اگر پاکستان‘ پاکستان نہ ہوتا‘ مراکش ہوتا‘ اردن ہوتا یا سعودی عرب ہوتا تو عوام کو معاف کیا جا سکتا تھا۔ ان ممالک میں جمہوریت نہیں‘ خاندانی بادشاہتیں ہیں۔ پریس آزاد نہیں۔ پرائیویٹ ٹیلی ویژن چینل کام نہیں کر سکتے۔ انتخابات کی روایت نہیں‘ اسمبلیاں ناپید ہیں اور اگر ہیں تو برائے نام! ان ملکوں میں فرمانروائی کا تاج زرداری‘ نوازشریف اور شہبازشریف جیسے افراد کے سر پر رکھ دیا جائے اور عشروں تک حکومت کرتے رہیں تو اچنبھے کی کوئی بات نہیں!
پاکستان شام‘ لیبیا اور عراق بھی نہیں جہاں ایک حکمران آتا ہے تو تیس سال حکومت کرتا ہے اور پھر اس کا بیٹا تخت پر بیٹھ جاتا ہے۔ شام‘ لیبیا اور عراق کے مظلوم اور خوفزدہ عوام کو معاف کیا جا سکتا ہے مگر پاکستانی عوام کو معاف نہیں کیا جا سکتا!
اگر کسی کو یہ بات معلوم نہیں تو وہ جان لے کہ پاکستان جمہوریت کے بطن سے نکلا تھا۔ قائداعظمؒ کی مسلم لیگ نے تقسیم سے پہلے الیکشن لڑ کر اپنا وجود‘ اپنا استحقاق ثابت کیا تھا۔ برطانوی آقائوں کو اور کانگریس کو وزارت خزانہ تک مسلم لیگ کے حوالے کرنا پڑی۔ یہی پاکستانی عوام تھے جنہوں نے بقائمی ہوش و حواس‘ بہ رضا و رغبت قائداعظمؒ کو اپنا لیڈر تسلیم کیا۔ قائداعظمؒ کو یہ قیادت وراثت میں نہیں ملی تھی۔ میرے منہ میں خاک‘ وہ بلاول تھے نہ حمزہ شہباز! وہ کوئی مولانا تھے نہ صنعتکار نہ فیوڈل! انہوں نے سندھ کارڈ کھیلا نہ جاگ پنجابی جاگ کا نعرہ لگایا۔ مذہب کو فروخت کیا نہ یہ واویلا مچایا کہ اسلام کے خلاف سازش ہو رہی ہے۔ وہ ایک کھرے اور دل کی بات منہ پر کرنے والے لیڈر تھے۔ ان کی مخالفت میں مذہب کو استعمال کیا گیا اور وطنیت کو بھی! مگر آفرین ہے برصغیر کے مسلمانوں پر کہ قائداعظمؒ کے مقابلے میں وہ کسی کو خاطر میں نہ لائے۔ انہوں نے اُس شخص کو ووٹ دیئے جو انگریزی لباس پہنتا تھا اور انگریزی بولتا تھا۔ یہی عوام تھے جنہوں نے قائداعظمؒ کے مقابلے میں مذہب فروشوں کے اور وطنیت پرستوں کے بُرج الٹ ڈالے اور دو بڑی طاقتوںکو شکست دے کر الگ ملک حاصل کر لیا۔ یہ شکست بندوق اور توپ سے نہیں‘ ووٹ کی پرچی سے دی! ایسا کارنامہ مراکش سے لے کر ایران تک اور ترکی سے لے کر سوڈان تک کسی اور مسلمان ملک نے آج تک سرانجام نہیں دیا!
تو پھر کیا ہو گیا ہے انہی عوام کو کہ اب ووٹ کی وہی پرچی ہے مگر قائداعظمؒ جیسوں کے بجائے اب وہ کبھی زرداری کو منتخب کرتے ہیں‘ کبھی شہبازشریف اور نوازشریف کو‘ کبھی کسی عمامہ پوش مذہبی تاجر کو اور کبھی کوئی بات تک نہ کر سکنے والے ارب پتی کو!
حیرت ہے اس بات پر کہ وہی عوام جنہوں نے اپنوں اور غیروں کی بھرپور مخالفت کے باوجود پاکستان کو بنانے کے لیے قائداعظمؒ کا ساتھ دیا تھا‘ آج کئی عشروں سے ایسے ’’رہنمائوں‘‘ کو چُن رہے ہیں جو قائداعظم سے اتنی نسبت بھی نہیں رکھتے جتنی کنکر کو ہمالیہ سے ہے اور ذرے کو صحرا سے ہے اور چیونٹی کو چیتے سے ہے!
آپ پنجاب کے والی کو دیکھ لیجیے۔ سنجیدگی اور قناعت سے دور کا بھی تعلق نہیں! چند دن پہلے نذیر ناجی صاحب نے ان کے دس چیلنج نقل کئے۔ ہر چیلنج میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ یہ نہ کر دوں تو میرا نام شہبازشریف نہیں اور وہ نہ کر دوں تو میرا نام شہبازشریف نہیں! ان میں سے کوئی ایک چیلنج بھی پورا نہیں کیا جا سکا! کیا لیڈر اس انداز کے دعوے کرتے ہیں‘ جیسے محلوں میں لڑنے اور جھگڑنے والے نیم تعلیم یافتہ افراد کہتے ہیں کہ یہ نہ کر دوں تو میرا نام بدل دینا؟ افسوس! پاکستانی عوام ان جیسے لوگوں کو ووٹ دے رہے ہیں اور مسلسل دے رہے ہیں!
