عید کا دن بہت مبارک اور خدا کی مہمانی کا دن ہے، آج کے دن ہم سب خدا کے مہمان ہیں، اسی وجہ سے آج کا روزہ حرام ہوگیا، کیوں کہ جب خدا نے ہمیں مہمان بنا کر کھانے پینے کا حکم دیا ہے تو ہم کو اس سے منہ موڑنا نہیں چاہئیے، آج کے دن روزہ رکھنا گویا خدا کی مہمانی کو رد کرنا ہے، یہ ہم مسلمانوں کا بہت بڑا تیوہار ہے، ہمارے تیوہار میں کھیل تماشا اور ناچ گانا وغیرہ نہیں ہوتا، کسی کو تکلیف دینا ستانا نہیں ہوتا، بلکہ جس کو خدا نے دیا ہے وہ دوسروں کی ضرورت کو پوری کرتا ہے،مالدار جب اپنے پھول سے بچے کو اجلے اجلے کپڑوں میں خوشی خوشی اچھلتا کودتا دیکھتا ہے تو غریب کے مرجھائے ہوئے اور اس کے بچوں کی حسرت بھری نظریں اس سے دیکھی نہیں جاتیں، مسلمان دولتمند اپنے گھر کے اس قسم کے خوشبودار اور لذیذ کھانوں کو اس وقت تک ہاتھ نہیں لگاتا جب تک کہ مفلس پڑوسی کے گھر میں دھواں اٹھتا ہوا نہ دیکھ لے، ۔ بھلا میری کیا عید اگر میرا پڑوسی آج کے دن بھی بھوکا رہا، الغرض ہمارے اس تیوہار میں بفضل اللہ تعالیٰ ہر ضرورت مند کی ضرورت پوری ہوجاتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے۔۔ صدقہ فطر کا ایسا نظام بنایا ہے کہ ہر مسلمان اس کو بڑی خوش دلی کے ساتھ نبھاتا ہے، اور جو دولت مند مسلمان اس کو ادا نہ کرے اس کیلئے سخت وعیدیں سنائی گئی ہیں، چونکہ صدقہِ فطر رمضان المبارک میں ادا کیا جاتاہے اس لئے ضروری ہے کہ اس کے کچھ بنیادی مسائل آپ کی خدمت میں پیش کروں تاکہ اس سلسلے میں ہم سے کوئی کوتاہی نہ ہو،
★ صدقہ فطر کے شرائط★
صدقہ فطر واجب ہے فرض نہیں اور صدقہ فطر کے واجب ہونے کیلئے صرف تین چیزیں شرط ہیں، (١) آزاد ہونا۔ (٢) مسلمان ہونا، (٣) کسی ایسے مال کے نصاب کا مالک ہونا جو اصلی ضرورتوں سے فارغ ہو، اور قرض سے بالکل یا بہ قدر ایک نصاب کے محفوظ ہو، اس مال پر سال کا گزرنا شرط نہیں نہ مال کا تجارتی ہونا شرط ہے، نہ صاحب مال کا بالغ ہونا اور عاقل ہونا شرط ہے، جہاں تک نابالغ بچوں اور مجنونوں پر صدقہ فطر واجب ہے ان کے اولیاء کو ان کی طرف سے ادا کرنا چاہیے، اور اگر ولی نہ ادا کرے اور وہ اس وقت خود مالدار ہوں تو بالغ ہوجانے کے بعد یا جنون زائل ہونے کے بعد خود ان کو عدم بلوغ یا جنون کے زمانہ کا صدقہ ادا کر دینا چاہیے،
صدقہ فطر کا حکم آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی وقت دیا تھا جس سال رمضان کے روزے فرض ہوۓ تھے،
صدقہ فطر کی مصلحت یہ معلوم ہوتی ہے کہ وہ دن خوشی کا ہے اور اس دن اسلام کی شان و شوکت کثرت جمعیت کے ساتھ دکھائی دیتی ہے، اور صدقہ دینے سے یہ مصلحت خوب کامل ہوجاتا ہے علاوہ اس کے اس میں روزہ کی تکمیل ہے، صدقہ فطر دینے سے روزہ مقبول ہوتا ہے، اور اس صدقہِ میں حق تعالیٰ کا مزید احسان کہ اس کو رمضان سے مشرف کیا، اور اس میں ہم کو روزہ رکھنے کی توفیق عطا کی، / علم الفقہ ج٤ص٥٠/
ضرورت اصلیہ کیا ہے ,
کسی کے پاس بڑا بھاری گھر ہے اگر بیچا جائے تو ہزار پانچ سو کا بکے اور پہننے کے قیمتی قیمتی کپڑے ہیں مگر ان میں سونے چاندی کا گوٹا نہیں ہے، اور خدمت کیلئے گھر میں دو چار خدمت گار بھی ہیں گھر میں ہزار پانچ سو کا ضروری اسباب بھی ہے مگر زیور نہیں، اور وہ سب کام میں آیا کرتا ہے، یا کچھ سامان ضرورت سے زائد بھی موجود ہے اور کچھ سچا گوٹا اور زیور وغیرہ بھی ہے لیکن وہ اتنا نہیں جتنے پر زکوٰۃ واجب ہوتی ہے تو ایسے پر صدقہ فطر واجب نہیں، / بہشتی زیور حصہ سوم ص ٣٤بحوالہ نور الایضاح ج١ ص ٦١/
نیز کسی کے پاس ضروری سامان سے زائد اسباب بھی ہے لیکن وہ قرض دار ہے، تو پھر قرض کا اندازہ لگایا جائے گا اور دیکھا جائے گا کہ کچھ بچتا ہے کہ نہیں اگر اتنی قیمت کا سامان بچ جائے جتنے پر زکوٰۃ واجب ہے تو صدقہ واجب ہے اور اگر اس سے کم بچے تو واجب نہیں،۔ ہدایہ ج ١ ص٢٨٩/
جو صاحب نصاب نہ ہو اس کیلئے حکم،
ایک حدیث شریف میں فرمایا گیا ہے کہ۔۔غنی بھی صدقہ فطر ادا کرے اور فقیر بھی صدقہ دے۔۔ ان دونوں کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ۔۔ اللہ تعالیٰ اس مالدار کو تو صدقہ فطر ادا کرنے سے تو پاکیزہ بنا دیتے ہیں اور فقیر جو مالک نصاب نہ ہو اس کو اس سے زیادہ عنایت فرماتا ہے، جتنا اس نے صدقہ فطر کے طور کے برابر ادا کیا،
یہ بشارت اگر چہ مالدار کیلئے بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے مال میں کہیں زیادہ برکت عطا فرماتے ہیں جتنا اس نے دیا ہے،مگر اس بشارت کو فقیر کے ساتھ اس لئے مخصوص فرمایا کہ اس کی ہمت افزائی ہو اور وہ صدقہ فطر دینے میں پیچھے نہ رہے،۔۔ /مظاہرہ حق جدید قسط سوم ج٢ ص ٥٨/
صدقہ فطر کس وقت واجب ہوتا ہے؟
صدقہ فطر کا وجوب عید الفطر کی فجر طلوع ہونے پر ہوتا ہے لہذا جو شخص قبل طلوع فجر مرجاے یا فقیر ہو جائے اس پر صدقہ فطر واجب نہیں، اسی طرح جو شخص بعد طلوع فجر کے اسلام لائے اور مال پا جائے یا جو لڑکا لڑکی فجر طلوع ہونے سے پہلے پیدا ہو یا جو شخص فجر طلوع ہونے سے پہلے اسلام لائے یا مال پاجاے اس پر صدقہ فطر واجب نہیں، ( علم الفقہ حصہ چہارم ص٥٢)
عید کے دن جس وقت فجر کا وقت آتا ہے اسی وقت یہ صدقہ واجب ہوجاتا ہے اگر کوئی فجر کا وقت آنے سے پہلے مر گیا تو اس پر صدقہ فطر واجب نہیں اس کے مال میں سے نہیں دیا جائے گا، ( عالمگیری ج١ ص ١٩٢)
رمضان سے پہلے صدقہِ فطر دینا،
