کاش کوئی تو ھوتا جو کہتا.تم ابھی زندہ رھو گے ھنسو گے. مسکراو گے .خوشیاں بانٹو گے کیونکہ …
ابھی تو جاں کے خزانے میں سانسوں کے موتی تابندہ ھیں.
ابھی تو انکھوں میں سب خواب زندہ ھیں
ابھی تو مقابل خواھشوں کے میلے ھیں
ابھی تو کچھ لوگ ہیں جو بنا تمہارے اکیلے ھیں .
موت کی فکر نہ کرو.مزے سے جیو پارس حبیب. کاش کوئی تو ایسا ھوتا جویہ مژدہ جاں فزا لاتا فقط چند سانسوں کی نوید دے کر دھیرے سے حیات شیریں کا شھد آگیں سندیسہ سرگوشیوں کی صورت سماعتوں کی نذر کر دیتا ..کوئی تو ایسا ھوتا جو زمزمہ حیات گیت کی صورت روح میں اتار دیتا .اسے بس چند سانسیں مستعار لینی تھیں فقط چند سانسیں.
اب عمر کی نقدی ختم ھوئی.
اب ھم کو ادھار کی حاجت ھے .
ھے کوئی جو دیون ھار بنے؟
ھے کوئی جو ساھوکار بنے ؟
بدلے میں دینے کے لیے دھن دولت کی فروانی توتھی. مگر ھائے شومی ِ قسمت .وہ دھن دولت. اور زروجواھر تو ویسے بھی وراثت میں تقسیم ھونے تھے.اور اس آخری سمے تو سبھی وارث آس پاس کھڑے تھے.
اس سمے کون بنتا ھے ساھوکار؟ کون بنتا ھے دیون ہار.؟
سراسر گھاٹے کا سودا تو اس نے خود کبھی نہ کیا تھا اب اس کے وارث بھلا کیسے یہ سودا کرتے؟ ساہوکار کے گھر ساہوکار کا جنم ھوتا ھے یہ تو نوع انسانی کا آزمودہ کلیہ ھے . ھاں کبھی کبھی کوئی معجزہ یا کرامت ھو تو ساہوکار کے گھر فنکار پیدا ھو جاتا ھے. فنکار جو اپنا بہترین فن اپنی اعلی صلاحیتیں دان کر دیتا ھے بنا سودو زیاں کی فکر کیے. فقط داو تحسین کے چند جملوں کے عوض . کہاں فنکار کا فن اور کہاں فقط واہ واہ.
گھاٹے کا سودا ھوتا ھے. مگر …. جو گھاٹے کا سودا نہ کرے اسے فنکار کون کہےگا؟
وہ تو معجزہ ھوا اور نہ ھی کرامت ھوئی. صرف ساہوکار کا کاروبار ھوا .
بستر مرگ پہ مرغ بسمل کی طرح تڑپتا ھوا جو جاں بلب شحص اخری سانسیں لے رھا تھا وہ اک بہت بڑی کاروباری شحصیت اک پیدایشی ساہوکار.. پارس حبیب تھا.
قامت کی بات چلتی تو اسے دیکھنے کے لیے عام لوگوں کو سر اٹھاکر دیکھنا پڑتا تھا
جو شکل و صورت کا ذکر نکلتا تو اسے حسن کا مرقع کہا جاتا تھا جو بول چال انداز سخن اس کا تھا شاید ھی کسی اور کا ھو .زمانہ اسے پارس حبیب کہتا تھا. کیونکہ وہ اسم بامسمی تھا پارس ھی تو تھا.جس چیز کو چھو لیتا سونا بنا دیتا.مگر اس پاس کی ھر چیز جب سونا بن جائے تب بھی تو زندگی مشکل ھو جاتی ھے ..مگر وہ مشکلوں کو آسانیوں میں بدلنے کا ماھر کھلاڑی تھا.اور اس کھیل میں کبھی ھارا نھیں تھا.چھوئے بنا ھاتھ لگائے بنا روٹی منہ میں نھیں جاتی .اور نوالہ سونے کا ھو تو لوھے کی طرح چبانا پڑتا ھے.. سو اس نے اپنے دانت خوب تیز کر رکھے تھے.وہ سنگ پارس تھا .زمیں کا قیمتی پتھر
پتھروں کی بھی عجیب کہانی ھے .بہت سے تو صرف ٹھوکروں میں رھتے ھیں کچھ کومحلوں کی رونق بڑھانی ھوتی ھے انکی نسبت سے محلوں کی پہچان ھوتی سفید سنگ مر مر کا محل.حویلی سنگ سیاہ.حجرہ فلاں ____
کچھ پتھر قبروں کی زینت بن جاتے ھیں خالانکہ قبر جتنی بھی مزئین ھو ھولناک ھی لگتی ھے. کچھ پتھر نگینوں کی صورت انگوٹھیوں میں سجتے ھیں.مزاج کے موافق .یہ نیلم کہلاتا ھے .یہ زمرد ھے یہ یاقوت ھے .اور کچھ پتھر دل کی جگہ سینے میں بھی تو رکھے ھوتے ھیں .وہ بھی ایسا ھی اک پتھر تھا ا ن سب پتھروں میں سے قیمتی اور نایاب پتھر پارس پتھر عجیب بات تھی .اس پارس پتھر کے سینے میں اک اور پتھر رکھا ھوا تھا .
