کاروبارِ حکومت کے جنجال میں نہ ڈالیے۔
ایک شخص اگر ہرے بھرے کھیتوں کو دیکھ کر بے اختیار پکار اٹھتا ہے کہ یہاں شوگر مل لگائو تواس کا ذوق اور دلچسپی معلوم کرنے کے لیے مزید کس تحقیق کی ضرورت ہے؟
کبھی خبر چھپتی ہے کہ نان فروش سے نان پر تِل کم لگانے کا شکوہ ہو رہا ہے۔ کبھی کوئی بتاتا ہےکہ فلاں ملک کے دورے پر فلاں ملک کے حکمران گئے تو ایئرپورٹ سے سیدھے فلاں فاسٹ فوڈ پرگئے اور سرکاری مہمان خانے کا رُخ اس کے بعد کیا!
نان چھولے‘ سری پائے‘ تِلوں والے نان اور تلی ہوئی مچھلی کے ایک ایک پہلو پر گھنٹوں باتکرنے والوں اور ان فنون کے نہفتہ اسرار و رموز کے ایک ایک نکتے کا گہرا علم رکھنے والوں کوکیا ذمہ داریاں سونپ دی گئی ہیں؟
کاروبار محض ذریعۂ معاش نہیں۔ یہ ایک طریقِ زندگی ہے۔ اوڑھنا بچھونا ہے۔ وے آف لائف ہے۔کاروباری شخص کی تفریح بھی کاروبار ہے۔ اس کی کھیل کود‘ اس کی ثقافت‘ اس کی سیر و سیاحت…سب کچھ اس کے کاروبار کے حوالے سے ہے۔ اس نصیحت کو حدیث کے حوالے سے بھی بیان کیاجاتا ہے‘ ثقاہت کی تصدیق تو اہلِ علم ہی کر سکتے ہیں‘ لیکن یہ کتنی بڑی سچائی ہے کہ کارِ مملکتتاجروں کے سپرد نہ کرو۔
پٹرول کا بحران‘ جس سے اس ملک کے عوام گزرے ہیں‘ کسی اور ملک میں پیدا ہوتا تو حکومت کیاینٹ سے اینٹ بج جاتی۔ کئی وزیر فارغ کر کے گھر بھیج دیے جاتے۔ پالیسی&