نوجوان خاصا دلبرداشتہ تھا۔ بیٹھتے ہی اس نے ڈبے میں سے ایک ٹشو پیپر نکالا اور نم آلود آنکھیں صاف کرنے لگا۔ میں بڑے آرام سے اس کی طرف دیکھ رہا تھا‘ مجھے امید تھی کہ گفتگو کا آغاز وہ خود کرے گا۔ تھوڑی دیر تک وہ اپنے آپ کو سنبھالتا رہا پھر اشارے سے پانی مانگا۔ میں نے جلدی سے پاس پڑے گلاس میں پانی بھرا اور پیش کر دیا۔ اُس نے دو تین گھونٹ میں پورا گلاس ختم کیا اور ٹھنڈی آہ بھر کر پھر خاموش ہو گیا۔ دو تین منٹ ایسے ہی گزر گئے۔ میں نے سر کھجایا اور احتیاطاً پوچھا ''بیٹا! میری یادداشت ذرا کمزور ہے‘ پلیز بتائیے گا کہ آپ مجھ سے ملنے آئے تھے یا میں آپ سے؟‘‘۔ اس نے چونک کر میری طرف دیکھا''سر! میں ہی آیا تھا‘‘… اور پھر خاموش ہو گیا۔ اگلے دو منٹ پھر موت کی سی خاموشی رہی۔ میں نے پھر ہمت باندھی ''تو آپ مجھ سے کس سلسلے میں ملنا چاہتے تھے؟‘‘۔ اُس نے پھر ایک دُکھی آہ بھری ''کچھ نہیں سر! ویسے ہی…‘‘ اور پھر وہی خاموشی…!!! مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ بات میں نے شروع کرنی ہے یا اُس نے۔ جب پھر خاموشی طویل ہونے لگی تو میں نے کھنکارتے ہوئے کہا ''میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں؟‘‘۔ اُس نے چہرہ اوپر اٹھایا اور خالی خالی نظروں سے میری طرف دیکھا ''کچھ نہیں سر…‘‘ پھر خاموشی…۔ میں بے چینی سے اُٹھا‘ آفس کے کچن میں جا کر دروازہ بند کیا اور زور سے کیبنٹ کو ٹکر ماری۔ طبیعت خاصی بہتر محسوس ہوئی۔ دوبارہ سے خود کو حوصلہ دیا اور
واپس اپنی سیٹ پر آ کر بیٹھ گیا۔ نوجوان تاحال اُسی منجمد حالت میں بیٹھا ہوا تھا۔ میں نے قدرے بے بسی سے کہا ''بیٹا! آپ مجھ سے ملنے کے متمنی تھے‘ میں آپ کے سامنے ہوں‘ بتائیے کیا بات کرنی تھی؟‘‘۔ وہ یکدم سیدھا ہو کر بیٹھ گیا ''کوئی بات نہیں سر! آپ اپنا کام کیجئے…‘‘۔ اُس نے سپاٹ لہجے میں کہا اور میری حالت رونے والی ہو گئی۔ ''بیٹا! میں نہانے اور کالم لکھنے کے دوران اکیلا رہنا پسند کرتا ہوں‘‘۔ اُس نے سر ہلایا ''بڑی اچھی بات ہے‘‘… اور خاموشی سے سامنے دیوار کو تکنے لگا۔ میری سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا کہ اِس ''میوٹ‘‘ نوجوان کا کیا کروں‘ اچانک میرے ذہن میں ایک ترکیب آئی اور میں نے ٹکٹکی باندھ کر اس کی طرف دیکھنا شروع کر دیا۔ دو تین منٹ ایسے ہی گزر گئے۔ پہلے تو اس نے خاص نوٹس نہیں لیا‘ پھر یکدم چونک کر میری طرف دیکھا‘ میں روبوٹ کی طرح اس کی طرف گھورے جا رہا تھا۔ اس کے چہرے پر اضطراری سی کیفیت نمودار ہوئی‘ تھوڑا سا پہلو بدلا اور نظریں چرانے لگا۔ مجھے اب مزا آنے لگا تھا‘ میں نے بدستور نگاہیں اُس پر مرکوز رکھیں۔ تھوڑی ہی دیر بعد وہ بوکھلا گیا… ''سر! آپ مجھے ایسے کیوں دیکھ رہے ہیں؟