سو .نہ عجز تھا اس میں نہ ملنساری اپنی ذات کے غرور نے کبھی اسے اپنی میں سے نکلنے ھی نہ دیا تھاوہ تمام عمر اپنی ذات کے عنکبوت میں گھرا ھی رھا.وہ ساہوکار تھا
غضب کا کاروباری …مگر اک اھم نقطہ بھول گیا تھا.کہ زندگی کے اک پل کا بھی بھروسہ نھیں کب رخت سفر باندھنا پڑے کچھ خبر نھیں . جب بھی حیات کے رازوں پہ غوروفکر کے لیے چند لمحے عمر عزیز کی روانی سے مستعار لیتا تھا.تو وہ بھی اسی تگ ودو میں صرف ھو جاتے کہ کھیں سے کوئی بڑا نفع کیسے حاصل کروں؟
بس دولت کی ھوس تھی جو سینے میں رکھے پتھر کو مزید سختی بخش رھی تھی.
کچھ لوگوں پہ قسمت اور دولت دونوں کی دیویاں ھمیشہ مہربان رھتی ھیں .
وہ بھی ان قسمت کے دھنیوں میں سے ایک تھا .دھن دولت سے ھٹ کر بھی دیکھو تو سبھی کچھ تھا اس کے پاس.وہ پارس تھا اسے سونے کی طلب نہ بھی ھوتی .
پھر بھی اسکے خواب اسکی سوچ اسکی قربت اس کا لمس سب سنہرے ھی ھوتے .
اپنی طلب کی تلاش میں سرگرداں رھتا نہ بے قرار . تب بھی سنہرے منظروں کا باسی ھوتا.مگر جو خصوصیت رب کی طرف سے اسے ودیعت ھو چکی تھیاسکے لیے وہ عمل میں بھی سچا تھا اس نے گھاٹے کا سودا تو کبھی کیا ھی نھیں تھا .اسے عورتوں میں حسن کی چمک وتابانی کبھی متاثر نہ کر سکی تھی ساھوکار تھا جانتا تھا کہ حسن کو زوال ھے
ھمیشہ سے نخل تمنا وفا کی خوشبو تھی .سو اپنے حلقہ احباب میں اپنے گردونواح میں بڑی جستجو کے بعد اسے حسن کے وجود میں رچی بسی . وفا ملی .حسن اور وفا دونوں کا ساتھ بھی اس زمانے میں اک معجزہ ھی تو تھا حسن کو زوال ھے مگر… وفا تو اب خیات نوش جاں کر کے ائی تھی.اسے وفا کے زوال کا ڈر نہ تھا.وہ برسوں سے نہ کمزور پڑی تھی ..نہ عمر رسیدگی کا درد سہا تھا سدا بہار تھی وہ.کبھی صلے کی آرزو کی اس نے نہ کبھی انعام کا لالچ ..رب کریم کے سامنے دست سوال پھیلا کر اسکی خوشی ھی مانگتی تھی.کبھی کبھی وہ کسی بڑی کامیابی کو لے کر سخی بن جاتا سینے میں پتھر اور سخاوت؟
ناممکنات کا گماں ھوتا کیونکہ نرم دل ھی سخی ھو تا ھے .بخیلی اور پتھر دلی میں بہت بنتی ھے .اسے کہتا .کچھ مانگ لو وفا .اتنا کچھ پایا ھے کہ . اج بہت کچھ دان کر سکتا ھوں بتاو کیا دوں تمھیں ؟وہ آھو چشم اپنی ارغوانی چنری جو ھمیشہ اسکے سیمیں بدن سے لپٹی ھوتی تھی کو مخروطی انگلیوں پہ لپیٹتی کھولتی اور اس دیالو پریتم کو بغور دیکھتی پھر بادہ ناب سے نشیلے سرخ لبوں پہ اک نرم اور کومل سی مسکراھٹ سجا کر کہتی.