عالمی یوم خواتین پر ایک پیغام !
اسمیں کوئی شک نہیں کہ وجود زن سے تصور کائنات ہے ، عورت جہاں کی زینت ہے خوبصورتی ہے، وقار جہاں آرا ہے، معاشرہ کی آبرو ہے، اسی کے دم سے معاشرہ ہے آبادی ہے اور ہر سو ایک چہل پہل ہے، اس کا وجود عالم کا وجود ہے اس کے عدم وجود سے تصور کائنات بیجا ہے، لیکن اس صنف نازک مخلوق کو مختلف ادوار میں مختلف قسم کے آلام و مصائب کا سامنا کرنا پڑا ہے، اس کی مظلومیت کی ایک لمبی داستان ہے جو دلدوز بھی ہے اور المناک بھی، پر آشوب بھی ہے اور پر نم بھی،
اگر اسلام کے پہلے کی تاریخ پر نظر ڈالیں اور دور جاہلیت کا مطالعہ کریں تو عورتوں کی بے بسی ولا چاری اس کی مظلومیت اوراس کے ساتھ سوتیلا پن کے روئیے کی ایک لمبی داستان ملتی ہے، پیدا ہوتے ہی زندہ درگور کردیا جانا ایک عام سی بات تھی، اس کی پیدائش باپ کیلئے ذلت و رسوائ اور ایک لمحہ فکریہ تھی، قبل اس کے کہ وہ لڑکی کی پیدائش پر لعنت و ملامت، طعن و تشنیع کا نشانہ بنتے پیدا ہوتے ہی منوں مٹی کے نیچے دبا دی جاتی، قرآن نے بھی اس جانب اشارہ کیا ہے۔، ارشاد باری،
اور جب ان میں سے کسی کو لڑکی کی پیدائش کی خوشخبری دی جاتی تو اسکا چہرہ فق پڑ جاتا اور لوگوں سے رسوائ کے سبب منہ چھپاتے پھرتے کیا وہ اس ذلت پر ٹھرا رہے یا پھر اس کو زمیں بوس کردیا جائے، سو کیا ہی برا فیصلہ ہے جو یہ کرنے جارہے ہیں،۔،
لیکن جب اسلام کا ظہور ہوا اور دنیا پر اس کے احکامات کا ڈنکا بجنے لگا تو پھر اسلام نے عورتوں کو وہ مقام عطا کیا جو دنیا کے کسی مذہب نے نہیں عطا کیا، اس کے وجود کو بخشا، اس کی عصمت و عفت کی حفاظت کی زندہ رہنے کا حق دیا، اس کے وقار کو بڑھایا، شان کو دوبالا کیا اور دنیا کیلئے زینت کا سامان بنا دیا، قرآن نے جگہ جگہ اسکے وجود کو سراہا اس کے حقوق بیان کیا اور متعدد مقامات پر اس کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید کی، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی سخت انداز میں اس کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید کی چنانچہ ارشاد فرمایا" استوصو بالنساء خیرا"
یعنی عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کرو ۔۔ اس کے حقوق پامال نہ ہونے پائیں، اس کے ساتھ ظلم و زیادتی کا معاملہ نہ ہو اور پھر اس کے مقام و مرتبہ کو بیان کرتے ہوئے فرمایا، ماں کے قدموں تلے جنت ہے، ایک دوسری جگہ فرمایاکہ دنیا کا سب سے بہترین متاع نیک عورت ہے، ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ سب سے افضل عورت کون ہے؟
آپ نے ارشاد فرمایا۔ سب سے افضل عورت وہ ہے کہ جب اس کا شوہر اس کی جانب دیکھے تو خوش ہو جائے، اس کے حکم کی تابعداری کرے، اور اس کی مرضی کے خلاف کوئی قدم نہ اٹھاے،
گویا معلوم ہوا کہ اگر عورت ماں ہے تو اس کے قدموں تلے جنت ہے، اگر وفادار بی وی ہے تو سب سے افضل عورت ہے، اور اگر نیک ہے تو دنیا کا بہترین متاع بے، یہ وہ مقام ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو دیا ہے،
اسلام نہ صرف عزت و آبرو کی حفاظت کی تعلیم دیتا ہے بلکہ اس کا طریقہ بھی بتاتا ہے اور ایسا طریقہ جس سے اس کی ظاہری و باطنی آبرو محفوظ رہے، چنانچہ ارشاد فرمایا گیا؛ عورتیں اپنے گھروں میں ٹھری رہیں اور زمانہ جاہلیت کی طرح آوارہ نہ پھریں، ایک دوسری جگہ فرمایا! عورتیں اپنے اوپر پردہ ڈال لیا کریں، اس کو اور باریکی سے بیان کیا! کہ عورتیں اپنا پاؤں زمین پر نہ پٹخکیں جس سے اس کی زینت ظاہر ہو!