‘‘۔ میں نے جواب دینے کی بجائے اپنا ''ہپناٹزم‘‘ جاری رکھا۔ اگلے چند لمحوں میں اس نے ہتھیار ڈال دیے۔ ''سر! میں اس لیے حاضر ہوا تھا کہ مجھے سرمایہ کاروں کے ظلم سے بچنے کا کوئی طریقہ بتائیں۔‘‘ میں نے کفر ٹوٹنے پر خدا کا شکر ادا کیا اور نارمل ہوتے ہوئے پوچھا ''بیٹا! سرمایہ کار یا سرمایہ دار؟‘‘ وہ چونک اٹھا ''دونوں میں کیا فرق ہے؟‘‘
''بڑا فرق ہے… سرمایہ دار وہ ہوتا ہے جس کا سارا سرمایہ اُس کے قبضے میں ہوتا ہے اور سرمایہ کار وہ ہوتا ہے جو اپنے سرمائے سے مختلف کاروبار کرتا ہے‘‘۔
''سر میرا مالک سرمایہ دار بھی ہے اور سرمایہ کار بھی… اس نے ہم ملازمین پر ظلم کی انتہا کر رکھی ہے‘ ہم تو کسی سے فریاد بھی نہیں کر سکتے۔ ایک دوست نے مشورہ دیا تھا کہ آپ کے پاس جائیں آپ کے پاس یقینا کوئی حل ہو گا‘‘۔ میں بے اختیار بغلیں جھانکنے لگا ''بیٹا! آپ کا دوست کوئی انتہائی چغد انسان ہے جس نے آپ کو یہ مشورہ دیا ہے‘ میرے پاس حل ہوتا تو میں خود نہ سرمایہ کار بن چکا ہوتا… بائی دی وے آپ کا سرمایہ کار مالک آپ پر کیا ظلم کرتا ہے؟‘‘۔ نوجوان نے نیا ٹشو پیپر نکالا ''سر! میں ایک کاسمیٹکس کمپنی میں کام کرتا ہوں، ہم ملازمین کا ڈیوٹی ٹائم آٹھ گھنٹے ہے‘ ان آٹھ گھنٹوں میں مالک ہم پر بہت ظلم کرتا ہے‘‘۔ نوجوان آنسو پونچھنے لگ گیا۔ میں نے بے چینی سے پوچھا ''ڈیوٹی ٹائم کے دوران گالیاں دیتا ہے یا جسمانی تشدد کرتا ہے؟‘‘۔ نوجوان جلدی سے بولا ''نہیں نہیں سر! بس گالیاں اور تشدد نہیں کرتا‘ باقی سب کچھ کرتا ہے‘‘۔ میرے کان کھڑے ہو گئے ''باقی سب سے مراد؟… تنخواہ نہیں دیتا یا لیٹ دیتا ہے؟‘‘۔ نوجوان نے پھر نفی میں سر ہلایا ''نہیں سر! تنخواہ تو ٹائم پر مل جاتی ہے لیکن ظلم بڑا کرتا ہے‘‘۔ میں پھٹ پڑا ''ابے کون سا ظلم؟ تم سے گیزر صاف کرواتا ہے یا نلکے کی بوکیاں ڈلواتا ہے؟‘‘۔ نوجوان یکدم سہم گیا اور مجھے احساس ہوا کہ میں ''بلا وجہ‘‘ غصے میں آ گیا ہوں۔ میں نے جلدی سے پانی پیا اور قدرے نرم لہجے میں کہا ''بیٹا معافی چاہتا ہوں‘ اصل میں آپ بتا نہیں رہے کہ ظلم کی نوعیت کیا ہے؟‘‘۔ نوجوان 100 کی سپیڈ سے بولا ''سر! وہ آٹھ گھنٹوں کے دوران صرف ایک گھنٹے کے لیے کھانے کی چھٹی دیتا ہے‘ کام کے دوران اگر ہم تھوڑی دیر ریسٹ کرنے کے لیے بیٹھ جائیں تو غصے میں آ جاتا ہے‘ بتائے بغیر چھٹی کر لیں تو وجہ پوچھتا ہے‘ صبح لیٹ آئیں تو گیٹ سے ہی واپس بھیج دیتا ہے‘ عید پر صرف تین چھٹیاں دیتا ہے‘ کام کے دوران ہمیں آپس میں گپ شپ بھی نہیں لگانے دیتا اور…‘‘ بس بیٹا بس… میں نے درمیان میں ہی اسے روک دیا۔ آپ کا مالک صرف ظالم نہیں‘ ظالم ترین ہے… آئیے چائے پیتے ہیں…!!!
