(Last Updated On: )
جب وہ مرا تو پتا چلا کہ اس کے آگے تھا نہ کوئی پیچھے۔ کٹیا نما ایک کمرہ جس کی عمر سینکڑوں سالوں پر محیط تھی (جیسا کہ داستان ہوا) کے گواہ پرانے برگد کے پیڑ تھے اور کچھ بوڑھے لیکن یہاں ایسا کیا تھا کہ وہ اسی کٹیا سے سالہا سال بندھا رہا(جبکہ زندگی ایک بار کے جینے کے لئے ناکافی ہے)۔ بعض اوقات بوڑھے کے منہ سے کوئی ایسی بات نکل جاتی جو ہو بہو سچ ثابت ہوتی تو لوگوں کا ڈر پہلے سے دوچند ہو جاتا اور پرسراریت پہلے سے بڑھ جاتی لیکن فوتگی اور دفنا دیے جانے کے بعد اس کی پیچھے رہ جانے والی کٹیا دنو ں میں کھنڈر ہو گئی۔ یوں اجداد سے چلی آ رہی ہمیشہ پہرا دیے جانے والی کہانی بوڑھے کی موت کے ساتھ ہی فنا ہو گئی۔( جبکہ داستانیں فنا ہونے کے لئے نہیں گھڑی جاتیں)۔
کٹیا کے سامنے ایک بڑا سا دلان تھا جس میں برگد‘ سریں‘ دھریک اور کیکر جیسے پودے موجود تھے گرمیوں میں‘ میں بھی انہیں درختوں کی چھاؤں تلے دوسرے بچوں کے ساتھ وہاں کھیلنے جاتی تھی۔ آغازِ دوپہر کٹیا کے باہر ایک خاموش سے گوشے میں وہ پہروں بیٹھا رہتا۔ اس کی آنکھیں چونکا دینے والی حد تک بڑی اورچمکدار تھیں، لچھے دار لٹیں بکھری اور تیل سے لتھڑی پشت پر جھولتی رہتیں۔ اکثر وہ ایک سرخ رنگ کی جلد والی ڈائری ہاتھ میں پکڑے بچوں کی طرف اشارے کرتا اورخود کلامی کرتا دیکھا ئی دیتا۔ وہ انگلی لڑکے کی سیدھ میں کرتا جیسے کوئی شکاری کسی شکار کو نشانے کی زد میں لاتا ہے پھر خود کلامی کرنے لگتا اس کے بعد اچانک انگلی گرا کر ڈائری کے ورق کو گھورنے لگتا۔ ان لمحات میں اس کی حرکات میں انتہا درجے کی بے چینی ہوتی جیسے وہ کوئی ایسی شے جاننے والا ہو جو پہلے اسے معلوم نہیں تھی۔ اس کی انہیں پر سرار حرکات کے باعث بچے بھی اس سے دوری بنائے رکھتے تھے۔۔مگر میرے لئے اس کے شجرہ ہائے نسب میں اس قدیم ناموافقت نے ایک بندھن کا کام کیا تھا جو اس کٹیا اور برگد کے پیڑوں سے وابستہ تھی، یعنی وہ کیا شے تھی کہ جسکے باعث وہ اپنے اعلی خاندان کے ساتھ ایک بڑے علاقے پر پھیلی ہوئے اونچی حویلی میں رئیسانہ زندگی چھوڑ کر(اس سے وابستہ کہانی کا لب لباب جو کبھی بیان ہوا اور اب رقم) ‘ ایک روز اچانک غربت کی آزردگی اور ناخوشگواری سہنے کٹیا کے اس صد سالہ آسیب میں کیوں آ پھنسا تھااور پھر اس ڈائری کا راز کیا تھا جسے وہ خود سے کبھی جد انہ کرتا تھا۔(بچپن میں مجھے سنی سنائی داستانوں یا ہڈ بیتیوں کے ساتھ منسلک اسرار کے بارے میں خبر تو تھی مگر جب میرے اپنے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا توتب پہلی بار مجھ پر حقیقت آشکار ہوئی)۔
سارا دن سورج کی روشنی میں بچے جن درختوں تلے کھیلتے تھے وہیں شام ڈھلتے ہی (بہت ہی کم ایسا ہوتا کہ رات کے وقت) اس کٹیا کے قرب وجوار میں کبھی کسی کا گزر ہوتا۔قصبے والے دور ہی دور چہل قدمی کرتے ہوئے کھیتوں کی جانب نکل جاتے وہ احاطے کے گرد کم اونچائی والی دیوار پر سے ایڑیوں کے بل جھا نکتے ہوئے(جن پر درختوں کی ٹہنیاں اور تاریکی کے سائے یکساں متحرک رہتے تھے) کے ساتھ ساتھ چلتے جاتے اور اس آسیب سے خود کو لا تعلق ظاہر کرنے کی بے سودکوشش کرتے جو کٹیا سے وابستہ تھا۔ لیکن میرا معاملہ دوسر ا تھا، مجھے جانے کیوں کٹیا سے وابستہ آسیب ہمیشہ اپنی طرف کھینچتا تھا۔ یہ ایک ایسی شدید کشش تھی جو شہوانی احساس سے بالکل پاک اور بوڑھے سے زیادہ سرخ جلد والی ڈائری سے وابستہ تھی۔
ایک روز میں بھی دوسرے بچوں کے ساتھ کھیل کود میں مشغول تھی کہ میں نے دیکھا بوڑھا ڈائری کو کٹیا کے باہر ہی بھول کر اندر چلا گیا تھا۔ بارش کے امکانات تھے جانے کیوں میں اس ڈائری کی جانب بڑھی تاکہ اسے بوڑھے کو لوٹاسکوں۔ یہ ڈائری فرسودہ سی جلد اور دس انچ لمبی اورآٹھ انچ چو ڑی تھی۔ اس کی اوپروالی جلد پر نا ما نوس زبان میں آڑھی ترچھی لکیریں سی کھینچی ہوئی تھیں۔ میں نے جلدی سے اسے کھول کر دیکھا میں حیران رہ گئی۔ ڈائری میں صرف ایک ہی صفحہ تھا جو با لکل کورا تھا لیکن اس کے باوجود اس کورے پن میں بھی کوئی ایسی پرسراریت تھی جسے میں محسوس کر سکتی تھی۔ ڈائری کا یہ صفحہ عام کاغذ کاتو با لکل بھی نہ تھا بلکہ ایسے لگتا تھا جیسے کاغذ کے اندر کہیں پانی سا بھی متحر ک ہو۔ میں نے اسے چھو کر دیکھا پانی دکھائی دے رہا تھا لیکن میر ی انگلیاں گیلی نہ ہوئیں۔ ایسے پانی سے میں آگاہ نہ تھی جو انگلیاں گیلی نہیں کرتا تھا۔ میں نے سو چے سمجھے بنا ں سامنے کی جانب اپنی انگشت شہادت جیسے بوڑھا اٹھا تا تھااٹھا دی۔ سامنے احاطے کی دیوار تھی۔ اچانک مجھے ڈائری میں ہل چل سی محسوس ہوئی۔ میں نے دیکھا کچھ دیر پہلے موجودخالی ورق پر آڑھی ترچھی لکیروں میں دیوار کی شبہع چھپ چکی تھی۔ ابھی میں اس دیوار کے نیچے ابھرنے والی تحریر پڑھنے ہی والی تھی کہ اچانک مجھے کھٹکا ساسنائی دیا۔ میں فورا ڈائری وہیں چھوڑ کر باہر کی جانب بھاگی۔ میرا دل تیز تیز دھڑکنے لگا تھا اور ڈائری سے وابستہ پرسراریت پہلے سے بھی دوچند ہو گئی تھی۔ میں نے ایک درخت کی آڑ سے دیکھا تو بوڑھا ڈائری کے ورق اور کبھی دیوار کو حیرت سے دیکھ رہا تھا۔
پھرجب بوڑھے کو مرے کئی دن ہو چکے تو مجھے اس ڈائری کاخیال آیا۔ اگر چور اچکے ہاتھ نہ دکھا چکے ہوئے تو یقینا وہ کٹیا میں ہی کہیں موجود ہوگی۔ ایک دوپہر جب دوسرے بچے درختوں کے نیچے کھیل رہے تھے تو موقع پا کر میں کٹیا میں جا گھسی اور آخر اس ڈائری تک پہنچ ہی گئی پھر جوش سے بھری میں اپنے گھر کی جانب بھاگی اور ا سے اپنے کمرے میں ایسی جگہ چھپا دیا جہاں کسی کی نظر نہ پڑ ے۔ میں نہیں چاہتی تھی کوئی دوسرا اس راز میں شامل ہو۔