معلوم ہوا کہ اسلام نے کس طرح چاروں طرف سے اس کی عفت و عصمت کو گھیر دیا تاکہ دنیا کو معلوم ہو جائے کہ عورت گھر کی زینت ہے بازاروں میں اس کی کوئی جگہ نہیں، عزت و آبرو بڑھ کر ہے نمائش نہیں، پاکدامنی اس کی خوبی ہے بے جا رسوم انہیں زیبا نہیں، اس کی خوبصورتی گھر آگن میں ہے سینما گھر اور فاحشات کے اڈوں پر نہیں،
مگر افسوس دنیا نے اس کو قید سمجھا اور یہ دعویٰ کردیا بلکہ اسلام پر الزام لگایا کہ اسلام نے عورتوں کو قید کر رکھا ہے، عورتوں کو وہ حقوق نہیں دیا جس کے وہ مستحق تھیں، وہ آزادی نہیں مل سکی جو انہیں ملنی چاہئے تھی، چنانچہ زمانہ نے کروٹ لی مغربی کلچر کو ابھارا، اسلامی آبادی اور اسلامی تہذیب کو دبایا، عورتوں کو ننگا کیا حجاب پر پابندی لگائی، بازاروں میں نمائش ہونی لگی، اور ہر جگہ عورتوں کا بازار گرم ہونے لگا تو پھر انسانوں میں خواہشات پنپنے لگیں اور پھر ہوس پرستوں نے سر عام عورتوں کو ٹارگیٹ کرنا شروع کیا اور ان کی عزتیں لوٹی جانیں لگیں، عفت و عصمت کو تار تار کیا جانے لگا، بالآخر عورتوں کو ایک بے حیثیت لونڈی کے درجہ میں لے آیا، مجبوراً اقوام متحدہ کو یہ چارٹ لانا پڑا کہ عورتوں کی عزت و آبرو کو یقینی بنایا جائے، جب کہ اسلام نے یہ قانون چودہ سو سال پہلے ہی لاگو کردیا تھا،
زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ عورتوں کی وقعت گرتی گئی اس کا وقار ختم ہونے لگا ہر طرف سے اس کو نشانہ بنایا جانے لگا ہوس پرستوں کا بازار گرم ہوا تو دنیا کو اس کی عزت و آبرو کی فکر لاحق ہوئی لہذا اس کی عظمت کی بحالی کیلئے یوم خواتین منانا شروع کیا جو فقط رسمی ہے، نہ جانے دنیا میں یہ کون سا رواج چل پڑا ہے کہ جب کسی کی عزت و احترام میں کمی آنے لگے تو اس کا۔دن ۔ منا لیا جاتا ہے، جیسے۔ مدر ڈے، فادر ڈے، ٹیچر ڈے وغیرہ، جب عورتوں کے ساتھ یہ معاملہ شروع ہوا تو یورپین سے عالمی یوم خواتین کی تحریک شروع ہوئی یہ ہر سال 8 مارچ کو منایا جاتا ہے، اس کی ابتدا 28 فروری 1909 میں امریکہ سے ہوئی پہلا عالمی یوم خواتین 1910 میں کوپن ہیگن میں منعقد کی گئی اور پھر 8 مارچ 1913 کو پورے یورپ بھر میں ریلیاں نکالی گئیں اور بڑے دھوم دھام سے عالمی یوم خواتین منایا گیا جسکا سلسلہ ہنوز جاری ہے اور معلوم نہیں کب تک جاری رہے گا،
لیکن کیا عالمی یوم خواتین منانے سے عورتوں کے سارے مسائل حل ہو گئے؟ یا حل ہو جائیں گے؟ کیا ان کی عزتیں لوٹی نہیں جارہی ہیں اور حد تو یہ کہ جبرا عصمت دری کرکے موت کی بھینٹ چڑھا دی جاتی ہیں، یہ کوئ نئ بات نہیں کہ اس پر تعجب کیا جائے آے دن مشاہدہ ہوتے رہتا ہے، اور کیا جہاں سے یہ تحریک چھڑی تھی وہاں عورتیں محفوظ ہیں؟ ظاہر ہے کسی کا دن منانے سے اس کی عظمت بحال نہیں ہوسکتی اس کی آبرو کے تحفظ کو یقینی نہیں بنایا جاسکتا، وہ الگ بات ہے کہ یہ رسم بڑی دھوم دھام سے پوری کرلی جاتی ہے اور خوب وعدے ہوتے ہیں لیکن معاملہ اس کے برعکس ہوتا، اس اندھی دنیا کو کون سمجھائے کہ جب تک عورتیں بازار کی نمائش بنتی رہیں گی سینما گھروں میں فحاشی کے اڈوں میں جاتی رہیں گی اور مردوں کے لباس پہن کر گھومتی رہیں گی اس وقت تک وہ نشانہ پر ہوں گی اور ہر طرح کے ستمرانیوں کا انہیں سامنا ہوتا رہیگا، جب تک ان پر وہ پاندیا نہیں عائد کی جائیں گی جو اسلام نے ان کے شایان شان مقرر کیا ہے اس وقت تک وہ نشانہ پر ہوں گی، اس وقت جو ہوا چل رہی ہے وہ اسلام کے اس پابندی کی حمایت کرتی نظر آرہی ہے جس کو دنیا قید سمجھ رہی ہے اور عورتیں بھی چاہے کسی بھی مسلک کا ہو یہ کہ رہی ہیں کہ پردہ میں ہم خود کو محفوظ محسوس کرتی ہیں، نتیجتا دنیا بھی تسلیم کے دہانے پر ہے اور یہ ماننے پر مجبور ہے کہ یوم خواتین کچھ نہیں ہے بلکہ اصل مسئلہ عورتوں کو دوسرے کی بھینٹ چڑھ جانے سے روکنا ہے
اس لئے دنیا کو چاہیے کہ اس کا جو مقام بلند ہے وہ بحال کیا جائے عورتیں وہ لباس نہیں جس کو من چاہا زیب تن کیا نہیں چاہا پھینک دیا، عورتیں ہماری شان ہیں گھر کی عزت ہیں، معاشرہ کی رونق ہیں، دنیا کیلئے روشنی ہے اس روشنی کو اگر بجھانے کی کوشش کی گئی تو دنیا اندھیری ہو جائے گی،
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...