ماسکو میں مصروفیات ختم ہوئیں تو پاکستانی وفد کو دو دن کے لیے لینن گراڈ لے جایا گیا۔ لینن گراڈ سے واپسی ایک آرام دہ ٹرین سے ہوئی۔ پاکستانی سفیر کو بتایا گیا کہ ٹرین جب ماسکو پہنچے گی تو صدر پوڈگرنی اور وزیر اعظم کو سیجن ریلوے سٹیشن پر موجود ہوں گے اور وہیں سے مہمان صدر کو ایئرپورٹ لے جائیں گے۔
ٹرین میں رات کے کھانے پر روسی وزارت خارجہ کے ایک اعلیٰ افسر نے پاکستانی سفیر سے کہا کہ روسی لیڈر اس بات پر حیران ہیں کہ صدر یحییٰ نے پاکستان کو ہتھیاروں کی فراہمی کے مسئلہ پر بات نہیں کی۔ یہ ایک اہم مسئلہ ہے۔ صدر یحییٰ کو مشورہ دیا جائے کہ اگلی صبح وہ یہ مسئلہ اٹھائیں۔
سفیر یہ پیغام پہنچانے فوراً صدر یحییٰ کے ڈبے میں حاضر ہوا، جہاں صدر اپنے ہم پیالہ دوستوں کے ساتھ آلامِ زمانہ سے دور بیٹھے تھے۔ مے نوشی کی محفل عروج پر تھی تا ہم پیغام سن کر صدر نے فوراً اپنے مے نوش ساتھیوں کو رخصت کیا۔ یوں لگتا تھا جیسے الکوحل کے اثرات کو بھی دماغ سے نکال دیا! صدر نے اس مسئلے پر تفصیلی بات چیت کر کے اگلی صبح کے لیے حکمت عملی طے کر لی۔ اس کے بعد ’’پارٹی‘‘ دوبارہ شروع ہو گئی۔
اگلی صبح لیڈروں کا قافلہ ایئرپورٹ پہنچا تو تینوں لیڈر بہت دیر تک لیموزین میں بیٹھے بات چیت کرتے رہے۔ پرواز مؤخر ہوتی رہی۔ آخرکار یہ حضرات باہر نکلے۔ چہروں پر مسکراہٹ تھی۔ صدر یحییٰ نے پاکستانی سفیر کو بتایا کہ وزارت خارجہ کے احکام کا انتظار کرے۔ وزارت خارجہ کے احکام جلد ہی موصول ہو گئے۔ سفیر کو ہدایت کی گئی کہ وہ ماسکو ایئرپورٹ پر ہونے والی بات چیت کی روشنی میں ہتھیاروں کی فراہمی کا مسئلہ طے کرے۔ سفیر نے وزارتِ خارجہ کی سطح پر مسئلہ اٹھایا مگر کوئی جواب نہ دیا گیا۔ آخر سفیر نے وزیر اعظم کوسیجن کو یاد دلایا! کوسیجن نے ٹکا سا جواب دیا کہ پاکستان ہتھیاروں کے بجائے اقتصادی ترقی پر توجہ دے! اُدھر صدر یحییٰ جی ایچ کیو کے سینئر افسروں کو خوشخبری دے چکے تھے کہ روسی ہتھیاروں کی فراہمی جلد شروع ہو جائے گی۔ اب انکار ہوا تو صدر یحییٰ کی پوزیشن خراب ہوئی؛ چنانچہ صدر کا غیظ و غضب فطری تھا۔ سفیر کو یہ کبھی معلوم نہ ہو سکا کہ روسیوں نے یہ عجیب و غریب حرکت کیوں کی؟ پہلے خود ہی کہنی ماری کہ ہتھیاروں کا مسئلہ اٹھائو اور پھر کورا جواب دے دیا!