سرتاج ..وفا تو اک خزانے کا نام ھے.اک ایسا انمول و نایاب خزانہ کہ جس کی قیمت کوئی جوھری نھیں لگا سکتا کیونکہ لعل و زر کی قیمت اسکے وزن اسکی ھیئت اور اسکی تراش خراش کو دیکھ کر ھی لگائی جاتی ھے.وفا نام کے اس خزانے کی اوزان و پیمایش کے لیے کوئی ترازو کوئی پیمانہ بنا ھی نھیں.اور پھر جو خود ھی خزانہ ھو اسے اپ کیا دے سکتے ھیں؟وفا اگر لالچی ھوتی تو وہ وفا کیوں کہلاتی ؟کوئی اور نام ھوتااس کا ..
وہ اپنی پلکوں کے گھنے سائے میں اسے چند پل سستانے کی دعوت دیتی.ساری تھکن مجھے دے دیں سرتاج .وہ محبت بھرے انداز میں کہتیوہ بگڑ جاتا میں کوئی تمہارے باپ جیسا مزدور تو نھیں ھوں کہ بوجھ اٹھا کر تھکن سے چور ھو جاوںمیں تو بادشاہ ھوں.
بادشاہ تھکتا نھیں ھے .بھلا حکومت سے بھی کوئی تھکتا ھے ؟وفا افسوس بھری نظروں سے اسے دیکھتی رھتی..وہ جانتی تھی کہ . غرور نیکیوں کو کھا جاتا ھے.
لیکن کچھ لوگوں کا غرور بھی بھوکا ھی رھتا ھے .انکے دامن میں نیکیاں ھی نھیں ھوتیں کہ غرور کا پیٹ بھر دیں سرتاج….لالچ انسان کی روح کو تھکا دیتی ھے. اسی لیے وہ ھی تھکن مانگ رھی ھوں.. وہ لاجواب ھو جاتا .اسے اپنی کم مائیگی کا احساس ھونے لگتا تھا.
اولاد صدقہ جاریہ ھوتی ھے .یہ کوئی راز تو نہ تھا کہ وہ اس سے آشنا نہ ھوتا..
اولاد کے معاملے میں بھی بہت سوچ بچار کی تھی اس نے بہت غورو فکر کیا تھا..ساہوکار جو تھا .نقصان کا سودا کیسے کرتا؟تین بیٹے ھوئے اک بیوروکریٹ تھا.اک اعلی فوجی عھدے پہ فایز تھا اک عالم و حافظ تھا..اس معاملے میں دنیا و آخرت دونوں کا سودو زیاں اسکے مد نظر تھا اگلے سفر کے لیے زاد راہ تھا تو ..مگر اخری سفر بھی تو بہت طویل اور تھکانے والا تھا .کم پہ اس گزارا کہاں ھونے والا تھا .؟اسکی نظر میں زاد راہ وہ حافظ قرآن بیٹا تھا..جن بچوں کی پرورش ھی وفا کی گود میں ھوئی اس اولاد میں وفا تو تھی مگر .وراثت میں تو قدرت کی طرف سے انھیں ساہوکاری بھی ودیعت ھو چکی تھی .
سو وہ تینوں وفادار بھی تھے اور ساہوکار بھی.خدایے بزرگ و برتر کے فیصلے زمین زادوں کی سوچ کے محتاج ھوتے ھیں نہ انکی خواھشوں کے تابع.وہ تو قادرمطلعق ھے.جو چاھتا ھے کر دیتا ھے.اک روز جو پارس حبیب کے سر میں درد اٹھا تو .
