اس کالم نگار کا تعلق لکھنے والوں کے اُس خاموش گروہ سے ہے جس کا کسی لین دین سے کچھ لینا دینا ہے‘ نہ کوئی مفاد ہی وابستہ ہے۔ قربت شاہ چاہیے نہ محل میں حاضری کا شوق ہے! بیرونی دوروں کی خواہش ہے نہ کسی ایسے طیارے میں بیٹھنے کی تمنا‘ جس میں عالی جاہ دوران پرواز حال چال پوچھیں اور گفت و شنید کریں‘ کسی مقتدر ہستی سے اپنے کسی عزیز کو کوئی فائدہ دلوانا ہے نہ کسی رنگ روڈ کا ٹھیکہ حاصل کرنا ہے…؎
یونہی تو کُنج قناعت میں نہیں بیٹھا ہوں
خسروی‘ شاہ جہانی مری دیکھی ہوئی ہے
یہ خاموش، یہ بے غرض گروہ تنقید کرتا ہے تو ملک کے مجموعی مفاد اور وقار کو سامنے رکھ کر اور تعریف و تحسین کرتا ہے تو خالص میرٹ پر۔ کسی سے دشمنی ہے نہ ایسی وابستگی جو قلم کی روانی میں رکاوٹ بنے۔
کُچھ دوست محبت بھرا شکوہ کرتے ہیں کہ تُم ہمیشہ تنقید ہی کرتے ہو۔ انہیں محبت بھرا جواب ملتا ہے کہ جہاں میرٹ نظر آئے‘ تحسین بھی کی جاتی ہے، یہ اور بات ہے کہ تحسین نمایاں نہیں لگتی جبکہ تنقید‘ خوش قسمتی یا بدقسمتی سے ہائی لائٹ ہو جاتی ہے ۔
اس ضمن میں کبھی کبھی دلچسپ صورتحال پیدا ہو جاتی ہے۔ جس وقت وزیر اعظم کو
Genuine
دفاع کی ضرورت پیش آتی ہے‘ اُس وقت اُن کے دفاع پر مامور حضرات صمٌ بکمٌ ہو جاتے ہیں‘ جیسے ان کا کوئی تعلق ہی نہیں! اُس وقت ہم جیسے ’’بُرے‘‘ اور ’’ہمیشہ‘‘ تنقید کرنے والے لکھاری صرف اور صرف اپنے ضمیر کی آواز پر وزیر اعظم کا دفاع کرتے ہیں۔ اس لیے نہیں کہ وہ وزیر اعظم ہیں‘ نہ ہی اس لیے کہ اس دفاع سے مفاد وابستہ ہے!
اس سلسلے کی واضح مثال کُچھ دن پہلے نظر آئی جب وزیر اعظم نے لبرل پاکستان کی بات کی۔ اُس کے بعد ایک تماشا تھا‘ جو دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا! کسی نے کہا کہ آئین کے فلاں آرٹیکل کے تحت وزیر اعظم پر مقدمہ چلایا جائے‘ کسی نے فریاد کی کہ اسلام اور پاکستان سخت خطرے میں ہیں‘ مگر اس ہنگامے کا عروج یہ تھا کہ ایک رہنما نے وزیر اعظم پر غداری کا الزام لگا دیا۔
تعجب کی بات ہے کہ چُوری کھانے والے مجنوئوں کا گروہ جو وزیر اعظم کے گرد حلقہ باندھے کھڑا رہتا ہے‘ مکمل خاموش رہا۔ کسی کو غدار کہنا‘ غلیظ سے غلیظ گالی سے بھی بدتر ہے۔ مگر بقول فیض…؎
کوئی یار جاں سے گزرا‘ کوئی ہوش سے نہ گزرا
یہ ندیمِ یک دو ساغر مرے حال تک نہ پہنچے
وزیر اعظم کی صفوں سے کسی کو احتجاج تو کیا‘ دفاع کرنے کا بھی خیال نہ آیا‘ میاں محمد نواز شریف پر ہزار اعتراض سہی‘ اُن کی پالیسیوں سے لاکھ اختلاف سہی‘ اُن کے قبائلی طرز حکومت پر تنقید بجا‘ حکومتی امور میں خاندان کے افراد کی مداخلت بھی غلط‘ مگر ہم صدق دل سے یہ سمجھتے ہیں کہ وہ ملک سے یا اسلام سے غداری کے مرتکب نہیں ہو سکتے۔ عمران خان کے بارے میں بھی حسن ظن یہی ہے! غداری کا شعلہ نما الزام جن کے دہن مبارک سے نکلا‘ اُن کی اپنی صفوں میں ایسے ایسے نابغے موجود ہیں جو ہمارے عساکر کے شہدا کو شہدا تک نہیں مانتے! مگر دوسروں کو یہ حضرات اتنی سہولت سے غدار کہہ دیتے ہیں جیسے یہ گالی نہیں‘ تمغہ ہے!
