نوجوان نسل کی خوش فکر شاعرہ بلقیس خان 15 مارچ، وادی غنڈی، میانوالی میں پیدا ہوئیں، آپ نے بچلر آف کامرس "واہ کینٹ" سے کیا اور ماسٹر ان اردو پنجاب یونیورسٹی سے، ان دنوں آپ ایک نجی بینک میں اپنے فرائض انجام دے رہی ہیں. آپ نے شاعری کا آغاز اسکول کے زمانے سے کیا اور اسکول ہی کے زمانے سے مختلف ادبی سرگرمیوں میں سرگرم رہیں، آپ کی پسندیدہ صنف غزل ہے. آپ کے اشعار اپنے اندرون ایک نورانی نظام کا احساس دلاتے ہیں، آپ غزل کو اپنے ڈھنگ سے پیش کرنے کا ہنر جانتی ہیں اور فیشنبل شاعری سے بالکل انحراف کرتے ہوئے غزل کو اس کا حسن ادا کرتی ہیں، آئیے! ان کے کلام سے ملتے ہیں اور ان میں چھپے معانی تلاش کرتے ہیں
_______________________________
غزل نمبر 1
لگا کے نقب کسی روز مار سکتے ھیں
پرانے دوست نیا روپ دھار سکتے ھیں
ہم۔اپنے لفظوں میں صورت گری کے ماہر ھیں
کسی بھی ذہن میں منظر اتار سکتے ھیں
بضد نہ ھو کہ تری پیروی ضروری ہے
ہم اپنے آپ کو بہتر سدھار سکتے ھیں
وہ ایک لمحہ کہ جس میں ملے تھے ہم دونوں
اس ایک لمحے میں صدیاں گزار سکتے ھیں
ہماری آنکھ میں جادو بھرا سمندر ہے
ہم اس کا عکس نظر سے نتھار سکتے ہیں
________________
غزل نمبر 2
دشمن بنامِ دوست، بنانا مجھے بھی ہے
اس جیسا روپ اسکو دکھانا مجھے بھی ہے
میرے خلاف سازشیں کرتا ہے روز وہ
آخر کوئی قدم تو اٹھانا مجھے بھی ہے
انگلی اٹھا رہا ہے تو کردار پر مرے
تجھکو ترے مقام پہ لانا مجھے بھی ہے
نظریں بدل رہا ہے اگر وہ، تو غم نہیں
کانٹا اب اپنی رہ سے ہٹانا مجھے بھی ہے
میں برف زادی کب سے عجب ضد پہ ہوں اڑی
سورج کو اپنے پاس بلانا مجھے بھی ہے
______________
غزل نمبر 3
تمھاری یاد کا اک دائرہ بناتی ہوں.
پھر اس میں رہنے کی کوئی جگہ بناتی ہوں.
وہ اپنے گرد اٹھاتا ہے روز دیواریں.
میں اس کی سمت نیا راستہ بناتی ہوں.
زمانہ بڑھ کے وہی پیڑ کاٹ دیتا ہے.
میں جس کی شاخ پہ اک گھونسلہ بناتی ہوں.
وہ گھول جاتا ہے نفرت کی تلخیاں آ کر.
میں چاہتوں کا نیا ذائقہ بناتی ہوں.
خیال و حرف تغزل میں ڈھال کر بلقیس.
میں اپنے درد سبھی غزلیہ بناتی ہوں.
________________
غزل نمبر 4
سو صدیوں کا نوحہ ہے
تم کہتے ہو نغمہ ہے
دھول اڑاتی جھریوں میں
تہذیبوں کا ملبہ ہے
مٹی کے دو کوزوں میں
کچھ خوابوں کا گریہ ہے
ریشم ہی سے ادھڑے گا
یہ پھولوں کا بخیہ ہے
جتنا بھی تم صاف کرو
دھبہ آخر دھبہ ہے
اس گھر کی ویرانی کا
جنگل جیسا حلیہ ہے
در آتی ہے چپکے سے
یاد پہ کس کا پہرہ ہے
آنکھوں کی ویرانی سے
دل کو لاحق خطرہ ہے
________________
غزل نمبر 5
ہمارے دل کا نہ در کھٹکھٹا پریشانی
ہزار غم ھیں یہاں ، لوٹ جا پریشانی
میں اپنا درد سنا ائی ہوں درختوں کو
مجھی کو کیوں رہے لاحق سدا پریشانی ،
میں اپنے آپ سے الجھی ہوئی ہوں مدت سے
مزید آ کے نہ الجھن بڑھا پریشانی
کسی بھی طور نہ خاطر میں لاؤں گی تجھ کو
مجھے نہ اپنے یہ تیور دکھا پریشانی
عجب سوار ہے وحشت ، سو مجھ سے بچ کے گزر
میں نوچ ڈالوں گی چہرہ ترا پریشانی،
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