چاندنی رات طلوح سحر میں ڈھل گئی مگر درد کی شدت کم نہ ھوئی.وفا رب قدوس کے حضور نماز حاجات میں جھکی رھی اور سجدوں میں اپنے سرتاج کی بحالی صحت کا سوال بار بار دھراتی رھی.ادھر صبح کا ستارہ افتاب سے چھپا .ادھر پارس کی روشن اجلی اور روپہلی دنیا اندھیروں میں ڈوب گئی..وفا پکارتی رھی .میرے سرتاج پارس ..پارس انکھیں کھولو. حافظ بیٹا قرانی آیات پڑھ پڑھ کر پھونکیں مارتا رھا .مگر درد تھا کہ رگ رگ میں اتر کر زندگی کا خراج مانگ رھا تھا.اور وہ ساہوکار تھا .جان سے بڑھکر قیمتی متاع کوئی اور نھیں ھوتی .قیمتی ترین متاع اس سے چھن رھی تھی.بنا کسی قیمت کے بنا کسی بدلے کے.وہ بے اختیار تھا.عجیب کھیل ھوتے ھیں قدرت کے بھی.. انسان کی فہم و فراست زندگی نام کی اس متاع بے بہا اس گوھر یک دانہ کا مُہْتَمِم سمجھتی ھے خود کو .لیکن اسے اپنی کم مائیگی کا ادراک تب ھوتا ھے جب وہ اچانک بے خبری میں فرشتہ اجل کے روبرو ھوتا ھے..وھاں نہ تو کوئی سفارش چلتی ھے نہ رشوت .ورنہ تو قبروں میں سونے والے سارے تہی دامن غریب ھی ھوتے..اور زندہ لوگوں کی بستیاں امیروں سے آباد ھوتیں.ھایے وہ بے بسی سی بے بسی تھی .اک جانب مثل فردوس عیش و عشرت سے مزین خیات کے لمحات . دوسری طرف قبر کی تنہائی و خامشی.گور کا چیختا دھاڑتا چنگھاڑتا دھن .کیا ھی کرم ھوتا ھے رب کا.کہ وہ نوشتہ تقدیر بندہ بشر سے پنہاں رکھتا ھے عیاں نھیں رکھتا.وگرنہ تو کنج گور کی تاریکی اور تلخئی مرگ کے خوف سے ھی ھی خیات شیریں کا ذایقہ کڑواھٹ میں بدل جاتا.
پھر جینے کی چاشنی سے آشنائی نہ ھوتی پھر خوف مرگ ھی ادمی کا اوڑھنا بھی ھوتا بچھونا بھی ھوتا.صبح دم کچھ پل کے لیے پارس خبیب کو ھوش وحواس کی دنیا میں لوٹنا پڑا تو درد سے تڑپتے ھوئے اس نے وفا کا پاکیزہ و معطر وجود خود پہ جھکا ھوا دیکھا
اس نے مندی ھوئی انکھیں کھولنے کی کوشش کی اور اک حسرت بھری نگاہ ابدیدہ و رنجیدہ رخ مہرو وفا پہ ڈالی اور شدت درد سے نڈھال سا سر تکیے پہ پٹخنے لگا.وہ مسیحا سی نمناک آنکھیں اسے نڈھال و بے حال دیکھ کر مزید برسنے لگیں .حافظ کی طرف دیکھ کر باپ نے خلفیہ بیان مانگا .مجھے یقین واثق ھے کہ تم جھوٹ نھیں بولو گے.رب کریم کو حاضروناظر جان کر کہو .میرے مسیحا کیا کہتے ھیں؟
حافظ نے پرنم انکھوں سے ماں کے نور بھرے چہرے کو سوالیہ انداز میں دیکھا.ماں نفی میں سر ھلانے لگی وفا اگہی کے عذاب سے اور کیسے بچاتی اس شخص کو؟ درد کی نوعیت کا ادراک ھوتا تو تڑپتے ھوئے پارس کی تکلیف بڑھ جاتی اس سچے اور اذیت ناک انکشاف سے .مگر وہ بھی حافظ تھا جس زبان سے کلام الہی کا ورد برسوں کرتا رھا تھا.اس زبان سے جھوٹ کیسے بول سکتا تھا غمزدہ و نمناک آواز میں کہہ دیا .کہ ابا جان اپکے سر میں کینسر اتنا پھیل گیا ھے کہ اس زھر کا تریاق ھے نہ کوئی علاج.پارس نے شدت درد سے انکھیں بھینچ لیں .دو قطرے انسووں کے گرنے سے پہلے ھی وفا نے اپنے مرمریں ھاتھ کی چھوٹی انگلی سے سمیٹ لیے اور مٹھی یوں بند کر لی .جیسے ابر نیساں کا قطرہ سیپی اپنے اندر بند کرکے سنبھالے رکھتی ھے صدف کی تکمیل تک.
میرے بچے یہ بھی بتا دو کہ میرے پاس زندہ رھنے کے لیے کتنے دن مہینے یا سال مزید ھیں سچ کا وار بہت کاری تھا جو سماعتوں کو یوں چیر گیا جیسے کلہاڑی مظبوط اور ھرے بھرے درخت کے تنے کو چیر دیتی ھے.صرف چند دن ؟مضمحل اواز تھکا ھوا لہجہ.. کون کہے گا یہ شحص پارس ھے؟
وفا نے اندر اٹھتی درد کی طلاطم خیز لہروں کو دبانے کی ناکام کوشش کی.بے ساختہ سسکیوں کا اک بپھرا ھوا سیلاب لبوں کا بند توڑ کر ازاد ھوا.حافظ بیٹے نے ماں کو کندھوں سے تھام کر قریب پڑی ھوئی کرسی پہ بیٹھایا.یہ حکم الہی ھے ماں.مشیئت ایزدی ھے کاتب تقدیر نے ھر ذی روح کے لیے واپسی کا حکم نامہ لکھ رکھا ھے.مخلوق کو اس حکم نامے سے انکار کا حق ھے نہ حیل وحجت کی اجازت .ماں نے تسبیح کے دانے تیزی سے گرانے شروع کر دئیے.پارس نے بیٹے کی طرف دیکھ کر دل ھی دل میں اسے عالم و حافظ بنانے کے اپنے اس فیصلے پہ اطمینان محسوس کیا.کہ چلو کچھ تو اگلے جہاں کے لیے ھے میں بلکل بھی تہی دامن نھیں ھوں .
اس پتھر کو پہلی بار محسوس ھوا کہ سینے میں رکھا پتھر گوشت پوست کے اک ٹکڑے میں بدل گیا ھے ..دھک دھک دھک ..اب تو دھڑکنے کی صدا بھی محسوس ھو رھی تھی..
تینوں بیٹوں کو بلوا لیا تھا وفا نے.اب باپ کے پاس فقط چند گھنٹے ھی تھے .مسیحاوں کی اک مجلس بیٹھی اور ان قابل و مستند ژرف نگاہ مسیحاوں نے اس مزمن مرض کے انجام کی پیشنگوئی بڑی صاف گوئی سے کر دی تھی .چند گھنٹو کے اس مہمان کی ساہوکارانہ فطرت نے اسے بےچین کر رکھا تھا.وہ تینوں بیٹوں سے کہہ رھا تھا مجھ سے بہت بڑی غلطی ھو چکی ھے.اور اب اس غلطی کا ازالہ تم لوگوں کے ھاتھ میں ھے .میرے وھم و گماں میں بھی نہ تھا کہ دست اجل اسقدر اچانک مجھے گرفت میں لے کر بے بس کر دے گی ورنہ میرے جیسا کاروباری شحص صدقہ جاریہ کے لیے اپنی اخرت کے لیے روز محشر کے لیے کچھ تو عملا ضرور کرتا..مجھے پل صراط کا سفر درپیش ھوگا .میں کچھ بوجھ اتار کے ھلکا پھلکا ھونا چاھتا ھوں .عذاب قبر سے نجات کا کوئی تو سامان ھو .
میں روشنیوں کا عادی ھوں. اور ایمان کہتا ھے کنج گور میں تاریکی کی حکمرانی ھوگی.