یہ حقیقت اب مسلمہ ہو چکی ہے کہ والیٔ پنجاب کو امن و امان قائم کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں! یہ ان کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں! وہ افتاد طبع سے صرف اور صرف وزیر مواصلات ہیں۔ ٹرینیں‘ بسیں‘ شاہراہیں اور پُل! اس کے علاوہ کسی شعبے میں دلچسپی ہے نہ کارکردگی کی کوئی رمق دکھائی دیتی ہے۔ وژن اتنا بھی نہیں کہ سوچ سکیں کون کون سے بیرونی عناصر صوبے کی آبادی کو کُلّی طور پر تبدیل کر رہے ہیں! انہیں اس بات سے غرض ہی نہیں کہ ڈاکوئوں‘ چوروں‘ بھتہ خوری اور اغواء کا انسداد کرنا ہے۔ چار دن پہلے ایک خاتون صحافی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ پانامہ لیکس پر بننے والا کمشن ملک میں ہونے والی ڈاکہ زنی کی بھی
تحقیقات کرے گا۔ دوسرے لفظوں میں ڈاکہ زنی کا انسداد حکومت کے فرائض میں شامل ہی نہیں! ارشاد عارف صاحب نے کل ہی بتایا ہے کہ والیٔ پنجاب راجن پور گئے تو ریاض چنگوری نامی شخص نے اغوا برائے تاوان کے حوالے سے فریاد کی اور مدد مانگی! وزیراعلیٰ نے یقین دہانی کرائی اور کچھ بھی نہ ہوا۔کیا کسی اور ملک میں بھی اتنے غفلت شعار اور وعدہ شکن حکمران بار بار ووٹ لینے میں کامیاب ہو سکتے ہیں؟ کوئی مہذب ملک ہوتا تو یہ واقعہ پڑھ کر حکمران فریادی سے اور قوم سے معافی مانگتا اور ناکامی کا اعتراف کرتا۔ ایک واقعہ اس کالم نگار کے ذاتی علم میں ہے۔ کچھ عرصہ قبل لاہور کے ایک نوجوان اعلیٰ تعلیم یافتہ بزنس مین کو بھتے کی پرچیاں ملنا شروع ہو گئیں۔ وہ پولیس کے اعلیٰ افسر تک پہنچا۔ کامیابی نہ ہوئی‘ پھر اس کے کچھ احباب نے صوبے کے حکمران اعلیٰ تک رسائی دلوائی۔ اُسی پولیس افسر کو طلب کیا گیا۔ ایک تقریر کی گئی جس کا لُب لباب یہ تھا کہ ایسی کوئی چیز برداشت نہیں کروں گا۔کوئی نظام ہے نہ سسٹم! جس سے فریادی سے رابطہ رکھا جائے یا معاملے کی تہہ تک پہنچا جائے! پھر انہی احباب نے نوجوان کو مشورہ دیا کہ وہ بیرون ملک چلا جائے!
یہ صرف ایک صوبے کا معاملہ نہیں! ایک پارٹی کا بھی قصّہ نہیں! ذہنی تنزل اس قدر تیزی سے آیا کہ قائداعظمؒ لیاقت علی خان اور عبدالرب نشتر جیسے رہنمائوں کو منتخب کرنے والی قوم یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف کو چننے لگی۔ اب اس کے لیڈر قائم علی شاہ‘ رحمن ملک اور شرمیلا فاروقی ہیں!
فقہ کی بلند ترین مسند پر مولانا شیرانی تشریف فرما ہیں‘ مولانا فضل الرحمن کشمیر کمیٹی کے سربراہ ہیں اور ان دنوں کشمیر آزاد کرانے سرکاری خرچ پر جنوبی افریقہ گئے ہوئے ہیں! یہ سارے حضرات مُنتخَب ہیں!
اس دلیل میں کہ جمہوریت صرف اعلیٰ تعلیم یافتہ اقوام کے لیے ہے‘ زیادہ وزن نہیں! قبائلی معاشروں میں جہاں ہرکام مشورے سے ہوتا ہے‘ کتنی تعلیم ہوتی ہے؟ اگر یہ دلیل مان لی جائے تو ہر غیر تعلیم یافتہ یا ناخواندہ شخص بھوک سے مر رہا ہو۔ عقل کا ڈگری سے یا سند سے کیا تعلق؟ کیا یہی ناخواندہ ووٹر کروڑوں کے کاروبار نہیں کر رہے؟ کیا یہی نیم تعلیم یافتہ افراد وسیع جائیدادوں اور جاگیروں کا انتظام کامیابی سے نہیں چلا رہے؟ کیا یہ ناخواندہ اور غیر تعلیم یافتہ پاکستانی اپنے مکان بناتے وقت‘ کاروبار کرتے وقت اور بچوں کے رشتے طے کرتے وقت غلط معمار‘ غلط نقشہ نویس‘ غلط ملازم اور غلط سمدھی کا انتخاب کرتے ہیں؟ نہیں، ہرگز نہیں؟ یہ سب گانٹھ کے پکے ہیں‘ اپنے اپنے میدانوں میں کمال ہوشیاری دکھا رہے ہیں۔ پھر کیا وجہ ہے کہ ووٹ دیتے وقت ظلم ڈھاتے ہیں؟ انہیں چُنتے ہیں جو حکمرانی کے اہل نہیں! جانتے بوجھتے ہوئے کیا عجب 2018ء میں بھی بیلٹ بکسوں سے یہی حکمران نکلیں!
عوام کے ذوق میں یہ پستی کیسے آئی؟ ان کا معیار انتخاب کیونکر اس قدر گر گیا؟ کیا افتاد پڑی؟ ستر سالوں میں چوٹی سے گر کر پاتال میں قوم کس طرح گری؟
ہے کوئی سکالر‘ کوئی تجزیہ کار‘ سوشیالوجی کا کوئی ماہر؟ جو اس گرہ کو کھولے؟
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے