میرے ساتھ کچھ عرصے سے بڑا عجیب سا چکر چل نکلا تھا۔ میں سوتاتو اچانک کسی شدید احساس کے زیر اثر اٹھ بیٹھتا۔ کتاب پڑھتے پڑھتے اچانک اسے بند کر کے ادھر ادھر کسی شے کو ڈ ھونڈنے لگتا‘ کبھی کبھار تو کھا نا کھاتے ہو ئے نوالہ ابھی منہ کے قریب ہی لاتا کہ مجھے احساس ہونے لگتا ہے کہ کوئی ناگزیر شے یا ضروری کام ہونے سے رہ گیا ہے مگر کیا کوشش کے باوجودیاد نہ آتا۔میں کھانا چھوڑ کر اسے سوچنے بیٹھ جاتا۔سیر کے لئے نکلتا تو سیر کہیں راہ کی دھول میں کھو جاتی اور کسی اہم شے کے بھو ل جانے کا احساس غالب آنے لگتا۔ نہانے کے لئے واش روم میں داخل ہوتا تو نہائے بغیرتولیہ لپیٹے کوئی شے کھوجنے کمرے میں نکل آتا۔میں دیکھ رہاتھا کہ گھر والے میری ان اوٹ پٹانگ حرکات سے شدید پریشان تھے اور دبی دبی آواز میں کسی ڈاکٹر کی ضرورت محسوس کر رہے تھے۔لیکن میرے برا مناجانے کے ڈر سے ضد نہیں کرتے تھے۔ ایک روزمیں ان سے ذکر کئے بنا ڈاکٹر سے مشورہ کرنے چلا گیا۔ ڈاکٹر میری بات سن کر کتنی دیر پنسل منہ میں دبائے سوچتا رہا پھر اس نے”بڑھاپا“ تشخیص کیا اور کچھ سکون آور گو لیاں دے کر مجھے گھر لوٹا دیا۔
اب سوچتا ہوں تو لگتا ہے اس احساس کی پیدا ئش اسی روز ہوئی جب مجھے اپنے لنگوٹیے یارکی اچانک موت کا علم ہوا تھا۔ ہم نے ہر کام ساتھ ساتھ کرنا سیکھا تھا بچپن‘ لڑکپن۔ جوانی‘ کھیل تماشے تعلیم‘ نوکری شادی‘ حتی کہ بچے تک ایک ہی ترتیب میں پیدا کیے تھے لیکن وہ مجھ سے پہلے مر گیا ۔یقینا اس احساس کا تعلق کہیں نہ کہیں سے اس کی ذات سے بھی وابستہ تھا۔ بعد ازاں میں نے خیال کیا کہ شائد اس کا تعلق ہمارے مشترکہ بچپن سے ہو۔ تبھی میں واپس ان کھیت کھلیانوں اور گلیوں کی جانب لوٹا جہاں میں نے بچپن اور لڑکپن گزارا تھا۔ میں وہ مکان دیکھنے گیا جہاں میں نے زندگی کے ابتدائی ایام گزارے وہ میدان اور گلیاں گھومتا رہا جہاں ہم اکٹھے کھیلا کرتے تھے اور اب اپنی اپنی باری پر معدوم ہونے والے تھے جب میں اس ویران احاطے میں گیا جو اب بھی یوں کا توں تھا جیسے وقت اس سے پہلو بچا کر گزر گیا ہو۔تو میرا سانس پھولنے لگا۔ تبھی مجھے یقین ہو گیا کہ میری بھولی بسری یاد کا کوئی نہ کوئی تعلق اس احاطے سے جڑا ہوا تھا جسے ہم دونوں برسوں پہلے چھوڑ گئے تھے اور پلٹ کر نہ دیکھاتھا۔ تبھی میں خود کو زیادہ دیر تک روک نہ سکا اور طفلانہ تجسس کے ساتھ احاطے کے کونوں کھدروں کی مٹی کو اپنی نگاہوں سے چھاننے کے لئے اس میں اترا۔میں نے درختوں کے تنوں کو سر سمیدگی سے دیکھا‘ برتنوں کے ٹوٹے ٹکڑوں کو تحیر سے الٹا پلٹا اور کافی تلاش بسیار کے بعد آخر کار میں پتھر کی اس چھوٹی سی سلیب کو ڈھونڈنے میں کامیاب رہا جس پر میں نے سلیٹی سے کبھی بہت سی لکیریں کھینچیں تھیں اورجن کی گنتی نہ ہونے کی وجہ سے میں اپنے دوست سے بری طرح ہار گیا تھا میں اسے یوں کا توں چھپا پاکر بہتحیران ہوا کہ سترسال گزر جانے کے بعد بھی اسے کسی نے چھوا تک نہ تھا۔ تبھی وہاں اپنا بچپن ڈھونڈ پالینے کے باعث میرے اندر کسی انجانی سی خوشی نے جنم لیا اور میر ی روح کو قرار آگیا۔میں کسی انجانے جوش سے سلیب کو بغل میں دبا کر اپنے دوست کو یہ بتانے وہاں سے نکلا کہ کیا کچھ ابھی تک گنتی سے رہ گیا ہے لیکن، یہ بھول کر کہ وہ تو گزر چکا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