میں نے نہ نماز پڑھی نہ اسے یاد کیا جو عنایتیں کرتا رھا …کرتا رھا ..اور مجھے سجدے کی توفیق نہ ھوئی.جب جھکا بھی تو سجدے میں ملاقات کی لذت نہ پائی کیونکہ سجدے میں بھی سودوزیاں کی فکر رھتی تھی.حساب لگاتا رھتا تھا.اس کو بھول کر جو بے حساب نوازتا رھتا ھے. وہ پوچھے گا تو سہی کہ تم نے اپنے رب کی اتنی نعمتوں کو ھمیشہ اپنا حق سمجھ کر وصول کیا .کچھ فرایض بھی تو تھے نا .وہ کیوں نہ ادا کیئے قران کھول کر کبھی نہ پڑھا کہ رب نے کونسے اصول بنا کر بھیجے ھیں اس فانی زندگی کو ابدی حیات کی زینت بنانے کے لیے . نیکیوں سے یوں دور رھا جیسے زمیں سے آسماں دور رھتا ھے.دنیا بھر کے سفر کر چکا مگر حج کا سفر نہ کیا کہ ابھی تو جوان ھوں .ابھی تو لذت گناہ کے مزے لیتا رھوں .بڑھاپے میں حج کر کے گناہ بخشوا لوں گا.صدقہ و خیرآت تو بہت کیئے مگر وہ رحیم و کریم نیتوں کے حال سے بھی تو واقف ھے .نیت ھی خودنمائی اور دنیاوی فواید کی تھی.سو وہ بھی گئے گناھوں کے سمندر میں بہہ گیے..اسے یاد تھا اس حالت میں بھی .کہ کس بینک میں کتنا کچھ پڑا ھے .لیکن دماغ پہ زور ڈال کر بھی اک سجدہ یاد نہ آیا جو سچے دل سے صرف اس لیے کیا ھو کہ رب راضی ھو جائے .وہ کہہ رھا تھا.
ایسا کرو میری اسلام اباد والی زمین مدرسے کے لیے وقف کردو .ایک بیٹا تڑپ کر بولا.
نھیں بابا وھاں شاپنگ پلازہ بنانے کا مصمم ارادہ ھے میرا.اچھا ایسا کرو کراچی والی کوٹھی میں یتیم بچوں کی تعلیم تربیت کا کوئی انتظام کر دو.
دوسرا بیٹا جلدی سے بولا نھیں بابا جان وہ کوٹھی میری ھے مجھے اس کا محل وقوع بہت پسند ھے .وہ کسی کو نھیں دوں گا.لہجہ فیصلہ کن تھا.وہ عالم و حافظ بیٹے کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھنے لگا.اسے تو دنیاوی متاع باپ کی مغفرت سے زیادہ عزیز نھیں ھوگی.اک امید سی دل میں جاگی.وہ سر جھکائے تسبیح پہ اسم مبارکہ کے ورد میں مصروف تھا میرے بچے تمہارے پاس جو زمین ھے اس پہ بہت بڑی مسجد بنا لینا میرے نام پہ.. کہ.. مجھے تاریکی سے بہت ڈر لگتا ھے .میری قبر میں تھوڑی سی روشنی ھو جایا کرے گی وہ باپ کی طرف دیکھ کر گویا ھوا.بخدا باباجان میں نے عمر بھر دنیاوی چیزوں کی لالچ نھیں کی نہ مجھے اس فانی دنیا سے کچھ غرض ھے .میری تو بس اپنی ھی اک الگ دنیا ھے اور میری اس روحانی تربیت کا سارا سہرہ اپ کے سر جاتا ھے بابا جان .
مگر عرض ھے کہ اپ نے اپنے دست مبارک سے وہ زمین میری منکوحہ کے حق مہر میں لکھ دی تھی.عورت ذات ناقص العقل ھوتی ھے وہ اس زمین سے دستبرداری کے لیے ھر گز تیار نہ ھوگی. زمین و جائیداد کے بارے میں جو بھیا اور بھائی جان کا فیصلہ ھوگا وہ ھی میرا فیصلہ ھوگا .وہ مجبور تھا .بار بار نئے سفر کے لیے زاد راہ کی فکر اسکی بے قراری بڑھا رھی تھی.اسے تیزی سے گزرتے وقت کا احساس تھا اس نے وفا کو پاس بلایا.
وہ غمگین نظروں سے اسے دیکھ رھی تھی.تم کچھ کرو وفا.تم میری اخری امید ھو.بخدا میرے سرتاج مُقْتَضائے وَفا تو یہ ھے
میں اپنی ساری سانسیں اپ پہ قربان کر کے سرخرو ھو جاوں .
لیکن صد افسوس کہ وفا کے بس میں تو فقط درد ھی سہنا ھے .
سنو وفا..اک آخری خواھش ھے.اور اس خواھش کی تکمیل اب تمہارے ھاتھ میں ھے.وفا ھمہ تن گوش تھی.چند جملے سرگوشیوں کی صورت اسکی سماعتوں کی نظر کرکے وہ پرسکون سا ھو گیا.وفا شش وپنج کا شکار تھی.حافظ بیٹے کے سامنے سارا معاملہ رکھا.