یہ واقعہ روس میں پاکستان کے سابق سفیر جناب جمشید مارکر نے اپنی تازہ ترین تصنیف
Cover Point
میں لکھا ہے۔ جمشید مارکر کا تعلق کوئٹہ اور کراچی کی ایک معروف پارسی فیملی سے ہے۔ وہ 1922ء میں حیدر آباد دکن میں پیدا ہوئے۔ ڈیرہ دون اور پھر ایف سی کالج لاہور میں پڑھتے رہے۔ اقتصادیات میں آنرز کی ڈگری لی اور گولڈ میڈل حاصل کیا۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران نیوی میں خدمات سرانجام دیں۔ جنگ ختم ہوئی تو خاندانی بزنس سنبھال لیا۔ بنکنگ، انشورنس اور جہاز رانی کی کئی نجی اور سرکاری کمپنیوں کے بورڈ پر رہے۔
1965ء میں صدر ایوب خان نے انہیں گھانا میں سفیر مقرر کیا۔ اگلے تیس برسوں کے دوران وہ دس اہم دارالحکومتوں میں سفارت کے فرائض سرانجام دیتے رہے۔ دنیا بھر میں طویل ترین مدت تک سفیر رہنے کے علاوہ انہیں یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ کسی بھی دوسرے سفیر کے مقابلے میں سب سے زیادہ ملکوں میں خدمات سرانجام دیں۔ 1986ء میں جب امریکہ میں سفیر تھے تو افغانستان سے روسی افواج کے انخلا کے حوالے سے اہم کردار ادا کیا۔ کوفی عنان کے خصوصی مشیر بھی رہے۔ پھر مشرقی تیمور میں اقوامِ متحدہ کے خصوصی ایلچی کے طور پر کام کیا۔
تازہ ترین تصنیف ’’کور پوائنٹ‘‘ میں جمشید مارکر نے لیاقت علی خان سے لے کر صدر پرویز مشرف تک، تمام پاکستانی سربراہوں کے حوالے سے اُن واقعات کا تذکرہ کیا ہے جن کے وہ عینی شاہد رہے۔ ایسی کتابیں تاریخ کا وہ سرمایہ ہیں جن میں ملاوٹ نہیں ہوتی۔ سیاسی جانبداری کی ملاوٹ، کئی راویوں کی یادداشت کی ملاوٹ، مستقبل میں کچھ حاصل کرنے کی لالچ کی ملاوٹ اور بہت سی دوسری ملاوٹیں۔ ایسی اہم اور انتہائی دلچسپ کتابیں فوراً اردو کے قالب میں ڈھال دی جائیں تو استفادہ کرنے والوں کی تعداد ہزاروں سے بڑھ کر لاکھوں تک پہنچ جائے۔ بنداذہان کھلیں اور صرف اردو پر انحصار کرنے والے پاکستانیوں کی معلومات میں بیش بہا اضافہ ہو۔
پاکستان اس بات پر فخر کرتا ہے کہ چین اور امریکہ کے تعلقات بحال کرنے میں اس نے بنیادی کردار ادا کیا تھا۔ ہنری کسنجر نے بیجنگ کا پہلا خفیہ دورہ پی آئی اے سے کیا۔ پھر صدر نکسن وہاں پہنچے مگر کم پاکستانیوں کو معلوم ہے کہ پاکستان نے ’’وچولن‘‘ ہونے کی کتنی بھاری قیمت ادا کی (وچولن پنجابی میں اُس عورت کو کہتے ہیں جو رشتے کراتی ہے۔) روسی لیڈر شپ غضب ناک ہو گئی۔ انہوں نے پاکستان سے ہولناک انتقام لیا۔ روس نے بھارت کے ساتھ
دوستی کا باقاعدہ معاہدہ کر لیا۔ دوستی کا یہ واحد معاہدہ تھا جو سوویت یونین نے کسی غیر کمیونسٹ ملک سے کیا تھا۔ سوویت یونین نے متعدد سفارتی اور جنگی محاذوں پر پاکستان دشمن اقدامات کیے اور 1971ء کی مشرقی پاکستان جنگ میں بھارت کا بھرپور ساتھ دیا۔ جب یہ سب کچھ ہو چکا تو روسی وزارتِ خارجہ کے ایک سینئر افسر پروفیسر یوری گینکوسکی نے جمشید مارکر سے کہا: ’’مائی ڈیئر مارکر! کیا ہنری کسنجر کو اسلام آباد ہی سے بیجنگ جانا تھا؟ آخر وہ ہانگ کانگ یا بنکاک سے بھی تو جا سکتا تھا۔ کسنجر کے اس سفر نے ہمارے(یعنی سوویت یونین اور پاکستان کے) تعلقات کو یوٹو(U2)فلائٹ سے بھی زیادہ نقصان پہنچایا ہے!‘‘
جو قارئین ’’یوٹو فلائٹ‘‘ سے آگاہ نہیں، اُن کی اطلاع کے لیے بتانا مناسب ہو گا کہ 1960ء میں ایک امریکی جاسوسی طیارہ پشاور(بڈھ بیر) سے اُڑ کر سوویت یونین پر پرواز کر رہا تھا کہ روسیوں نے اسے مار گرایا۔ اس کا سخت ردِ عمل ہوا تھا۔ خروشچیف اور صدر آئزن ہاور کی مجوزہ ملاقات منسوخ ہو گئی۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں خروشچیف نے جوتا دکھایا۔ کچھ کہتے ہیں جوتا باقاعدہ میز پر مارا۔ خروشچیف نے یہ بھی کہا کہ اس نے نقشے پر پشاور کے گرد سرخ روشنائی سے دائرہ لگا لیا ہے۔ یہ پشاور کو صفحۂ ہستی سے مٹا دینے کی ملفوف دھمکی تھی۔ جمشید مارکر لکھتے ہیں کہ اکتوبر 1971ء میں شہنشاہ ایران نے ایرانی بادشاہت کی 2500 سالہ سالگرہ کی عظیم الشان تقریبات منعقد کیں تو دنیا بھر کے سربراہ مدعو کیے۔ ان میں پوڈگرنی، کوسیجن اور صدر یحییٰ بھی تھے۔ شاہ ایران نے اپنی سی کوشش کی کہ سوویت یونین اور پاکستان کے معاملات کو ٹھنڈا کرنے میں مدد دیں۔ جمشید مارکر کو جو رپورٹ ملی اس کے مطابق نتیجہ تباہ کن تھا۔ اجلاس میں روسی رہنما دھمکیاں دے رہے تھے اور تقریباً گالیوں ہی پر اتر آئے تھے۔ جواب میں صدر یحییٰ نے بھی، جو مدہوش تھے، گالیاں دیں۔
جمشید مارکر نے آخری بار صدریحییٰ سے اُس وقت ملاقات کی جب مشرقی پاکستان کے حالات ابتر تھے۔ صدر یحییٰ اس دن سویلین لباس میں ملبوس اپنے دفتر میں داخل ہوئے اگرچہ فوجی بَید ہاتھ میں پکڑے تھے۔ وہ سنجیدہ اور سوچ میں ڈوبے ہوئے لگ رہے تھے۔ جمشید مارکر کے الفاظ میں: ’’میں صدر کے دفتر سے جس وقت نکلا ، وہ اپنے مشیروں کے ساتھ گہرے صلاح مشورے میں مصروف تھے۔ میرا دل ملک کے مستقبل کے حوالے سے بدشگونی سے بھرا تھا۔ یوں لگ رہا تھا کہ ان لوگوں کو (یعنی صدر اور ان کے مشیروں کو) معلوم ہی نہیں تھا نہ پروا تھی کہ مشرقی پاکستان پر انہوں نے کس بربادی اور تباہی کو نازل کیا تھا۔ اس پر طرہ یہ کہ وہ بھارت کے خلاف ملٹری ایکشن لینے پر تلے تھے۔‘‘
جمشید مارکر نے ذاتی مشاہدات کے حوالے سے یہ یادداشتیں لیاقت علی خان کے زمانے سے ابتدا کی ہیں۔ اس میں بہت سے چہرے میک اپ کے بغیر دیکھے جا سکتے ہیں اور کئی ایسے اشارات ہیں جو ہماری تاریخ کے سبق آموز موڑ دکھا رہے ہیں۔ سبق آموز مگر عبرت ناک موڑ! مثلاً لیاقت علی خان نے مصنف کو بتایا کہ انہیں بطور وزیر اعظم ملٹری سیکرٹری اور اے ڈی سی رکھنے کا مشورہ دیا گیا۔ کاش لیاقت علی خان یہ مشورہ دینے والے درباری کا نام بھی بتا دیتے۔ بہر طور وزیر اعظم نے انکار کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ سیاسی اور عوامی شخصیت ہیں یوں عوام کو ان تک رسائی ہونی چاہیے۔ سالہا سال تک یہی روایت برقرار رہی۔ کیا آپ کو معلوم ہے یہ روایت کس نے توڑی اور کس سربراہ حکومت نے ملٹری سیکرٹری اور اے ڈی سی کے طمطراق کا آغاز کیا؟ یہ ہم اگلی نشست میں بتائیں گے۔
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