لگتا ہے وزیر اعظم کی شان میں رطب اللسان رہنے والے حضرات اس قدیم فارمولے پر ایمان رکھتے ہیں کہ کھانا کھاتے وقت فلاں کے دسترخوان پر بیٹھو مگر نماز فلاں کے پیچھے پڑھو۔ غالباً ان میں سے اکثر کا تعلق اندرون خانہ اُسی گروہ سے ہے جس سے انسان نکل بھی جائے تو گروہ اندر سے نہیں نکلتا!!
پھر ایک اور طوفان اٹھا۔ وزیر اعظم نے کراچی کے ایک ہوٹل میں ہندو برادری کی دیوالی کی تقریب میں شرکت کی اور کیک کاٹا۔ اس پر خوب لے دے ہوئی۔ اخبارات میں مضامین چھپے‘ ویب سائٹس پر ان مضامین کی تشہیر کی گئی۔ سوشل میڈیا پر وزیر اعظم کو ایک بار پھر کٹہرے میں کھڑا کر دیا گیا۔ کسی نے لکھا کہ کیک صرف پیدائش پر کاٹا جاتا ہے۔ کہیں بات عقائد اور تصورات تک پہنچائی گئی۔ صاف ظاہر ہے کہ اعتراض کرنے والوں کا الزام یہ تھا کہ تقریب میں شرکت کر کے اہل تقریب کے عقائد کو اپنایا گیا ہے!!
وزیر اعظم کے خیرخواہ یا نام نہاد خیرخواہ اس موقع پر بھی خاموش رہے۔ کسی نے معترضین کو جواب نہ دیا۔ کسی نے اس طرف توجہ نہ دلائی کہ وزیر اعظم پورے ملک کے‘ پوری قوم کے اور ملک میں رہنے والے تمام گروہوں کے وزیر اعظم ہیں۔ بطور سربراہ اگر وہ کسی تقریب میں شرکت کرتے ہیں تو یہ ان کے آئینی فرائض کا حصہ ہے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ اپنے عقائد سے برگشتہ ہو رہے ہیں! رہا اعتراض کیک کاٹنے پر تو کیک صرف پیدائش پر نہیں‘ خوشی کے ہر موقع پر کاٹا جاتا ہے۔ کسی بچے کے پاس ہونے کی تقریب میں‘ کسی ساتھی کی ریٹائرمنٹ پر‘ کسی اور تقریب میں! کیا ہم اپنے ملک کے وزیر اعظم پر اتنا اعتماد بھی نہیں کر سکتے؟ اگر وہ اپنے ہم وطنوں کی کسی تقریب میں شرکت کرتے ہیں تو کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ وہ کسی دیوی یا دیوتا کی پیدائش پر یقین کرنے لگے ہیں؟
تقسیم سے پہلے ہندو اور مسلمان ایک دوسرے کے تہواروں میں عام شریک ہوتے تھے۔ ہندو عید کے موقع پر مٹھائیاں لے کر مسلمان دوستوں کے گھروں میں آتے تھے۔ مسلمان ہندوئوں اور سکھوں کی تقاریب میں شریک ہوتے تھے۔ کوئی ہندو عورت کسی مسلمان کی خالہ بنی ہوتی تھی‘ کسی مسلمان عورت نے کسی ہندو بچے کو بیٹا بنایا ہوتا تھا۔ ایک دوسرے کے دوست مذہبی تہواروں میں‘ شادیوں کے مواقع پر‘ یہاں تک کہ مرگ کے مواقع پر بھی‘ شامل ہوتے تھے۔ کسی ہندو کو یہ نہیں کہا جاتا تھا کہ تُم عید منا کر مسلمان ہو گئے ہو، نہ ہی کسی مسلمان کو یہ طعنہ دیا جاتا تھا کہ تُم دیوالی یا دسہرے کی تقریب میں شریک ہوئے ہو‘ تو تمہارا ایمان خطرے میں پڑ گیا ہے۔ مغربی ممالک میں اس وقت کروڑوں مسلمان آباد ہیں‘ یہ کرسمس کے موقع پر اپنے دوستوں اور پڑوسیوں کے ساتھ کرسمس کا ڈنر کرتے ہیں۔ عید کے موقع پر غیر مسلم دوستوں کو مدعو کرتے ہیں۔ اس کے باوجود بھی الحمدللہ مسلمان ہی رہتے ہیں۔ اپنے عقائد ہی پر قائم ہیں اور اپنی مسجدوں ہی میں عبادت کرتے ہیں!
سرکاری میڈیا ٹیم میں سے کسی کو یہ نشاندہی کرنے کی ہمت نہ ہوئی کہ جب مسلمان بچوں اور عورتوں کے چیتھڑے اڑائے جاتے رہے‘ راولپنڈی کی پریڈلین مسجد میں خون کے دریا بہائے گئے‘ قبروں سے میتیں نکال کر چوراہوں پر لٹکائی گئیں‘ بازاروں اور مزاروں میں بیگناہ مسلمانوں کو شہید کیا جاتا رہا‘ سکولوں کو بموں سے اڑایا جاتا رہا‘ پشاور میں سکول پر حملہ کر کے چھوٹے‘ نابالغ بچوں کو گولیوں کا نشانہ بنایا گیا‘ اُس وقت کسی نے اخباروں میں مضامین نہ لکھے۔ اُس وقت تو یہ کہہ کر مصلحت کی آڑ لی گئی کہ یہ فتنوں کا زمانہ ہے اور خاموشی بہتر ہے! غیر مسلم ’’حسن سلوک‘‘ سے تنگ آ کر ملک چھوڑ رہے ہیں۔ مگر کسی عالم دین نے اس بات کا نوٹس لیا نہ مضمون لکھا! اگر قتل و غارت کی مذمت کی بھی گئی تو ساتھ ہی اگر‘ مگر کے لاحقے لگائے گئے! اسی پاکستان میں چھپنے والے نام نہاد مذہبی ماہناموں میں پشاور سکول کے قتل عام کا جواز پیش کیا گیا اور کُھلے عام ’’شد و مد‘‘ کے ساتھ پیش کیا گیا۔ بھارت کے علما خود بھارت چھوڑ کر یورپ کے ممالک میں جا بسے مگر اُن میں سے کچھ پاکستان سے شائع ہونے والے رسالوں میں پاکستان‘ قائد اعظم ؒاور اقبالؒکے خلاف زہر بھرے مضامین لکھ رہے ہیں۔ چھاپنے والے برابر چھاپ رہے ہیں۔ ان پر کوئی گرفت نہیں کرتا۔ مگر وزیر اعظم کے اسلام کا آئے دن محاسبہ ہوتا ہے!!کہیں ایسا تو نہیں کہ پوری کی پوری ٹیم صرف عمران خان کو جواب دینے میں لگی ہوئی ہے‘ اور وزیر اعظم پر حملے کسی اور جانب سے ہو رہے ہیں۔
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