وہ بھی سوچ میں گم کئی لمحے ماں کے مقدس چہرے کو تکتا رھا.علما کا اس بات پہ اختلاف ھے ماں..کچھ کا کہنا ھے کہ یہ ناجایز ھے اور کچھ اسے جایز کہتے ھیں.
اک مبہم سی نیکی ھے یا جانے نیکی ھے بھی یا نھیں؟ بلکہ مجھے خفیف سا گمان ھے کہ یہ گناہ نہ ھو .اپنے جسم پہ اگر انسان کا اختیار ھوتا تو خود کشی حرام نہ ھوتی.مگر ھمارے پاس وقت کی تنگی ھے.تصدیق او تردید کا انتظار نہ کرو میرے بچے..میں تو صرف یہ جانتی ھوں کہ یہ میرے شوھر کی اخری خواھش ھے.اور مجھے یقین واثق ھے کہ اس قربانی کی صلے میں ان گنت دعائیں انھیں ملیں گی .اور دکھی دلوں کی آہیں ھوں یا دعائیں سیدھی عرش تک جاتی ھیں ..دعاوں سے بڑھکڑ تو کوئی اور دولت نھیں ھوتی.
دوسرے دن طلوع سحر سے پہلے ھی اسکی زندگی کا سورج غروب ھو گیا .دم اخر بہت پرسکون تھا پارس حبیب.وفا نے اسے اطمینان دلا دیا تھا کہ اسکے سب صحت مند اعضا ضرورت مندوں کو لگا دیئے جائیں گے پھر .اس کا صحت مند دل اک 22 سالہ ایسے جوان کو لگایا دیا گیا .جو سات بہنوں اور بیوہ ماں کا اکلوتا سہارا تھا.اسکے گردے بھی دو مختلف لوگوں کو دان کر دئیے گئے تھے. جن میں ایک 5 چھوٹے چھوٹے بچوں کا باپ تھا اور ایک ایسا نوجوان غازی تھا جس کی بیوئی کے ھاتھوں کی مھندی بھی ابھی سرخ تھی جو ایک دھماکے میں اپنے جسم کے اعضا کھو چکا تھا. اس کی آنکھیں بھی اک بے رنگ زندگی کو رنگ دے چکی تھیں.
پارس حبیب کی موت کے بہت دن بعد چند لوگ وفا سے ملاقات کے لیے ڈراینگ روم میں بیٹھے تھے.وہ سب اکٹھے ائے تھے.محسن کی بیوئی سے ملنے .وہ کالے کپڑوں میں ملبوس ھاتھ میں تسبیح تھامے اندر داخل ھوئی .سب احترام میں با ادب کھڑے ھو گئے.
بیوہ ماں اور سات بہنوں کی جھولیاں پھیلی ھوئی تھیں.اور لبوں پہ دعاوں کے پھول تھے.
واہ پارس حبیب .اتنے پھول تو تمہاری لحد کو اندر باھر سے مہکا نے کے لیے کافی ھیں..
پارس حبیب کے لیے دعائیں تو وہ 5 بچے اور ان کی ماں بھی کر رھی تھی.جن کے رزق اور تحفظ کا واحد ذریعہ ھی رب نے اک شحص کو بنا رکھا تھا.. جسے زندگی کی نوید پارس حبیب کی موت سے ملی تھی یہ دعاوں کے جگنو قبر کے اندھیرے کو مٹانے کے لیے بہت ھوں گے پارس حبیب .اس غازی کے گھر والے بھی دعاوں کی سوغات لیے اسکے سامنے کھڑے تھے.دو نابینا انکھیں بینائی کی روشنی سے منور تھیں.وہ انسووں کی زبان میں اس نیکی کے بدلے دعائیں دے رھی تھی.وفا نے سامنے دیوار پہ آویزاں پارس حبیب کی قد ادم تصویر کی طرف دیکھا اور بڑبڑائی .واہ پارس حبیب کمال کے ساہو کار نکلے تم توموت کو بھی گھاٹے کا سودا نہ بننے دیا..وفا کو ایسا لگا پارس حبیب بھی مسکرا رھا ھے ..
https://www.facebook.com/groups/1690875667845800/permalink/1751047648495268/