رچرڈ صاحب برطانوی قومی اسمبلی کے رکن تھے۔ وہاں قومی اسمبلی کو ہائوس آف کامنز ( دارالعوام) کہتے ہیں! ایک دن بیٹھے بٹھائے رچرڈ صاحب کا بلڈ پریشر شُوٹ اَپ کر گیا۔ ہو سکتا ہے ایک دو دن سے دوانہ کھا رہے ہوں۔ بے ہوش ہو گئے۔ ہسپتال پہنچائے گئے۔
ہسپتال تو پہنچا دیے گئے مگر اب ایک اور سیاپا پڑ گیا! ڈاکٹروں کو یہ کون بتائے کہ رچرڈ صاحب کا علاج کس طرح کرنا ہے؟ میڈیکل سپیشلسٹ سارے جمع تھے۔ کیا امراض قلب کے ڈاکٹر، کیا دماغ کے ماہرین، کیا بے ہوش کرنے والے، کیا آپریشن کرنے والے! نرسیں بھی حاضر تھیں۔ آپریشن تھیٹر بھی موجود تھا مگر برطانوی وزیر اعظم سے رابطہ نہیں ہو پا رہا تھا۔ وہ کسی ضروری میٹنگ میں تھے۔ میٹنگ سے فارغ ہوئے تو غیر ملکی وفود سے ملنے لگ گئے۔ رچرڈ صاحب بے ہوش پڑے رہے۔ ڈاکٹروں کی ٹیمیں وزیر اعظم صاحب کی ہدایات کی منتظر رہیں۔ افسوس! رچرڈ صاحب کا اس سارے سیاپے میں انتقال ہو گیا!
آپ کا کیا خیال ہے کہ یہ سب سچ ہے؟ کیا ایسا ہوا ہو گا؟ کیا ایسا ہو سکتا ہے؟ ہسپتال ایک الگ دنیا ہے۔اس میں تعینات ڈاکٹر، خواہ انتظامیہ کے ہوں، یا فزیشن ہوں یا سرجن ہوں، اپنے فرائض سے بخوبی واقف ہوتے ہیں! بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی مریض، کتنا ہی بڑا آدمی کیوں نہ ہو ، کتنی ہی اہم شخصیت کیوں نہ ہو، داخل ہو اور وزیر اعظم یا ملکہ یا وزیراعلیٰ یا گورنر یا صدر مملکت کی ہدایات کی ضرورت پڑے کہ اب اسے بیڈ کہاں الاٹ کرنا ہے؟ اب خون کے ٹیسٹ کرنے ہیں یا سی ٹی سکین کرنا ہے؟ اب آپریشن کرنا ہے یا محض دوائوں سے کام چل جائے گا۔ اگر ایسا ہونے لگے تووہ ملک نہیں، مذاق ہے! وہ کیلا ریاست
(Banana Republic)
ہے! وہ ایک بڑا اصطبل ہے! وہ ایک بہت بڑا کباڑ خانہ ہے، جہاں کسی ہسپتال میں مریض داخل ہو تو اس ہسپتال کو حکمران اعلیٰ ہدایات دے کہ اب کیا کرنا ہے!
بد قسمتی سے یا خوش قسمتی سے پاکستان ایک ایسا ہی ملک ہے! خوش قسمتی سے اس لیے کہ آخر دنیا میں کتنی ریاستیں کیلا ریاستیں ہوں گی؟ کتنے ملک اصطبل کہلائے جانے کے مستحق ہوں گے؟ کتنے ملکوں کو کباڑخانہ (جنک یارڈ) کہا جا سکتا ہے؟ یہ اعزاز دنیا میں ہمارے ملک ہی کا ہے کہ صوبائی اسمبلی کی رکن ہائی بلڈ پریشر کی وجہ سے بے ہوش ہو گئیں۔ انہیں ہسپتال لے جایا گیا۔ ڈاکٹروں نے آئی سی یو میں رکھا۔ مگر ساتھ ہی وزیراعلیٰ پنجاب نے علاج کے حوالے سے ہسپتال انتظامیہ کو ہدایات جاری کر دیں!!