سوال۔۔ صدقہِ فطر کی ادائیگی کا کیا وقت ہے؟ رمضان سے پہلے مثلاً شعبان یا رجب میں ادا کردے تو جائز ہے یا نہیں؟
جواب۔۔۔ اختلافی مسئلہ ہے، رمضان سے پہلے کا قول بھی ہے اس پر عمل کرنا خلاف احتیاط ہے، ماہ رمضان میں بھی ادا کرنے میں اختلاف ہے مگر قوی یہ ہے کہ درست ہے اور صدقہ ادا ہو جائے گا، ( فتاویٰ رحیمیہ ج٥ص١٧٢)
صدقہ فطر رمضان شریف میں دینا درست ہے خواہ کسی بھی عشرہ میں دے دے، ( فتاویٰ دارالعلوم ج٦ص ٣٠٥)
صدقہ فطر کس کس کی طرف سے دینا واجب ہے؟
صدقہ فطر ادا کرنا اپنی طرف سے بھی واجب ہے اور اپنی نابالغ اولاد کی طرف سے بھی اور بالغ کی طرف سے بھی بشرطیکہ وہ فقیر یعنی صاحب نصاب نہ ہوں اور اپنی خدمت گار لونڈی غلاموں کی طرف سے بھی اگر چہ وہ کافر ہوں، نابالغ اولاد اگر مالدار ہو تو ان کے مال سے ادا کرے، اور اگر مالدار نہیں ہے تو اپنے مال سے،
بالغ اولاد اگر مالدار ہوں تو ان کی طرف سے صدقہ فطر ادا کرنا واجب نہیں ہاں احسانا اگر کردے تو جائز ہے، یعنی پھر ان اولاد کو دینے کی ضرورت نہیں رہے گی،اور اگر بالغ اولاد مالدار تو ہوں مگر مجنون ہوں تو ان کی طرف سے صدقہ فطر ادا کرنا واجب ہے مگر انہیں کے مال سے، جو لونڈی غلام خدمت کے نہ ہوں بلکہ تجارت کے ہوں ان کی طرف سے صدقہ فطر ادا کرنا واجب نہیں،
باپ اگر مرگیا ہو تو دادا باپ کے حکم میں ہے یعنی پوتے اگر مالدار ہوں تو ان کے مال سے ورنہ اپنے مال سے ان کا صدقہ فطر ادا کرنا واجب ہے، ( علم الفقہ ج۔ ٣ص ٥٢)
صدقہ فطر میں اجازت کی ضرورت ہے یا نہیں؟
سوال۔۔ جس طرح کسی دوسرے شخص کی زکوٰۃ اس کی اجازت کے بغیر ادا نہیں ہوتی تو کیا یہی حکم صدقہِ فطر کا بھی یا کچھ فرق ہے؟
جواب۔۔۔۔
ہاں۔ یہی حکم صدقہِ فطر کا بھی ہے، یعنی اجازت ضروری ہے لیکن چونکہ صدقہِ فطر کی مقدار کم اور معلوم ہے اس لئے بیوی اور اولاد کی طرف سے جو اس کے زیر کفالت میں ہیں ادا کردیتا ہے، اور عادتاً آس کی اجازت ہوتی ہے، اس لیۓ استحسانا جائز ہے، بخلاف زکوٰۃ کے کہ اس کی مقدار نا معلوم ہے اور زیادہ ہوتی ہے بغیر کہے ادا کرنے کی ضرورت نہیں ہے اس لئے اجازت اور وکالت ضروری ہے، ( فتاویٰ رحیمیہ ٥ص٢٨٣)
صدقہ فطر کی مقدار،
صدقہ فطر میں گیہوں یا گیہوں کا آٹا یا گیہوں کا ستو دے تو اسی کے سیر یعنی آدھی چھٹانک اور پونے دو کیلیو بلکہ احتیاط کیلئے پورے دو کیلو یا کچھ زیادہ ہونا چاہیے کیونکہ کہ زیادہ ہونے میں کچھ حرج نہیں بلکہ بہتر ہے اور اگر جو یا جو کا آٹا دے تو اس کا دو گنا دینا چاہیے اور اگر جو کے علاوہ کوئی اور اناج دے جیسے چنا، چاول تو اتنا دے کہ اسکی قیمت اتنے گیہوں کے برابر ہو جائے، جسمیں پونے دو کیلیو گیہوں آسکیں، ( بہشتی زیور حصہ سوم ص ٣٥بحوالہ فتاویٰ عالمگیری ج٣ص٢٩٢)