ڈائری کی حقیقت سے آگاہی کا آغاز اسی شام سے شروع ہو گیا۔ جب بھی میں اسے پکڑ کر کسی شے کی جانب اشارہ کرتی تو اس شے کا عکس ہو بہو اصل اس ورق پر ابھر آتا اور نیچے آڑھی ترچھی لکیروں میں اس کے حال ماضی اور مستقبل کے بارے میں بہت سی معلومات بھی ابھر آتیں۔ ہر بارنہیں لیکن اکثر، اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ایک بچی کے لئے جس نے ابھی ا پنی زندگی کی بارہ تیرا بہاریں ہی دیکھی ہوں اس کے لئے یہ علم کتنا ہلاکت خیز ہو سکتا تھا۔ عجیب اور لرزا دینے والا لیکن سب سے زیادہ خراب بات یہ تھی کہ ہمیشہ میں ہی اسے دیکھ سکتی تھی کوئی دوسرا نہیں۔ ایسے میں کسی دوسرے شخص کو اس شے کی حقیقت کا یقین کیسے دلایا جا سکتاتھا؟
اس لا متناہی دکھ کے بعد جو اس شے سے وابستہ تھا پہلا خیال جو میرے ذہن میں آیا وہ یہی تھا کہ کسی طرح میں اس ڈائری سے چھٹکارہ پا ؤں اور میرے خیال کے مطابق اس کا واحد حل یا منزل وہ کٹیا ہی تھی یوں چپکے سے ایک دوپہر میں اسے وہیں چھوڑ آئی۔ لیکن دوسر ے روز میر ی حالت دیدنی تھی جب میں نے اسے دوباراہ اپنے بستر پر پایا۔ آپ سوچ رہے ہونگے کہ اس شے سے وابستہ ڈر مفروضے کے سوا کچھ بھی نہیں لیکن اگر آپ جان جائیں کہ اس کا وجود کسی روز آپ کے پورے کنبے کو شکار کرنے والا ہے(اور وہ شکار بھی ہوجائے) تو تب آپ کیا کریں گے اس کے بعد تو یقینا آپ بھی کسی طرح اس سے جلد سے جلد چھٹکارا چاہیں گے پھر بار بار میں نے ایسا کیا لیکن اب مجھے معلوم ہو چکا ہے کہ ایسا کرناممکن نہیں۔ جونہی باہر دالانوں میں اندھیرا پڑنا شروع ہوتا ہے،تو انسانوں کا مستقل غیر مشتبہ مستقبل، میری ہر حرکت کے تعاقب میں رہتا ہے، اردگرد بکھرے انگنت انسان جن کا مستقبل میری انگشت شہادت پر کائناتی چُپ کا سوانگ بھرے، مجھے کسی پرچھائی یا آسیب کی طرح لگتا۔ خدا اور میرے مَلکِ مربی سے میری یہی التجا تھی کہ میں کچھ بھی نہ جان پاؤں لیکن مجھے یاد ہے کہ اب حالتِ اضطراب میں بھی مجھ سے کوئی شے چھپی نہیں رہتی۔ کبھی مجھے فقط خدشہ ہوتا تھا کہ حقیقت کچھ بھی نہیں اور ان عجیب و غریب بدبختیوں کے پیچھے کوئی دکھائی دینے والی عفریت نہیں ہو سکتی لیکن جب سے میرا اس سے جاگتی آنکھوں سامنا ہوا ہے تو تب سے مجھے معلوم ہو چکا ہے کہ دہشت عفریتی روپ میں (بھلے وہ بے ضرر دکھائی دینے والی سرخ ڈائری ہی کیوں نہ ہو) دنیا میں پھر لوٹ آئی ہے لیکن اب کی بار اس نے میرے بدن کا راستہ ناپا ہے کٹیا کے آسیب کی کراہت آمیز تقدیر مجھے بھی کراہت آمیز بنا رہی ہے، میں اب بوڑھے کی جگہ بیٹھی سرخ ڈائری میں اس آسیب کا عکس دیکھتی ہوں جو مجھے اپنے قابو میں کر چکا ہے۔ دالان میں بچے کھیلتے ہیں اور میں کبھی کبھی ان میں سے کسی کی جانب انگلی اٹھا کر اسی طرح بُڑبُڑا نے لگتی ہوں جیسے کبھی بوڑھا بڑبڑایا کرتا تھا (ان میں سے اگلا کون ہوگا)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