جن ملکوں میں سسٹم نہ ہو، خود کار نظام نہ ہو، وہاں ایسا ہی ہوتا ہے۔ ورنہ کیا وزیراعلیٰ کا یہ کام ہے کہ وہ ہر مریض کے لیے ہسپتال کو ہدایات جاری کرے؟ اگر یہ ہدایات ضروری ہیں تو ہر مریض کے لیے کیوں نہیں؟ صرف اسمبلی کی رکن کے لیے کیوں؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ وزیراعلیٰ کی ہدایات کے بغیر ہسپتال میں علاج کرانا ممکن ہی نہیں! اور اگر ڈاکٹر اپنا کام کر رہے ہیں اور ہسپتال انتظامیہ اپنے فرائض سے آگاہ ہے تو یہ ہدایات محض ایک ڈرامہ ہیں! محض دکھاوا ہے! صرف مذاق ہے! اور ایسے ہی ڈراموں، ایسے ہی دکھاوے، ایسے ہی مذاق نے اس ملک کو کباڑ خانہ بنا کر رکھ دیا ہے! کسی عورت کو بے آبرو کیا جاتا ہے تو وزیراعلیٰ پولیس کو ہدایات جاری کرتے ہیں! کوئی قتل ہوتا ہے تو وزیراعلیٰ تفتیش کے لیے حکم دیتے ہیں۔ بچوں کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے تو وہاں وزیراعلیٰ کی مداخلت کے بغیر کارروائی نہیں ہوتی! یہ سب کیا ہے؟ کیا ملک ایسے چلتے ہیں؟ یہ ملک ہے یا کسی وڈیرے کی جاگیر ہے، جہاں ہر کام کے لیے حکمران اعلیٰ کی ہدایات ضروری ہیں؟
جب ملک ملک نہ رہے، مذاق بن جائے، کیلا ریاست ہو جائے، کباڑخانہ بن کر رہ جائے تو پھر یہی کچھ ہوتا ہے۔ پھر افغان شہری روح اللہ کو نادرا میں ملازمت مل جاتی ہے، جہاں وہ اپنے بھائیوں جعفر اور رزاق کے شناختی کارڈ بنوا لیتا ہے! جہاں اسمبلیوں کے رکن تصدیق کرتے ہیں کہ افغان مہاجروں کے ڈومیسائل بنائے گئے! پھر صفورا جیسے قومی سانحوں کے سہولت کار ضمانتوں پر رہا ہو جاتے ہیں۔ پھر قومی ایئرلائنوں کو سیاسی بنیادوں پر بھرتی کیے گئے افراد یر غمال بنا لیتے ہیں۔ ایسے ملک میں پھر یہی ہوتا ہے کہ خون کی ہولی سکولوں اور یونیورسٹیوں میں کھیلی جاتی ہے مگر سرکاری مراعات پر پرورش پانے والے حضرات اُن مدارس کا تحفظ کرنے کی قسمیں کھاتے ہیں جہاں کبھی پٹاخہ تک نہیں چھوٹا۔ پھر ایسے ملک میں افسروں کی ترقی کے معمول کے معاملات سال سال بھر وزیراعظم کے دفتر سے نہیں نکلتے اور عدالت عظمیٰ کو کہنا پڑتا ہے کہ اڈیالہ جیل میں بہت جگہ ہے، وزیراعظم کو بل الیا تو واپس دفتر نہیں جا سکیں گے۔ پھر ایسے ملک میں کسٹم کے اہلکار کو محکمہ تعلیم کا سربراہ بنا دیا جاتا ہے۔ پھر عدالت دہائی دیتی ہے کہ بادشاہت چلائی جا رہی ہے، خدا کا واسطہ ہے حکومت تعلیم کے شعبے پر رحم کرے۔ پھر ایسے ملک میں ایان علی چھوٹ جاتی ہے۔ ڈاکٹر عاصموں کا بال بیکا کوئی نہیں کر سکتا، مافیا ڈان بیرونی ملکوں میں بیٹھ کر حکومتیں چلاتے ہیں مگر آٹھ آٹھ سال کے بچوں کو پکڑ کر عدالتوں میں گھسیٹا جاتا ہے، جہاں وہ سہمے کھڑے رہتے ہیں اور انہیں معلوم ہی نہیں ہوتا کہ کیوں لائے گئے ہیں! ایسے ملک میں ایک ایئرپورٹ نو سال میں بھی مکمل نہیں ہوتا۔ خواتین ڈاکٹروں کا ایک عام ہوسٹل سات
سال میں بھی نہیں بن پاتا، یہاں تک کہ لاگت تین کروڑ سے چھ کروڑ ہو جاتی ہے۔ جہاں صرف وکیلوں کو ٹول پلازوں کی ادائیگی کے لے چھوٹ دی جاتی ہے جبکہ عام شہریوں کی جیبوں پر ہر چند کلو میٹر کے بعد ٹول ٹیکس کے نام پر بھاری ڈاکے ڈالے جاتے ہیں۔ ایسے ملک میں انصاف کی کرسی پر بیٹھنے والے قوم سے انصاف کی قیمت وصول کرتے ہیں اور قوم کے خرچ پر بلٹ پروف سرکاری گاڑیوں میں بیٹھ کر سیاسی جماعتیں تشکیل دیتے ہیں، جی بھر کر سیاست کرتے ہیں اور قوم کا نجات دہندہ بن کر دوبارہ برسرِاقتدارآنے کے خواب دیکھتے ہیں!
کباڑ خانے اور ملک میں کیا فرق ہے؟ یہ فرق ہے کہ ’’ملک‘‘ میں وزیراعظم کسی مریض کی عیادت کے لیے بھی آئے تو ہسپتال کا ڈاکٹر اسے ایک منٹ میں باہر نکال دیتا ہے جیسا کہ برطانیہ میں ہوا مگر کباڑ خانے میں وزیراعلیٰ خود ڈاکٹروں کو ہدایات دیتا ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے مگر یہ کباڑ خانہ اُس وقت ملک بنے گا جب ڈاکٹر وزیراعلیٰ کو کہے گا کہ حضور! میرے کام میں مداخلت نہ فرمائیے! جب پولیس کا سربراہ کہے گا حضور! میں اپنے فرائض چھوڑ کر ہر جگہ آپ کے ہمراہ نہیں جا سکتا اور ازرہِ کرم مجھے یہ نہ بتائیے کہ میں نے کس کیس کی تفتیش کرنی ہے اور کس کی نہیں!
جب تک ایسا نہیں ہوتا، کباڑ خانہ ، کباڑخانہ ہی رہے گا! اسے ’’ملک‘‘ سمجھنے والے مراعات یافتہ ہوں گے یا نفسیاتی مریض!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