★ کیا چاول دینے سے فطرہ ادا ہو جائے گا★
در مختار میں ہے کہ اگر کوئی شخص صدقہ فطر میں چاول ادا کرنا چاہے تو اس چاول کا کوئی وزن پیمانہ معتبر نہیں بلکہ وہ چاول اس قدر ہوں کہ قیمت میں پونے دو کیلیو گیہوں یا ایک صاع جو کے ہو جائیں تو اس وقت صدقہِ فطر ادا ہو جائے گا، اگر کسی نے پونے دو کیلیو چاول دے دیا اور وہ قیمت میں اشیاء مذکورہ سے کم ہو تو صدقہ فطر ادا نہ ہوگا، ( امدا الفتاوی ج ایک ص ١٥٢)
★ صدقہِ فطر میں میدہ یا اس کی قیمت دینا★
جب آٹا ( میدہ) خالص گیہوں کا ہو اس میں کسی اور چیز کی ملاوٹ نہ ہو اور پونے دو کیلیو دیا جائے تو صدقہ فطر ادا ہو جائے گا اسی طرح اس کی قیمت دی جائے تب بھی صدقہ فطر ادا ہو جائے گا،لیکن اگر میدہ میں کسی اور چیز کی ملاوٹ ہو تو پھر اس سے صدقہ فطر ادا نہ ہوگا اس کی قیمت بھی اگر دی جائے تو تو بھی ادا نہ ہوگا خالص گیہوں کی قیمت سے صدقہ فطر ادا کیا جائے گا، ( فتاویٰ رحیمیہ ج٥ ص ١٧٧)
★ جو مختلف غلہ استعمال کرتا ہو وہ کیا کرے★
صدقہ فطر اس غلہ میں سے ادا کرے جو خود استعمال کرتا ہو، اگر کوئی شخص گیہوں استعمال کرتا ہے تو اس کیلئے جو کا دینا صحیح نہ ہوگا، اگر مختلف غلہ استعمال کرتا ہے تو وہ غلہ دے جو سب سے زیادہ بہتر ہو، اگر کوئی معمولی غلہ بھی دے دیگا تو صدقہ فطر ادا ہو جائے گا، ( احیاء العلوم ج١ قسط نمبر ٤ ص١٢٦)
★ صدقہِ فطر میں شہر یا ضلع کی قیمت کا اعتبار★
سوال۔۔
اگر کسی جگہ گیہوں نہ ملیں اور آٹا زیادہ قیمت کا ملتا ہو اور شہر میں گندم کی قیمت کم ہو تو شہر کی قیمت سے صدقہ فطر ادا کرنا کیسا ؟
جواب،،،،
اپنی بستی کے حساب سے صدقہ فطر ادا کرنا چاہے اگر وہاں گندم نہ ملیں تو آٹا کی قیمت کا حساب کرنا چاہیے یا جو اور چھوہارے کے صاع کی قیمت کا حساب کرنا چاہیے غرض جو جنس ( منصوص یعنی جن کا حدیث میں ذکر ہے مثلاً گیہوں چوہارے، منقی جو، کا ایک صاع) وہاں ملتی ہو اس کی قیمت کا حساب کیا جائے گا، ( فتاویٰ دارالعلوم ج٦ ص ٣٢٢)
★سب سے بہتر فطرہ★
اگر گیہوں یا جو کی قیمت دے دی جائے تو یہ سب سے بہتر ہے، ( عالمگیری ج١ص١٩٢)
اگر زمانہ ارزانی کا ہو تو نقد دینا بہتر ہے اگر خدانخواستہ گرانی کا ہو تو کھانے کی چیزوں کا دینا افضل ہے،
★ غیر ممالک والوں کا فطرہ کس حساب سے دیا جائے★
سوال۔۔۔
بیرون ممالک کے باشندے اپنے خویش و اقارب سے فطرہ کی ادائیگی کیلئے لکھتے ہیں کہ ہماری طرف سے اتنے فطرہ ادا کردیں ، احتیاطاً چار سیر گیہوں یا اس کی قیمت دے دی جاتی ہے، معلوم یہ کرنا ہے کہ ان کے فطرہ کی قیمت یہاں پر کس قیمت پر ادا کی جائے گی یہاں کی قیمت سے یا وہاں کی قیمت سے؟
جواب۔۔۔