سرمایہ کاروں سے تنگ ایسے بہت سے لوگ ہیں جنہیں ہر سرمایہ کار سے نفرت ہے۔ ظاہری بات ہے سرمایہ کار سے نفرت کرنے والا خود سرمائے سے محروم ہوتا ہے۔ ہمیں شروع سے ہی یہ سبق پڑھایا جاتا ہے کہ سرمایہ کار ایک ظالم انسان ہوتا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت ہم جہاں بھی نوکری یا بزنس کر رہے ہیں سب کسی نہ کسی سرمایہ کار کی مہربانی ہے۔ سرمایہ کار اگر سرمایہ نہ لگائے تو نہ کوئی فیکٹری بنے نہ کمپنی‘ نہ کسی کو تنخواہ ملے‘ نہ کسی کا گھر چلے۔ یہ سچ ہے کہ سرمایہ کار ظالم بھی ہوتے ہیں لیکن یہ بھی سچ ہے کہ کئی ظالم‘ سرمایہ کار نہیں بھی ہوتے۔ ہمارے سامنے سرمایہ کار کی شکل شیطان بنا کر پیش کی جاتی ہے۔ سرمایہ کاروں نے ہی ٹی وی چینل بنائے اور صحافیوں کو ٹوٹی ہوئی موٹر سائیکلوں سے کاروں پر لے آئے‘ سرمایہ کاروں نے ہی اخبار قائم کیے‘ جمود ٹوٹا اور صحافیوں کو بہتر روزگار کے مواقع میسر آئے‘ اگرچہ ابھی ہر جگہ حالت اچھی نہیں ہوئی لیکن صحافیوں کی اکثریت کے حالات بہتر ہو گئے ہیں۔ سرمایہ کار نے ہی آئی ٹی کمپنیاں بنائیں اور نوجوانوں کی کھیپ کی کھیپ بہترین روزگار پر لگی‘ سرمایہ کار نے ہی ہوٹل بنائے‘ بینک بنائے‘ ڈیپارٹمنٹل سٹور بنائے‘ فلمیں بنائیں‘ ایئرلائنز بنائیں‘ کارخانے بنائے۔ ایک دفعہ سچے دل سے سوچئے کہ ہم جس بھی کام سے وابستہ ہیں کیا اس کا آغاز کسی سرمایہ کار نے نہیں کیا؟ سرمایہ کار اگر اِن کاموں سے سرمایہ نکال کر محض ''سرمایہ دار‘‘ بن کر بینک میں پیسے رکھوائے اور منتھلی وصول کرتا رہے تو فرق اُس کو پڑے گا یا ہمیں؟ کیا ہمارا گزارہ ہو جائے گا؟ پوچھئے اُن لوگوں سے جو کسی سرمایہ کار کی کمپنی میں کام کرتے تھے لیکن کمپنی بند ہو جانے پر اب نئی نوکری کے لیے در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔ میری دُعا ہے کہ انہیں نئی کمپنی میں نوکری ضرور ملے لیکن… وہ کمپنی بھی ایک سرمایہ دار ہی کی ہو گی!!!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