ان کے فطرے عمدہ قسم کے گیہوں پونے دو کیلیو ادا کرے یا وہاں کے حساب سے گیہوں کی قیمت دیجاے، اگر یہاں کے گیہوں کی قیمت زیادہ ہوتی ہے تو یہاں کے حساب سے ادا کرے، بہتر یہی ہے کہ گیہوں دیدے، اور اگر قیمت دے تو وہ قیمت لگائی جائے جسمیں صدقہ لینے والے غریبوں کا فائدہ ہو، ( فتاویٰ رحیمیہ ج٣ص١١٣)
★ عہد نبوی میں فطرہ کس وقت دیا جاتا تھا★
در مختار میں لکھا ہے جسکا حاصل یہ ہے کہ صدقہِ فطر نماز سے پہلے ادا کرنا مستحب ہے، ۔ اور یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم اور فعل کے مطابق ہے، چنانچہ مشکوۃ شریف میں حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ۔۔ آپ علیہ السلام نے عید کی نماز کیلئے جانے سے پہلے صدقہِ فطر کے نکالنے کا حکم فرمایا ہے، پس اس کے خلاف جو کرے مثلاً کسی جگہ ایک سردار کے پاس جمع رہتا ہے پھر وہ اپنی مرضی سے خرچ کرتا ہے وغیرہ وغیرہ، یہ سب خلاف سنت اور بے اصل ہے،
( فتاویٰ دارالعلوم ج٦ ص ٣٠٣بحوالہ مشکوۃ باب صدقہِ الفطر)
★ مسجد کے امام کو صدقہ دینا★
سوال۔۔
امام مسجد کو صدقہِ فطر دینا کیسا ہے؟
جواب۔۔
امامت کی وجہ سے اسکو فطرہ دینا جائز نہیں، ( فتاویٰ دارالعلوم ج٦ ص٣٢٨)
★ نابالغ کو فطرہ دینا★
سوال۔۔
فطرہ غریب و یتیم مسکین نا بالغ بچوں کو دینے سے ادا ہوجاتا ہے یا نہیں؟
جواب۔۔
اگر غریب نابالغ ہو تو ان کو صدقہِ فطر دینا جائز نہیں البتہ ان کیلئے سرپرستوں کو دینا جائز ہے،
اگر وہ بچے سمجھدار ہیں تو خود ان کو بھی دینا جائز ہے اور اگر وہ بچے مالدار کے ہیں تو ان کو کسی بھی طرح دینا درست نہیں، ( فتاویٰ محمودیہ ج٧ ص٢٦٩)
★ صدقہ کی تقسیم کا طریقہ★
ایک آدمی کا صدقہ فطر ایک ہی فقیر کو دیدے یا تھوڑا کرکے کئ فقیروں کو دے دونوں باتیں جائز ہیں نیز اگر کئ آدمیوں کا صدقہ فطر ایک ہی فقیر کو دیدے تو یہ بھی درست ہے، لیکن وہ اتنے آدمیوں کا نہ ہو کہ یہ سب مل کر نصاب زکوٰۃ یا نصاب صدقہ فطر کو پہنچ جائے اس لئے اس قدر ایک شخص کو دینا مکروہ نیز صدقہِ فطر کے مستحق وہ ہیں جو زکوۃ کے مستحق ہیں،
غیر مسلم کو بھی صدقہِ فطر دینا درست ہے لیکن زکوٰۃ دینا جائز نہیں،
( بہشتی زیور حصہ سوم ص٣٦ بحوالہ فتاویٰ ہندیہ ج١ص١٩١)
نوٹ۔۔
صدقہ فطر جیسے بھی ہو ہر حال میں نکالنا چاہئے تاکہ اپنی خوشی کے ساتھ ساتھ ان بیکسوں کی بھی کچھ دل جوئی ہو جائے جو لقمہ لقمہ کے محتاج ہیں، اور یہ انسانیت بھی ہے کہ ایک دوسرے کی مدد کی جائے، اور اس کا اجر اللہ کے یہاں جو ہے اس کا تو پوچھنا کیا،
اس سال پونے دو کیلیو گیہوں کی قیمت پینتیس روپے ہے اسی حساب سے اپنا صدقہِ فطر ادا کریں۔،
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...